حنفی، حنبلی، شافعی اور مالکی مکاتب کے مطابق اگر کسی حاملہ عورت یا بچے کو دودھ پلانے والی ماں کو اپنی یا اپنے بچے کی صحت کے حوالے سے خطرہ دامن گیر ہو، تو اس کا روزہ رکھنا جائز تو ہے، البتہ وہ چاہے، تو اس سے اجتناب کرسکتی ہے۔ اگر وہ روزہ نہ رکھنے کی راہ منتخب کرے، تو (مکاتب کی متفقہ رائے میں) بعد میں چھوڑے ہوئے روزے پورے کرنا ہوں گے۔ روزے کے ’’فدیہ‘‘ اور ’’کفارہ‘‘ کے حوالے سے ان میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ حنفی کہتے ہیں کہ یہ ہر گز فرض نہیں۔ مالکیوں کی رائے میں یہ دودھ پلانے والی ماں پر تو واجب ہے لیکن حاملہ پر نہیں۔
حنبلیوں اور شافعیوں کا کہنا ہے کہ حاملہ یا دودھ پلانے والی ماں کے لیے فدیہ اُسی صورت میں واجب ہے جب بچے کو خطرہ ہو، لیکن اگر انہیں بچے کے ساتھ ساتھ اپنی صحت کے لیے بھی خطرہ محسوس ہوتا ہے، تو چھوڑے ہوئے روزے ہی بعد میں پورے کرنا پڑیں گے اور فدیہ دینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ہر دن کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔
جعفری کہتے ہیں کہ اگر کوئی حاملہ عورت وضع حمل کے قریب ہو یا دودھ پلانے والی ماں کے بچے کو نقصان پہنچ سکتا ہو، تو ان دونوں کو روزہ توڑلینا چاہیے، اور ان کے روزے کو جاری رکھنا جائز نہیں ہوگا۔ اگر بچے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، تو وہ چھوڑے ہوئے روزے پورے کرنے کے ساتھ ساتھ فدیہ (ایک مسکین کھانا کھلانا) بھی دیں گی۔ لیکن اگر صرف اس کی اپنی ذات کو خطرہ ہے، تو کچھ جعفریوں کی رائے میں وہ محض چھوڑے ہوئے روزے ہی پورے کرے گی اور فدیہ نہیں دے گی۔ جب کہ دیگر کا کہنا ہے کہ وہ چھوڑے ہوئے روزے رکھنے کے ساتھ ساتھ فدیہ بھی دے گی۔
(اسلامی شریعت کا انسائیکلو پیڈیا از لیلہ بختیار، ترجمہ یاسر جواد مطبوعہ نگارشات، پہلی اشاعت 2008ء، صفحہ نمبر 130 سے انتخاب)