جب لوٹ مار ہوتی ہے، تو فائرنگ بھی ہوتی ہے

سابق سفید فام پولیس افسر اور اس کے بیٹے کے ہاتھوں ماہِ فروری میں جارجیا کے سیاہ فام شہری احمد آربری کے قتل پر سماجی بحث ختم نہ ہوپائی تھی کہ جارج فلائیڈ کی پولیس حراست میں ہلاکت نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ امریکی سیاہ فام شہری کے ماورائے عدالت قتل پر مؤقف یہ سامنے آیا کہ مقتول جعلی کرنسی (بیس ڈالر) پر خریداری کی کوشش کررہا تھا، جس پر اُسے گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی۔ مزاحمت پر پولیس نے قابو کیا اور اس دوران دَم گھٹنے سے جارج فلائیڈ ہلاک ہوگیا۔ اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہوئی، تو عوام میں شدید غم و غصہ تھا، جب امریکی صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ ’’جب لوٹ مار ہوتی ہے، تو فائرنگ بھی ہوتی ہے!‘‘ تواس ٹویٹ نے سیاہ فام عوام کے زخموں کو جیسے کرچ ڈالا، تادم تحریرامریکہ کی مختلف ریاستوں میں جلاؤ، گھیراؤ اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے۔
دنیا کا کوئی قانون ماورائے عدالت کسی بھی شخص کی جان لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ بالخصوص قانون نافذ کرنے والوں اداروں کو اس اَمر کا خیال رکھنا ازحد ضروری ہے کہ وہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے ہیں۔ اگران کے اہلکار اس طرح کے عوامل کو فروغ دیں گے، تو اس کا اثر سخت اشتعال کی صورت میں ہی سامنے آئے گا۔ 2014ء میں امریکہ کے شہرفرگوسن میں سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں مائیکل براؤن نامی سیاہ فام شہری کی ہلاکت کے بعد ملک گیر سطح پر احتجاج کا سلسلہ دراز ہوا، اور آج اس اَمر کو پھروقعت ملی کہ اس قسم کے اقدام مخصوص سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ پہلو غور طلب ہے کہ صرف سیاہ فام شہریوں کے ساتھ پولیس اہلکاروں کے یہ رویے تواتر سے کیوں سامنے آ رہے ہیں؟ امریکی معاشرے میں اس رجحان کو بھی خصوصی طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے کہ جب بھی احتجاج کی کوئی تحریک اشتعال انگیزی میں داخل ہوتی ہے، تو لوٹ مار کا ایک ایسا سلسلہ جا نکلتا ہے جو سیکورٹی سسٹم کے جمود کا شکار ہونے کے بعد مشتعل مظاہرین کے لیے فائدے کا سبب بن جاتا ہے۔ اس سے اُن مظاہرین کے پُرامن احتجاج پر اعتراضات اٹھ جاتے ہیں کہ شر پسند عناصر کا مقصد احتجاج کی آڑ میں لوٹ مار کرنا تھا۔ حالیہ مظاہروں کے دوران اسٹور لوٹنے کے دوران واشنگٹن میں گرفتار سیاہ فام شہری کے ساتھ جارج فلائیڈ طرزکا طریقہ اپنایا گیا، مگر خوش قسمتی سے اُس نوجوان کو بچا لیا گیا، جو مدد کے لیے پکار رہا تھا۔
قارئین، کرونا وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ہیں، وہیں یہ افسوس ناک پہلو بھی سامنے آیا ہے کہ برطانیہ میں زیادہ تر ہلاکتیں نسلی اقلیتوں کی ہوئی ہیں۔ رپورٹ میں وجوہ بیان نہیں کی گئیں، لیکن مغربی معاشرے میں نسلی عصبیت و امتیاز کی روش کو مدنظر رکھتے ہوئے گمان کیا جائے، تو بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ نسلی اقلیتوں کو علاج معالجہ اور کرونا سے بچاؤ کی تدابیر و محفوظ رکھنے میں نسلی امتیاز کی سوچ بھی کارفرما ہوسکتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ کرونا سے کتنے افراد ہلاک ہوئے؟ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ نسلی اقلیتوں کے افراد کی تعداد سب سے زیادہ کیوں ہے؟ آنے والے وقتوں میں کئی ایسے پہلو بھی منظر عام پر آنے کی توقع ہے کہ نسلی امتیاز امریکہ اور برطانیہ سمیت مغربی ممالک کی جڑیں کھوکھلی کردے گا۔ بالخصوص کرونا کی آڑ میں چینی شہریوں کے ساتھ جو نفرت انگیز سلوک روا رکھا گیا، اور صدر ٹرمپ سے لے کر امریکی حکام کا وبا کو چینی وائرس کہنا دراصل نسلی تعصب کو سرکاری سطح پر نمایاں کرتا ہے ۔
اگر ان حالات میں سیاہ فام شہریو ں کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کا رویہ نسلی امتیاز کے تحت انتہائی متشدد ہوجاتا ہے، تو یقینی طور عالمی سطح پر اس نفرت انگیز رویے کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی معاشرے میں طبقاتی تفریق احساسِ محرومی کو جنم دیتی ہے۔ یہ احساسِ محرومی بتدریج متشدد رویوں میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتا ہے اور معاشرتی ناہمواری کا سبب بنتا ہے۔ امریکی معاشرہ ہو یا مغرب و مشرقی اقدار، طبقاتی تفریق نے ہمیشہ کمزور حلقوں کو متاثر کیا ہے۔ جدیدیت اور ترقی یافتہ ہونے کے باوجود تمام طبقات کے لیے یکساں رویہ نہ رکھنا،خلفشار کا باعث بنتا ہے ۔
چوں کہ امریکہ دورِ غلامی میں بدترین طبقاتی تفریق کا شکار رہا اور اُس وقت سیاہ فام افراد کے ساتھ آمرانہ سوچ نے انہیں بنیادی حقوق سے محروم رکھا۔ یہ سوچ کسی نہ کسی شکل میں پروان چڑھتی رہی، نسلی بالادستی کے نظریے نے تہذیب یافتہ اقوام کو دیمک کی طرح چاٹنا شروع کیا، تو اس کے مضمرات سے ترقی پذیر ممالک اور تیسری دنیا بھی متاثر ہوئی۔ نسلی بالادستی کے منفی رجحان نے مذہبی امتیاز کو بھی اپنی کوکھ سے جنم دیا، اور نسلی متیاز کے اس زہر نے دنیا کے تاریخی ممالک کو کشت و خون کا بازار بنا دیا۔ یہ نظریہ کسی فردِ واحد کی ذاتی سوچ تک محدود نہیں۔ حالات و واقعات ثابت کرتے ہیں کہ ریاست کی ناکامی اور بیانیہ میں تضاد نے اقوام کو شدید نقصان پہنچایا۔
بالادستی کے اسی تصور نے مشرقِ وسطیٰ میں اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرکے ناجائز ریاست اسرائیل کوجنم دیا۔ بالادستی کے جواز نے طاقت کے استعمال سے عظیم مشرق وسطیٰ میں جنگوں کو فروغ دیا۔ لاکھوں خاندان بے گھر ہوئے، توکروڑوں انسانوں نے ہجرت کی۔ بالادستی کے اسی زعم میں افغانستان میں 40 برسوں سے تباہی و بے امنی پھیلائی گئی ہے، تو بالادستی کے اس خمار نے مقبوضہ کشمیر میں نہتے شہریوں کے خون سے ہولی کھیلنا وتیرہ بنا لیا ہے۔ بات ایک فردِ واحد کی سوچ سے نکل کر پورے ملک، خطے اور پھر پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ اس سوچ کو مثبت حالات میں ڈھالنے کی ذمے داری ریاست پر عائد ہوتی ہے کہ اُن طبقات کے احساسات کو سمجھے، جو اُسے احساسِ کمتری و محرومی کا شکار کر رہے ہیں۔ یہ ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہے کہ اس کے اداروں میں تعصب، عصبیت منافرت کی سوچ کیوں پروان چڑھ رہی ہے؟ یہ مسئلہ صرف امریکہ کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا ہے ۔
پولیس حکام نے سیاہ فام شہری کے خلاف تھرڈ ڈگری مرڈر چارج شیٹ دائر تو کر دی ہے لیکن عوام اس سے مطمئن نہیں۔ تھرڈ ڈگری مرڈر چارج شیٹ سے مُرادکہ’’متعلقہ پولیس اہلکار کی جارج فلائیڈ کو قتل کرنے کی نیت نہیں تھی۔‘‘ پولیس اہلکار کے خلاف کسی کارروائی ہونے کی صورت میں عمداً قتل کی دفعات بہت کم لگائی جاتی ہیں۔ تاہم تھرڈ ڈگری مرڈر چارج شیٹ کا سہارا لے کر عمداً قتل کو سہواً قرار دینے کی روش کسی بھی معاشرے کے حق میں بہتر نہیں۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔