وزیراعظم عمران خان کی کورونا فنڈز ریزنگ ٹیلی تھان میں اہلِ خیر نے دل کھول کر عطیات دیے۔ وزیراعظم نے بھی دل جمعی اور خوش دلی کے ساتھ تیکھے سوالات کے جوابات دیے اور وعدہ کیا کہ جمع ہونے والے روپے کی ایک ایک پائی غریبوں پر خرچ کی جائے گی، اور وہ خود اس کے ضامن ہوں گے۔ امید تھی کہ خیر و برکت کا جو ماحول پیدا ہوا وہ برقراررہے گا۔ افسوس! ہوا اس کے برعکس۔
مولانا طارق جمیل نے دعا سے تقریب کا اختتام کرناتھا۔ واعظ کو بھاشن کا موقع مل جائے وہ باز کہاں آتاہے۔ گرجے، برسے، روئے اور رُلایا۔ میڈیا کو انہوں نے جھوٹوں کا امام اور عورتوں کو بے حیائی کا منبع قرار دیا۔ کورنا کو اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق سے ناراضی کا ایک اظہار بتایا۔ ان کے خطاب نے ملک بھر میں ہیجان برپا کردیا۔ بھڑ کے چھتے میں ہاتھ مولانا نے اپنی مرضی سے ڈالا۔ میڈیا ئی بزرجمہروں نے ایسی ہاہا کار مچائی کہ عطیات جمع کرنے، کورنا سے محفوظ رہنے اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی مدد کے لیے سجائی گئی ٹیلی تھان اور لوگوں کے ایثار کا ذکر ہی پس منظر میں چلا گیا۔ سوشل میڈیا پر مولانا کی خوب بھد اڑائی گئی۔ حتیٰ کہ انہوں نے معافی مانگ لی، لیکن بحث تمام نہ ہوئی۔
لبرل فکر کی علمبردار خواتین بھی مولانا پر ابابیلوں کی طرح ٹوٹ پڑیں۔ غیر متوقع طور پر گفتگو میں مولانا کی نکتہ چینی کا زیادہ ہدف خواتین رہیں۔ چند ہفتے قبل ایک ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر نے ایک خاتون کے ساتھ ٹیلی وژن پر بدتمیزی کی تھی۔ خلیل کے دلخراش جملوں نے جو گھاؤ لگائے تھے، ابھی وہ مندمل نہ ہوپائے تھے کہ مولانا نے بھی خواتین کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ کہرام تو مچنا ہی تھا۔
مولانا کا مَیں مداح ہوں۔ ان کی سماجی فکر کا نہیں۔ بیان ان کا شوق سے سنتا ہوں۔ حوروں کا قصہ لچھے دار انداز میں بیان کرتے ہیں، تو سامعین گفتگو میں محو ہوجاتے ہیں۔ افریقہ کے لوگوں کوایک بیان میں بدشکل کہا، تو سر پکڑ لیا۔باوجود اس کے مولانا میری پسندیدہ شخصیتوں میں سے ایک ہیں۔ عمومی طورپروہ متوازن مبلغ ہیں۔ اتحاد، یگانگت اور محبت کے پیغامبر، فرقہ پرستی سے کوسوں دور، مخلوقِ خدا سے محبت کرنے والے۔ رب العالمین کی ان صفات کو اجاگر کرتے ہیں جو غفور ورحیم ہے۔ توبہ کا دروازہ ہروقت کھلا رکھتاہے۔خطاؤں پر پردہ ڈالنے اور درگزرکرنے والا۔ خدا کا یہ تصور میرے دل کو بہت بھاتاہے ۔
زبان و بیان کے شہسوار ہارون الرشید صاحب سے نیاز مندی کو اب پچیس برس بیت چکے۔ پروفیسر احمد رفیق اختر ان کے مرشد ہی نہیں بے تکلف دوست بھی ہیں۔ ان کے ہمراہ پروفیسر رفیق احمد کی نشستوں میں بارہا شریک ہوا۔ شروع شروع میں مجلس میں طبیعت اکتاجاتی۔ ملک کے طول و عرض سے ہر کوئی ان کے دربار میں حاضر ہوتا ہے۔ تسبیح کی وہ اسے تاکید کرتے ہیں۔ گفتگو وہ سب کے ساتھ انہماک سے کرتے ہیں۔ سرِشام کھانا شوق سے کھلاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ بھی شفقت سے پیش آتے دیکھا، جن کی شناخت ہی بدعنوانوں کی ہے ۔
عرض کیا پروفیسرصاحب یہ معاشرے کے وہ لوگ ہیں جنہیں اس گھر کی دہلیز پار کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور آپ انہیں ترقی اور خوشحالی کے نسخے عطاکرتے ہیں۔ ان کی مشکلات میں کمی کے لیے دعافرماتے ہیں۔ جانتے نہیں کہ یہ کس قماش کے لوگ ہیں؟ میرے اندر برپا بے چینی کووہ بھانپ چکے۔ مسکرائے اور شفقت سے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا: ’’صوفی مخلوقِ خدا سے نفرت نہیں کرتا۔ شک نہیں کہ یہ لوگ اپنی غرض سے آتے ہیں۔ عقائد ان کے کچے دھاگے کی ماند ہیں، توہم پرستی کا شکار ہیں۔ اللہ سے لو لگانے کا راستہ ان کو دکھاتا ہوں تو کیا براکرتاہوں؟گناہوں اور خطاؤں کی معافی مانگے گا ،توبہ اور استغفار کا، رفتہ رفتہ اکثر لوگ بدل جاتے ہیں۔ بہتوں کے دلوں ، کانوں اور دماغوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگادی۔ آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ وہ خالی ہاتھ لوٹ جاتے ہیں۔‘‘
پروفیسر احمد رفیق اختر کی گفتگو نے میری سوچ کا دھارا بدل ڈالا۔ان کے برعکس مولانا طارق جمیل ایک مبلغ ہیں ،صوفی نہیں۔ لیکن دونوں کا مشن محبت کے ذریعے خالق اور مخلوق میں ربط پیدا کرنا ہے۔
مولاناطارق جمیل کا دل نشیں اندازِ بیاں دلوں کومسخر کرتا ہے۔ محفل میں شریک لوگوں کے سماجی رویوں میں بہتری آجاتی ہے۔ اصلاحِ معاشرہ ان کی کوششوں اور فکر کا محور ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے طارق جمیل صاحب نے غیر معمولی کوششیں کیں۔
میڈیا اور عورتوں بارے انہوں نے معاشرے میں پائی جانے والی عمومی سوچ کا اظہار کیا۔ ٹی وی دیکھنے اور اخبار کے مطالعہ کے رسیا بہت ہیں، لیکن اسے معتبر کم ہی تصورکرتے ہیں۔ بھولے نہیں لوگ کہ امریکی اور یورپی میڈیا جو آزادیِ اظہار کا سب سے بڑا پرچارک ہے، نے ریاستی اداروں کی سازبازکے ساتھ جھوٹ بولا۔ عراق اور لیبیا کے لاکھوں شہریوں کومیڈیا کے ایک جھوٹ نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بھارت کامیڈیا نریندرمودی کی پوجا کرتاہے۔ نہ کرے تو اشتہار رک جاتے ہیں۔ ٹیکس کے مقدمہ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دربارِشاہی میں رسوخ جاتا رہتاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کو سماج نے ایک الگ وجود کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا۔ ایک ایسا وجود جس کی اپنی سوچ اور فکر ہو۔ دنیا کو دیکھنے اور پرکھنے کا اپنا زاویہ ہو۔ مذہب سے زیادہ قبائلی روایات اور صدیوں کی جہالت ہمیں عورت کے بارے میں آزادی سے سوچنے نہیں دیتی۔ معاشرتی رویے اور فکر میں تبدیلی، نصابِ تعلیم بدلنے سے یا پارلیمنٹ کی قانون سازی سے نہیں آتی۔ سماجی تحریکیں لوگوں کے قلوب واذہان کے دریچوں کو وا کرتی ہیں۔عورتوں کے حوالے سے مولانا طارق جمیل نے جو کچھ کہا وہ مروجہ معاشرتی سوچ کا محض ایک اظہار ہے۔چنانچہ تبرہ بازی محض طارق جمیل پر ہی نہیں ہم سب پر کی جانی چاہیے۔
مکرر عرض ہے کہ مولانا طارق جمیل جیسے مبلغ اگر اپنے دائرے تک محدود رہیں، تو وہ زمین کا نمک اوردنیا کا نورہیں۔ عورتوں کے حقوق ہوں، میڈیا ئی عبقریوں کا تعصب خیز طرزِ عمل ہو یا پھر کورنا وائرس کی یلغار، یہ موضوعات ان کا میدان نہیں۔
طارق جمیل عداوتیں مٹانے ، رشتوں میں شیرینی گھولنے اور بھائی چارہ قائم کرنے کے مشن پر کاربند رہیں، تووہ ہم میں سے اکثرکی پسندیدہ شخصیت رہیں گے۔ تنازعات میں الجھ گئے، تو اور بہت سارے مبلغین کی طرح رزقِ خاک ہوجائیں۔
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔