پختونوں کے سیاسی و روحانی راہنما، تحریکِ آزادی کے ہیروز میں سے ایک ’’خان عبدالغفار خان‘‘ المعروف ’’باچا خان بابا‘‘ کی برسی مناتے وقت ان کی طویل، بامقصد، منفرد اور صبر آزما جد و جہد کے کئی ابواب ذہن کے سامنے کھل جاتے ہیں۔ بجا طور پر اس بات پر بحیثیتِ ایک پشتون کو فخر ہونے لگتا ہے کہ ان کی جد و جہد اور تحریک کے ساتھ وابستگی کتنے بڑے اعزاز کی بات ہے۔
باچا خان بابا ایک ایسے تاریخ ساز رہبر ہوگزرے ہیں، جنہوں نے اس خطے کی سیاست اور معاشرت میں نہ صرف یہ کہ غیر معمولی اصلاحات کیں، بلکہ اُنہوں نے تشدد کے خاتمے، تعلیم کے فروغ اور مفاہمت پر مبنی رویوں کی ترویج کے راستے، طریقے اور فوائد بھی بتائے۔ اپنے حیرت انگیز مشاہدے کے باعث ایک نبض شناس کی حیثیت سے اپنے عوام کی رہنمائی کا فریضہ اُنہوں نے جس استقامت کے ساتھ سر انجام دیا، اس کا اعتراف تاریخ دانوں اور عوام کے علاوہ اب ان کے مخالفین بھی کرنے لگے ہیں۔
آج ڈھیر سارے لوگ افغان جنگ میں پاکستان کے کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے نظر آ رہے ہیں، اور ہماری ’’افغان پالیسی‘‘ کے نتائج اور منفی اثرات بھی زیرِ بحث ہیں۔ تاہم باچا خان نے چالیس سال قبل اس جنگ کو دو ہاتھیوں (روس اور امریکہ) کی لڑائی کہہ کر پاکستان کو اس میں کودنے سے منع کردیا تھا۔ کیوں کہ اس وقت ہماری حیثیت ذکر شدہ طاقتوں کے مقابلہ میں ایک چیونٹی ہی کی تو تھی۔ اس استدلال یا طرزِ سیاست کی پاداش میں باچا خان بابا، ان کے فرزند ولی خان اور ان کے ساتھیوں پر کفر کے فتوے اور غداری کے الزامات لگائے گئے، مگر وہ اپنے مؤقف سے پیچھے نہ ہٹے۔ کیوں کہ ان کو حالات کا مکمل ادراک تھا۔
سرحدی گاندھی، فخرِ افغان اور خان عبدالغفار خان کے نام سے مشہور باچا خان بابا کی 32ویں برسی پچھلے ہفتہ منائی گئی۔ 20 جنوری 1988ء کو 97 سال کی عمر میں وفات پانے والے باچا خان بابا کی ایک ایک بات میں ہمارے لیے رہنمائی ہے۔ شاید اس وجہ سے آج ’’فرسٹ ورلڈ کنٹریز‘‘ میں باچا خان بابا کی پُرامن اور امن کے لیے جد و جہد سے بھرپور زندگی بچوں کو سکولوں میں پڑھائی جاتی ہے۔
بقولِ ڈاکٹر خادم حسین چیئرمین باچا خان ٹرسٹ امریکہ ’’ہمارے ہاں غدار کہلانے والے باچا خان کو آٹھ سے زائد ریاستوں میں بچوں کو تشدد سے دور رکھنے اور امن پسند شہری بنانے کے لیے باچا خان کی زندگی پر مبنی مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔‘‘
قارئین، آج ’’باچا خان بابا‘‘ کا دن ہے۔ ہمیں کم از کم آج کے دن ’’باچا خانی‘‘ کھیلنی چاہیے۔ مطلب یہ کہ باچاخان بابا کی باتیں کرنی چاہئیں جو انسانیت، آزادی، امن، تعلیم، بھائی چارہ، برابری کے حقوق وغیرہ کی باتیں ہیں۔ آج کے دن بابا کے بارے میں مجھ جیسا ادنیٰ طالب علم لکھنا چاہے بھی تو کیا لکھے گا؟
بابا کی پوری زندگی اس طرح کی باتوں سے عملی طور پر بھری پڑی ہے، جو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ مختصراً یہ کہوں گا کہ باچا خان بابا سے لاکھ اختلاف سہی، لیکن ہمیں زندگی میں ایک بار ان کی تعلیمات ضرور پڑھنی چاہئیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ جس ہستی کو پوری دنیا میں انقلاب اور قابض طاقت (انگریز) کے خلاف جد و جہد کا استعارہ مانا جاتا ہے، ان کے حوالہ سے ان کا اپنے ملک کے نصاب میں کوئی ذکر نہیں۔ مگر اس سے فرق بھی کوئی نہیں پڑتا کہ وہ پشتو کی ایک کہاوت کے مصداق ’’نمر پہ گوتہ نہ پٹیگی‘‘، بابا کی شخصیت بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ کسی کے نہ ماننے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ باچا خان بابا کی زندگی پر سیمینارز کا اہتمام کیا جائے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے افکار کی ترویج کی جائے۔ اخبارات، جرائد و رسائل کے ذریعے نوجوانوں کو یہ باور کرایا جائے کہ اگر آج ہم نے اپنے بڑوں کی قدر نہیں کی، اپنی تاریخ کو پسِ پشت ڈال دیا، تو تاریخ بھی ہمیں بھلا دے گی اور ہم رہتی دنیا تک ایک محکوم قوم کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔
باچا خان بابا نے عملی نمونا بن کر پشتونوں کو دکھایا کہ کس طرح عدم تشدد کا فلسفہ اپنا کر انگریز جیسے عیار اور مکار طاقت کو اپنی مَٹّی سے بھگایا جاسکتا ہے۔ وہ انگریز جو اپنے وقت کی سپر پاؤر تھا۔ اس وقت بابا کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ تاریخ کے اوراق سے گرد اُڑا کر دیکھیں، تو لگ پتا جائے گا کہ بابا کا فلسفہ آج بھی بڑی سے بڑی طاقت کو ناک رگڑنے پر مجبور کرسکتا ہے۔
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔