سرِ دست ایک مقامی ویب سائٹ (باخبر سوات ڈاٹ کام) میں شائع ہونے والی ایک عجیب سی خبر ملاحظہ ہو: ’’مینگورہ، غیر مقامی خواجہ سراؤں کو ضلع بدرکرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔‘‘ خبر کی تفصیل کچھ یوں ہے: ’’مینگورہ شہر میں مقیم غیر مقامی خواجہ سراؤں کو ضلع بدرکرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ مینگورہ پولیس اسٹیشن میں ڈی ایس پی سٹی ظاہر شاہ خان کی صدارت میں اجلاس ہوا، جس میں سول سوسائٹی کے افراد سمیت خواجہ سرا ایسوسی ایشن سوات کی صدر نادیہ خان نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ غیر مقامی خواجہ سراؤں کو ضلع چھوڑنے کی ہدایت کی جائے گی۔ تمام خواجہ سراؤں کے میڈیکل ٹیسٹ کیے جائیں گے۔ کسی بھی غیر مقامی خواجہ سرا کو کرایہ پر جگہ نہیں دی جائے گی۔ سوات خواجہ سرا ایسوسی ایشن رجسٹریشن کرے گی جس کا مقامی پولیس اسٹیشن میں اندراج ہوگا۔ خواجہ سرا خواتین کے کپڑوں میں بازاروں میں سر عام نہیں گھومیں گے۔ ڈی ایس پی ظاہر شاہ کا کہنا تھا کہ ہم نے پورے ضلع میں خواجہ سراؤں کی تفصیل اکٹھی کی ہے، جس کے مطابق کل 89 خواجہ سرا ہیں، جن میں 29 مقامی جب کہ 60 غیر مقامی ہیں۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیاکہ انہیں کھلے عام فحاشی پھیلانے کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘
بحیثیتِ ایک عام انسان، مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ میری اس تحریر کا پڑھنے والے کیا مطلب لیتے ہیں! مجھے اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ فیس بُک، ٹویٹر اور سوشل میڈیا کے دوسرے ذرائع پر سستی شہرت کے خواہاں بقراطی ٹائپ لوگ مجھے کس خطاب سے نوازتے ہیں، اور مجھے ککھ فرق نہیں پڑتا کہ اس فیصلہ کے خلاف آواز اٹھانے پر لوگ میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
میرے بارے میں رائے قائم کرنے والے پہلے ایک چھوٹا سا واقعہ سنیے۔ یہ شائد 2016ء کی بات ہے۔ مَیں ایک قومی ادارے کے لیے سلام پور گاؤں (سوات) کی انفرادیت پر سٹوری تیار کرنے گیا تھا۔ مجھے گاؤں کی تصویر ایک ایسے زاویہ سے لینا تھی، جس میں پورا گاؤں سما سکے۔ گاؤں والوں نے مجھے ساتھ ہی ایک پہاڑی پر چڑھنے کا کہا۔ القصہ، تصویر اتاری گئی۔ واپسی پر مجھے کھیتوں میں سے ایک چودہ پندرہ سالہ بچے کی کھلکھلاتی ہنسی سنائی دی۔ ہم غالباً موٹر سائیکل پر سوار تھے۔ دوست کو موٹر سائیکل روکنے کا کہا۔ جیسے ہی میں کھیت کے اندر گیا، دو بچے بیٹھے مجھے دیکھتے ہی سہم سے گئے۔ مَیں نے انہیں اپنائیت کا احساس دلانے کے لیے مسکرا کر کہا، کیا مَیں آپ لوگوں کے ساتھ بیٹھ سکتا ہوں۔ ایک بچے نے نسوانی انداز میں کہا، ’’اب آئے ہیں، تو بیٹھ ہی جائیے!‘‘ اس کا انداز روکھا سا تھا۔ مَیں نے اسے کہا، اگر آپ کو میری موجودگی اچھی نہیں لگتی، تو چلا جاتا ہوں۔ مگر دوسرے بچے نے بیٹھنے کا کہا، اس کی آواز اور لب و لہجہ کسی چودہ یا پندرہ سالہ لڑکی جیسا تھا۔ میرے اور ان کے درمیان اس وقت جو گفتگو ہوئی تھی، وہ تو کافی لمبی ہے، مگر اس کا لبِ لباب ملاحظہ ہو: ’’آپ کو شائد عجیب لگ رہا ہو کہ ہم دونوں گاؤں کی گہما گہمی سے دور پہاڑی کے دامن میں کھیتوں کے بیچ اکیلے بیٹھے ہیں اور ایک دوسرے کو دل کا حال سنا رہے ہیں۔ ہم سکول جاتے ہیں، تو راستے میں لوگ آوازے کستے ہیں، ہمیں عجیب ناموں سے پکارتے ہیں۔ سکول کے اندر بچے بھی ہمیں تنگ کرتے ہیں اور اساتذہ بھی ہمیں عجیب ناموں سے پکارتے ہیں۔گھر میں ماں اور بہنوں کے علاوہ ہم سے کوئی سیدھے منھ بات نہیں کرتا۔ بسا اوقات ہمارے ساتھ عجیب طرح کی حرکتیں بھی کی جاتی ہیں۔ اس لیے ہم دونوں یہاں بیٹھ کر اک آدھ گھنٹا گپ شپ لگاتے ہیں اورپھر واپس چلے جاتے ہیں۔‘‘
قارئین کرام! یہ محض دو بچوں کی کہانی نہیں۔ مَیں نے ایک ایسے ہی معصوم انسان (جسے لوگ ہیجڑا، خواجہ سرا اور پتا نہیں کن کن ناموں سے پکارتے ہیں) کا ایک بار انٹرویو کیا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’’جب مَیں بچہ تھا، تو میرے شقی القلب باپ نے مجھے یہ کہہ کر گھر سے نکالا تھا، کہ تو مرد ہے نہ عورت۔ تو میرے لیے عمر بھر کا روگ ہے۔ بہتر ہوگا کہ تو زہر کھا کے مر جا۔‘‘ بقول اُن کے خودکشی سے انہیں ڈر لگتا تھا، اس لیے وہ مینگورہ آئے، اور یہاں انہیں رہنے کو جگہ مل گئی۔
قارئین کرام! ہمارے گھر میں کوئی ایسا بندہ پیدا نہیں ہوا، اس لیے ہم یہ درد محسوس نہیں کرسکتے۔ میری کسی نشئی آدمی کو تکلیف میں دیکھتے ہوئے حالت کیوں غیر ہوجاتی ہے؟ اس لیے کہ میرے والدِ بزرگوار اسی لعنت کی وجہ سے ہمیں بچپن میں ہی داغِ مفارقت دے گئے ہیں۔ مَیں تو اُس وقت سے ڈرتا ہوں کہ میرے وجود سے ایسا کوئی معصوم جنم نہ لے، جس کی پھر اس بے رحم دنیا میں سوائے کسی بالا خانے کی اور کوئی جگہ نہ ہو۔
اب آتے ہیں تحریر کے آغاز میں حوالہ کے طور پر دی جانے والی خبر کی طرف۔
خبر کا پہلا نکتہ، ڈی ایس پی سٹی ’’حضرتِ ظاہر شاہ خان صاحب‘‘ آپ کو جس قانون نے اس منصب پر بٹھا رکھا ہے، اگر آپ اس کو مانتے ہیں، تو پھر آپ آئینِ پاکستان کو بھی مانتے ہوں گے۔ بقولِ نصیراللہ ایڈووکیٹ: ’’آئینِ پاکستان، ملک کی سرحد کے اندر اپنے ہر شہری کو نقل و حرکت کی آزادی دیتا ہے۔ ہر شہری کو پاکستان میں رہنے اور مفادِ عامہ کے پیشِ نظر قانون کے ذریعہ عائد کردہ کسی معقول پابندی کے تابع، پاکستان میں داخل ہونے اور اس کے ہر حصے میں آزادانہ نقل و حرکت اور اس کے کسی حصے میں سکونت اختیار کرنے اور آباد ہونے کا حق ہوگا۔‘‘

ڈی ایس پی سٹی ’’حضرتِ ظاہر شاہ خان صاحب‘‘ کی فائل فوٹو۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

حضرتِ ڈی ایس پی صاحب! اب اگر آپ آئینِ پاکستان سے روگردانی کرنے جا رہے ہیں، تو پھر تو آپ بہت پہنچے ہوئے ہوں گے۔
حضرتِ ڈی ایس پی صاحب! اگر آپ اتنے ہی طاقت ور ہیں، تو ایک درخواست مَیں بھی کرنا چاہوں گا، کہ خدا کے اِن بندوں کے ساتھ خدا کے اُن بندوں کا بھی ضلع بدری کا پروانہ جاری فرمائیں، جو ان کے پاس جا کر انہیں تنگ کرتے رہتے ہیں۔ ان پر تشدد کرتے ہیں اور انہیں ’’دعوتِ گناہ‘‘ دیا کرتے ہیں۔
حضرتِ ڈی ایس پی صاحب! یہ بھی اچھی بات ہے کہ آپ صاحبان نے خبر میں یہ حکم بھی صادر فرمایا ہے کہ تمام خواجہ سراؤں کے میڈیکل ٹیسٹ کیے جائیں گے، نور علی نور! ساتھ ہی ان حضرات کے بھی میڈیکل ٹیسٹ کروائیے، جو انہیں راستہ میں چھیڑا کرتے ہیں یا جو ان کے بالا خانوں پر روزانہ حاضری دیا کرتے ہیں۔
حضرتِ ڈی ایس پی صاحب! خبر کا آخری جملہ تو حد درجہ مضحکہ خیز ہے، مینگورہ شہر میں رہتے ہوئے، ایک ذمہ دار معلم، ایک صحافی اور ایک مؤقر روزنامہ کے ایڈیٹر کے طور پر کم از کم میری موجودگی یا میری آنکھوں کے سامنے ایک بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جس میں کسی خواجہ سرا نے کھلے عام فحاشی پھیلائی ہو۔ ان دس بارہ سالہ صحافتی زندگی میں کم از کم میرے ہاتھ ایسی کوئی رپورٹ نہیں آئی، جس میں کوئی خواجہ سرا ببانگ دُہل کسی کو دعوتِ گناہ دے رہا ہو۔ ہاں ایسی رپورٹیں ضرور سامنے آئی ہیں، کہ انہیں مارا پیٹا گیا ہے۔ ان کے کپڑے پھاڑے گئے ہیں۔
جنابِ والا! ہمارے ہاتھ تو آپ کے کچھ پیٹی بند بھائیوں کے خلاف بھی رپورٹیں لگی ہیں، جن کے مطابق انہیں ہراساں کیا گیا ہے، ان پر جسمانی تشدد کی گئی ہے اور…………! چلیں، رہنے دیں۔
بقولِ شاعر
بات نکلے گی، تو پھر دور تلک جائے گی
جنابِ والا! بہتر یہی ہوگا کہ آپ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے احکامات صادر فرمایا کریں۔ آپ مینگورہ شہر کے کچھ سستی شہرت کے حامل سوشل میڈیائی صفحات کے علاوہ بھی مطالعہ فرمایا کریں، اور یہاں اپنی سیاسی دکانیں چمکانے والوں کے علاوہ بھی لوگوں کو سنا کریں۔ خبر میں ’’سول سوسائٹی‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ میری تو ہنسی چھوٹتی ہے کہ محض 89 خواجہ سرا مینگورہ شہر کی ساڑھے چار لاکھ آبادی کے ایمان کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔
یہ حکومت کا کام ہے کہ ان بے بس و لاچار بندگانِ خدا کے لیے باعزت روزگار کا بندوبست کرے۔ تبدیلی سرکار، تو ماشاء اللہ جس کام میں ہاتھ ڈالتی ہے، اس کا بیڑا غرق کرکے ہی چھوڑتی ہے۔ اگر یہ کام صحیح طور سے کرلے اور ذکر شدہ بندگانِ خدا کو تحفظ ہی فراہم کرلیں، تو از چہ بہتر!
حضرتِ ڈی ایس پی صاحب! یہ چند اشعار ایک شاعر نے مذکورہ بندگانِ خدا کے لیے کہے ہیں، فرصت ملے، تو ان کے اندر درد کو ضرور محسوس کیجیے گا، مولا آپ کا اور آپ کے پاس آئی ہوئی ’’سول سوسائٹی‘‘کا بھلا کرے، آمین!
گالوں پر غازے کے پیچھے درد کے سوکھے پھول
لچکیلی بانہوں کی شاخوں پر نفرت کی دھول
ٹھمری کے بولوں میں پنہاں اکلاپے کا بین
دن آنکھوں میں کٹ جاتا ہے کیسے کٹے یہ رین
قوس قزح سے پیراہن میں سندر سندر جسم
ہونٹوں کی پھسلن پر گرتا پڑتا کورا اسم
کالی کالی قسمت ان کی نیلے پیلے خواب
اتنے رنگوں میں اپنی پہچان بھی ایک عذاب
کاش! کسی کے گھر خواجہ سرا پیدا نہ ہو۔

……………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔