پاکستانی قوم نے اپنا 71واں یومِ آزادی منایا۔ اگر غور کیا جائے، تو اس طویل مدت میں طبقۂ مقتدرہ ابھی انگریز آقا اور خوئے غلامی سے چمٹا ہوا ہے۔ حکمران طبقہ اور بیوروکریسی ملک کے وسائل کو بے دردی سے لوٹتے رہے ہیں۔ نتیجے میں ملک کی معاشی حالت روز بروز پتلی ہوتی جا رہی ہے، اور اس غریب قوم پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ بے انتہا مراعات، پروٹوکول اور سیکورٹی کی آڑ میں یہ لوگ ملک کے وسائل کو بے دردی سے خرچ کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک انگریز  خاتون کی سرگذشت پیش کی جاتی ہے، جس کا شوہر برطانوی دور میں انڈین سول سروس کا آفیسر تھا۔ خاتون نے زندگی کے کئی سال ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گزارے۔ برطانیہ واپسی پر اپنی یادداشتوں پر مبنی ایک بہت ہی خوبصورت کتاب لکھی۔
خاتون نے مذکورہ کتاب میں لکھا ہے کہ میرا شوہر جب ایک ضلع کا ڈپٹی کمشنر تھا، اس وقت میرا بیٹا کوئی چار سال کا اور بیٹی ایک سال کی تھی۔ ڈپٹی کمشنر کو ملنے والی کئی ایکڑ پر محیط رہائش گاہ میں ہم رہتے تھے۔ ڈی سی صاحب کے گھر اور خاندان کی خدمت پر کئی افراد مامور تھے۔ روز پارٹیاں ہوتیں، شکار کے پروگرام بنتے، ضلع کے بڑے بڑے زمین دار ہمیں اپنے ہاں مدعو کرنا قابل فخر سمجھتے۔ ہمارے ٹھاٹھ ایسے تھے کہ برطانیہ میں ملکہ اور شاہی خاندان کو بہ مشکل میسر تھے۔ ٹرین کے سفر کے دوران میں نوابی ٹھاٹھ سے آراستہ ایک عالی شان ڈبہ ڈی سی صاحب کی فیملی کے لیے مخصوص ہوتا۔ جب ہم ٹرین میں سوار ہوتے، تو سفید لباس میں ملبوس ڈرائیور ہمارے سامنے آکر دست بستہ کھڑا ہوجاتا اور سفر کے آغاز کی اجازت طلب کرتا۔ اجازت ملنے پر ہی ٹرین روا ہوتی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ہم سفر کے لیے ٹرین میں بیٹھے، تو روایت کے مطابق ڈرائیور نے حاضر ہو کر اجازت طلب کی۔ اس سے پہلے کہ میں بولتی، میرا بیٹا بول اٹھا جس کا موڈ کسی وجہ سے خراب تھا۔ اس نے ڈرائیور سے کہا کہ ٹرین نہیں چلانی۔ ڈرائیور نے تسلیم بجا لاتے ہوئے کہا کہ ’’جو حکم چھوٹے صاحب کا۔‘‘ کچھ دیر بعد صورتحال یہ تھی کہ سٹیشن ماسٹر سمیت پورا عملہ جمع ہوکر میرے چار سالہ بیٹے سے درخواست کر رہا تھا، لیکن بیٹا ٹرین روانہ ہونے کی اجازت دینے کو تیار نہ ہوا۔ بالآخر بڑی مشکل سے میں نے کئی چاکلیٹیں دینے کے وعدے پر بیٹے سے ٹرین چلوانے کی اجازت دلائی، تو سفر کا آغاز ہوا۔ چند ماہ بعد میں اپنی سہیلیوں اور رشتہ داروں سے ملنے واپس برطانیہ آئی۔ ہم بذریعہ بحری جہاز لندن پہنچے۔ ہماری منزل ویلز کی ایک کاؤنٹی تھی، جس کے لیے ہم نے ٹرین کا سفر کرنا تھا۔ بیٹی اور بیٹے کو سٹیشن کے ایک بینچ پر بٹھا کر میں ٹکٹ لینے چلی گئی۔ قطار طویل ہونے کی وجہ سے خاصی دیر لگی، جس پر بیٹے کا موڈ بہت خراب ہوگیا۔ جب ہم ٹرین میں بیٹھے، تو عالیشان کمپاؤنڈ کی بجائے فرسٹ کلاس کی سیٹیں دیکھ کر بیٹا ایک بار پھر ناراضی کا اظہار کرنے لگا۔ وقت پر ٹرین نے وسل دے کر سفر شروع کیا، تو بیٹے نے باقاعدہ چیخنا شروع کیا۔ وہ زور زور سے کہہ رہا تھا کہ ’’یہ کیسا اُلو ڈرائیور ہے۔ ہم سے اجازت لیے بغیر ہی اس نے ٹرین چلانا شروع کردی۔ میں پپّا سے کہہ کر اسے جوتے لگواؤں گا۔‘‘ میرے لیے اُسے سمجھانا مشکل ہوگیا کہ ’’یہ اس کے باپ کا ضلع نہیں بلکہ آزاد ملک ہے۔ یہاں ڈپٹی کمشنر جیسے تیسرے درجہ کے سرکاری ملازم تو کیا، وزیراعظم اور بادشاہ کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنی انا کی تسکین کے لیے عوام کو خوار کرسکے۔‘‘
قارئین، آج ہم سب واضح طور پر دیکھ رہے کہ ہم نے انگریزوں کو ضرور نکالا، البتہ غلامی کو دیس نکالا نہیں دے سکے۔ یہاں آج بھی ڈپٹی کمشنر، گورنر، منسٹر، مشیر اور سیاست دان و بیورو کریٹ صرف اپنی انا کی تسکین کے لیے عوام کو گھنٹوں سڑکوں پر ذلیل و خوار کرتے ہیں۔ اس غلامی سے نجات کی واحد صورت یہی ہے کہ ہر طرح کے تعصبات اور عقیدتوں کو بالائے طاق رکھ کر ہر پروٹوکول لینے والے کی مخالفت کرنی ہے۔ ورنہ صرف 14اگست کو جھنڈے لگا کر اور روشنیاں جلاکر خود کو دھوکا دینا ہے کہ ہم آزاد ہیں، خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔

……………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔