اس ملک میں عجیب تماشا ہے۔ ہم بے وقوفوں کو ایک غار سے نکال کر دوسرے میں ڈال دیا جاتا ہے اور ہم ہیں کہ پہلے غار کی تاریکیوں کو اور اس سے منسلک سراب کو بھول جاتے ہیں اور دوسرے میں سکون سے پناہ لیتے ہیں۔ ہمارا منھ غار کی دیوار کی طرف ہوتا ہے اور غار سے باہر جو کچھ ہورہا ہو، اسے الٹا دیکھنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ پھر اگر ہم میں سے کوئی مڑنے کی کوشش کرتا ہے، تو اُسے انہی القابات سے نوازتے ہیں جن کو غار کے دھانے پر کھڑے چوکیدار گھڑتا ہے، جن میں ملک دشمن، غدار، ایجنٹ، لادین اور لبرل جیسے القابات نمایاں ہوتے ہیں۔
آدھا ملک گنوا دیا ہم بغلیں بجاتے رہے۔ ضیا نے ’’مارشل لا‘ لگایا اور ا ہم اسلامی نظام کی امید پر بغلیں بجاتے رہے۔ اس وقت کا نواز شریف، ضیا کی گود میں بیٹھ گیا اور ایک نہتی عورت کی زندگی اجیرن کردی۔ ہم ’’اسلام میں عورت کی حکمرانی جائز ہے کہ نہیں‘‘ کا راگ الاپتے رہے۔ وہ ضیا آموں کے ساتھ ہوا میں پھٹ گیا اور ہم سکولوں میں روتے رہے۔ ہمیں کہا گیا کہ جب وہ مرا تو اس کی جیب میں سورۂ یاسین تھی۔ ہم اسی کو ضیا کی سب سے بڑی نیکی سمجھ کر روتے رہے۔ پھر 1988ء میں ایک عورت پاکستان کی سیاست پر زبردستی چھا گئی، تو ہم اسے ’’رنڈی‘‘ کہتے رہے۔ انہوں نے جب چوکیدار کی باتوں میں آکر پڑوس ملک میں طالبان بھیجے، تو ہم اسے جہاد سمجھ کر سبحان اللہ، سبحان اللہ کرتے رہے۔
جب اس کے خلاف ایک اگنی مولوی نے چوکیدار کے کہنے پراحتجاجی اجتماعات شروع کیں، تو ہم بستر لے کر ’’ثوابِ دارین‘‘ سمجھ کر ان میں شرکت کرتے رہے۔ ان اجتماعات میں جنرل حمید گل، کشمیر کا مست گل وغیرہ عالمِ اسلام کے اتحاد کے درس لینے لگے، تو ہمیں وہیں سٹیج پہ کھڑے یہ لوگ عالمِ اسلام کے ’’نابغہ روزگار لیڈران‘‘ لگنے لگے۔ پھر ان اجتماعات کے چند دنوں بعد جب اس وقت کے صدر نے چوکیدار کے کہنے پر ان حکومتوں کو برطرف کیا، تو ہم نے شکر ادا کیا کہ اسلام ایک عورت کے فتنے سے بچ گیا۔
آگے جاکر جب اسی عورت کے خلاف جرنیلوں، نواز شریف اور تاجروں نے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا، تو یہ ہمیں عالمِ اسلام کے سارے مسائل کا واحد حل لگا۔ ایک دو باری لے کر جب یہ کھیل 1999ء میں فوجی بغاوت کے ذریعے ختم ہوا، تو ہمیں ’’نیا‘‘ اور ’’روشن خیال پاکستان‘‘ بنتے نظر آیا۔ بہت سوں کو ٹی وی پر مشرف کے کتوں سے امید پیدا ہوگئی کہ اب کی بار ایک روشن خیال اور طاقتور سربراہ آیا ہے۔ جن کو ان کتوں اور روشن خیالی پر اعتراض تھا وہ بعد میں 2002ء کے الیکشن میں متحدہ مجلس عمل کی صورت میں انہی کتوں کے ساتھی بن گئے۔ دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کو توڑ کر ’’بادشاہ‘‘ کی پارٹی بنائی گئی، اور ہم بادشاہ کے دربار میں جہاں پناہ، ظلِ سبحانی کا ورد کرتے رہے۔ آج کے مقبول عام رہنما اور وزیراعظم، مشرف کے اقتدار کو ریفرنڈم کے ذریعے استحکام دینے میں پیش پیش رہے اور ہم جیسے نابالغوں نے ان کے کہنے پر اس ریفرنڈم میں بغیر شناختی کارڈ کے دس دس ووٹ ڈال دیے۔
مشرف اور ساتھی جرنیلوں نے ملک میں دہشت گردی کا ہیجان بنائے رکھا، تاکہ لوگ اقتدار اور سیاست بھول جائیں۔ جس طرح آج کل نیب، عدلیہ اور بیسیوں ترجمانوں کے ذریعے ملک کو ہیجان میں رکھا جا رہا ہے۔ اسی طرح مشرف نے دہشت گردی کے ٹوٹکے سے یہ ہیجان رکھا، جو جانیں لیتا اور ماردھاڑ پر مبنی تھا۔ ہم بغلیں بجاتے رہے اور واہ واہ کرتے رہے۔ پھر انہوں نے عدلیہ کو مزید دبانے کی خاطر چھیڑا، تو صورت حال کہیں سے مختلف ہوگئی۔ کیوں کہ موصوف کی وردی اور بہ یک وقت دو اعلیٰ ترین عہدے رکھنے پر چوکیداروں کے ایک قبیلے کو اعتراض تھا۔ کالا کوٹ اُٹھا اور ایک تحریک شروع ہوئی۔
ایسے میں ہمارے لیے دوسرا غار تیار کیا گیا۔ وردی اُتر گئی۔ الیکشن ہوئے اور ’’بدنامِ زمانہ‘‘ آصف زرداری اقتدارمیں آگئے، مگر کیا آگئے۔ ان کو کوئلے کے دھکتے آگ پر چلنا پڑا۔ وہ اعلیٰ قاضی چوکیدار کے کہنے پر اس حکومت کے پیچھے استرا لے کر چل نکلا۔ اِس کو نااہل کیا، پھر اُس کو نااہل کیا۔ وزیراعظم یہ جا وہ جا۔ ایسے میں دنیا کا سب سے زیادہ پسندیدہ شخص ایبٹ آباد میں نازل ہوکر نمودار ہوا۔ چوکیدار کو خفت ہوئی اور اُس نے باری دوسرے کو دینے کی ٹھانی۔
جوں ہی اس نے باری لی، پھر ملک میں باری باری لینے کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ 35 پنکچر والی کہانی شروع ہوئی۔ جب اس سے ہوا نکل گئی، تو دھرنے شروع ہوئے۔ ایسے میں پاکستان کے دفاع کے لیے ہمہ وقت چست بڈھے، جن کی اپنی اولاد پاکستان سے باہر رہتی ہے، جمع ہوئے اور کوئی ’’دفاعِ پاکستان کونسل‘‘ نام کی شے نے احتجاج شروع کیے۔ جب معاملہ نہ ہوا، تو ڈان لیکس والی کوئی کہانی سامنے آگئی جس میں چوکیدارصاحب کو خفگی ہوئی۔ بات نہ بنی۔ معاملہ آگے بڑھتا گیا، اور ساتھ دھرنے بھی۔ ایک آگ لگاتا اپاہچ مولوی کہیں سے نمودار کیا گیا اور اس نے ریاست کو ٹھپ کرکے رکھ دیا۔ چوکیدار نے اپنے لوگوں کے خلاف ایکشن لینے سے انکار کیا اس وقت (بعد میں جب وزیر اعظم اپنا بندہ بنا، تو اس مولوی کو قید کیا اور اس کی تحریک کو سانپ سونگھ گیا)۔ ایک دوسرے غار کی تیاری تھی۔ ہمیں پھر ’’نیا پاکستان‘‘ کا نام دے کر ایک اور غار میں دھکیل دیا۔
یہ غار بعینہٖ اسی طرح ہے جس طرح 1977ء اور 1999ء کو تھا۔ اب ہم ایک بار پھر پلٹ کر 1977ء والے غار میں چلے گئے ہیں، جب کہ چوکیدار نے دشمن چوکیدار کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے، لیکن ہم ’’اے وطن کے سجلے جوانو!‘‘ گاتے تھے۔ یہ سب تاریخ بھول گئے ہیں اور ایک بار پھر چوکیدار کی شان میں ایسی تعریفیں کر رہے ہیں کہ الامان و الحفیظ!
جو پیچھے مڑکر غار سے باہر دیکھنے کی کوشش کرے اسے اٹھا لیا جاتا ہے، اور غار کی دیوار سے باندھ دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی نچلی سطح پر پیچھے مڑنے کی سوچے، تو اسے غدار، ملک دشمن اور لبرل قرار دے کر اس کا سر غار کی دیوار میں پھوڑ دیا جاتا ہے۔
اشہرؔ کہیں قریب ہی تاریک غار ہے
جگنو کی روشنی کو وہیں چل کے چھوڑ دیں

…………………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔