ہندوستانی میڈیا فسطائیت کا علم بردار

الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا دونوں عوام تک تازہ ترین خبریں پہنچانے کا اہم ذریعہ سمجھے جاتے ہیں، تاہم اس حوالے سے عموماً بحث ہوتی ہے کہ کیا میڈیا اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری غیر جانب داری سے انجام دے رہا ہے، یا پھر اس کا میزان کسی ’’خاص‘‘ جانب جھکا رہتا ہے؟
حالیہ دنوں بھارتی میڈیا میں جھوٹی خبریں اور ٹاک شوز عروج پر ہیں۔ یہاں تک کہ مودی سرکار سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان پر حملہ کرکے جنگ شروع کر دی جائے۔ چوں کہ بھارت میں انتخابات کی سرگرمیاں عروج پر ہیں، اس لیے غیر ذمہ دارانہ رویے کو لے کر دنیا بھر میں بھارتی میڈیا کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کا اندازہ بھارت کی سیاسی جماعتوں کو بھی ہوا۔ گذشتہ دنوں آر جے ڈی کے رہنما اور بہار کے سابق نائب وزیراعلیٰ ’’تیجسوی یادو‘‘ نے بڑا اہم اقدام کرکے ’’مثبت صحافت‘‘ کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی۔
قارئین، تیجسوی یادو نے 21 اپوزیشن جماعتوں کو ارسال ایک مکتوب میں اپیل کی کہ ’’اپوزیشن جماعتیں نیوز چینلوں کا بائیکاٹ کریں۔ ہر شام مباحث میں ٹی وی اینکرز نہ صرف اپوزیشن کے ترجمان کی توہین کرتے ہیں، بلکہ ان کا مقصد ملک کے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانا اور بھارتی سماج میں منافرت اور تشدد کی آگ کو بھڑکانا بھی ہوتا ہے۔‘‘
تیجسوی یادو نے اپنے مکتوب میں آگے لکھا ہے کہ ’’ایسی صورت حال میں ہمیں لگتا ہے کہ نیوز چینل کے اسٹوڈیوز میں اب صرف ’’فسطائیت‘‘ کا بول بالا ہے اور یہاں کوئی معقول بحث نہیں ہوسکتی۔ یہ چینل اپوزیشن کی آواز کا استعمال صرف اپنے جھوٹ کو تقویت پہنچانے کے لیے کرتے ہیں۔ اس لیے تمام سیاسی پارٹیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ٹی وی پر مباحثے کے نام پر ہونے والی اس ہڑبونگ کے مقابلے میں شرکت نہ کریں اور چینلوں کی تخریب کاری کی اس مہم کا حصہ بننے سے انکار کر دیں۔‘‘
تیجسوی یادو نے تمام اہم ملکی لیڈرز کو یہ مکتوب ارسال کیا ہے، جن میں ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی، کانگریس کے صدر راہول گاندھی، ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بینرجی، عام آدمی پارٹی کے اروند کجریوال، ٹی آر ایس کے صدر چندر شیکھر، راؤ نیشنل کانفرنس کے سرپرست فاروق عبداللہ، پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی، این سی پی کے صدر شردپوار، راشٹریہ لوک دل کے اجیت سنگھ اور تیلگودیشم پارٹی کے صدر چندرا بابونائیڈو کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری سیتا رام بچپوری جیسی اہم شخصیات شامل ہیں۔
اس سے قبل بھارتی نیوز چینل کے سینئر اینکر روش کمار نے ایک پروگرام کے دوران میں عوام سے اپیل کی تھی کہ ’’وہ کم ازکم الیکشن تک ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیں۔ کیوں کہ یہ ٹی وی چینل نہ صرف منافرت پھیلاتے ہیں، بلکہ عوام کی توجہ اہم مسائل سے ہٹانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔‘‘
بھارتی میڈیا کے خلاف بائیکاٹ مہم کی یہ اپیلیں نوشتۂ دیوار ہیں کہ جب عوام کے حقیقی مسائل سے ہٹ کر نان ایشوز پر ایسی صحافت کی جائے، تو یہ صحافت نہیں بلکہ فسطائیت کہلاتی ہے۔ پھر ان حالات میں ٹی وی نیوز چینلوں کو نہ دیکھنے کی اپیل برحق نظر آتی ہے۔ بھارتی میڈیا کی اکثریت منافرت، تعصب اور اشتعال انگیزی کی آگ بھڑکاتی ہے۔ بھارتی میڈیا نے ہمیشہ کوشش کی کہ جھوٹی صحافت کے ریکارڈ قائم کیے جائیں اور پورے ملک میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسا جنگی اور خوف وہراس والا ماحول پیدا کیا جائے کہ جو جتنا بڑا جھوٹ بولے گا، وہ اتنا بڑا ’’میڈیا گروپ‘ کہلائے گا۔ میڈیا جتنا عوام کے مسائل کو چھپاکر فروعی مفادات کے تحت چیخ و پکار کرے گا، اُس نیوز چینل کو زیادہ دیکھا جائے گا۔ اس قسم کے مفروضوں سے بھرا بھارتی میڈیا مکمل بے لگام ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب خود بھارتی سیاست دان اور جماعتیں اپنے میڈیا کے منفی کردار سے بدظن ہوچکی ہیں۔ کیوں کہ پُرامن ماحول میں مثبت گفتگو کا تصور جو بھارت میں مفقود ہوچکا۔
پاکستانی میڈیا اس حوالے سے بھارت سے بدرجہا بہتر تصور کیا جاتا ہے۔ کم ازکم یہاں جنگی جنون میں مبتلا کرنے کی بجائے ’’امن پسند پالیسی‘‘ کے تحت اشتعال انگیزی کا سہارا تو نہیں لیا جاتا، تاہم بدقسمتی سے کچھ برسوں سے پاکستانی میڈیا بھی اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے۔ سیاسی جلسوں میں اشتعال انگیز تقاریر ہوں یا جھوٹے الزامات کی بوچھاڑ، گالم گلوچ اور بدتہذیبی کو بیشتر پاکستانی میڈیا ہاؤسز نے بھی من و عن پیش کرنے کی روش اختیار کی ہوئی ہے۔ یہ عمل رواں دواں ہے کہ جب کوئی سیاست دان جوشِ خطابت میں غیر پارلیمانی جملوں یا بنا شواہد کسی بھی شخصیت پر الزامات عائد کرتا ہے، تو ہمارا میڈیا بغیر قطع و برید کے ہو بہو نشر کر دیتا ہے۔ انوسٹی گیشن اور فوٹوگرافک جرنلزم کا تصور ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ اب تو یہ حال ہے کہ سوشل میڈیا میں وائرل ہونے والی ویڈیوز معروف میڈیا ہاؤسز کی بریکنگ نیوز اور ہیڈ لائنز کا حصہ بننے لگی ہیں۔ ایک سمارٹ موبائل فون کی بنی فوٹیج پروفیشنل جرنلزم پر حاوی نظر آتی ہے۔
زہے نصیب کہ بھارت کی کھلی جارحیت کے بعد پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر اکٹھی ہوئیں اور یکجہتی پر مبنی مثبت پیغام پوری دنیا میں گیا، لیکن یہ اثرمیڈیا میں صرف چند ہی دن قائم رہ سکا۔ کیوں کہ بعض وزرا نے عجلت میں دوبارہ احتجاجی سیاست شروع کردی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے میڈیا کا دھیان درپیش صورتحال سے ہٹ گیا۔ بھارتی میڈیا کے جھوٹ کا جواب ہمارا میڈیا ہی بہترانداز میں دے سکتا ہے، تاہم بدقسمتی سے یہاں بھی صبح و شام بے معنی مباحث و بریکنگ نیوز، پریس کانفرنس اور ٹاک شوز میں ملکی مسائل کی بجائے سیاست دانوں کے ذاتی مسائل کو فوقیت دینے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔
قارئین، ہم جب بھارتی میڈیا کو دیکھتے ہیں کہ ان کی جھوٹ کی دکان ہر حدود پھلانگتے جا رہی ہے، تو اس کا مؤثر جواب دینے کی بجائے ہمارے میڈیا نے ’’نیرو‘‘ کی بانسری بجانا شروع کر دی ہے۔ میڈیا ہاؤسز کے درمیان ایسا کوئی ضابطۂ اخلاق دیکھنے میں نہیں آتا کہ جب تک کوئی سیاست دان یا شخصیت عدالت میں مجرم ثابت نہیں ہوجاتی، ہمارے میڈیا کو ’’خود ساختہ تبصروں‘‘ سے گریز کرنا چاہیے۔ کسی بھی سیاست دان کی جانب سے کسی پر بھی الزام کی نوعیت میں دیکھنا ضروری ہے کہ کیا ملزم پر عدالت میں کوئی مقدمہ چل رہا ہے، یا نہیں؟ اگر عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے، تو اس پر کسی بھی فریق کا نقطۂ نظر عدالتی کارروائی کا حصہ بن جانے کی وجہ سے شائع تو کیا جاسکتا ہے، لیکن عدالت جب تک کسی ملزم کو مجرم قرار نہیں دیتی، ہمیں مصنوعی سنسنی پیدا کرنے سے گریز کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔
وطنِ عزیز کو اَن گنت مسائل اور عالمی دباؤ کا سامنا ہے۔ حکمران یا اپوزیشن جماعتیں پارلیمان سے باہر کچھ اور، پارلیمان میں کچھ اور نظر آتی ہے۔ اس عمل سے عوام کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔جب تک حقیقی مسائل کو اجاگر نہیں کیا جائے گا، اور اس کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتیں سنجیدہ کردار ادا نہیں کریں گی، تو ملک کو مسائل کے بھنور سے نکالنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو تحمل، اخلاقیات اور رواداری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ خصوصاً پاکستانی میڈیا ہاؤسز کو بھارتی میڈیا کی طرح غیر سنجیدہ بننے سے گریز کرنا چاہیے۔

………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔