بائبل کے مطابق ایک دن یسوع (سیدنا عیسیٰ علیہ السلام) عبادت سے فارغ ہوکر اپنے شاگردوں کے ساتھ پہاڑ سے اترے، تو راستے میں کھڑے 10 کوڑھ کے مریض دور سے چلا اٹھے۔ اے داؤد کے بیٹے! ہم پر رحم کر۔ یسوع نے انہیں اپنے پاس بلایا اور ان سے کہا، اے بھائیو! تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ وہ سب چلااٹھے کہ ہمیں صحت دے۔ یسوع نے جواب دیا، ’’آہ! تم کتنے بدنصیب ہو۔ دیکھتے نہیں کہ میں تمہاری طرح ایک انسان ہوں۔ اپنے خدا کو پکارو جس نے تمہیں پیدا کیا، وہ قادرِمطلق و رحیم تمہیں شفا دے گا۔‘‘ کوڑھیوں نے آب دیدہ ہو کر جواب دیا کہ تو خدا کا قدوس اور خدا کا نبی ہے۔ پس تو خدا سے دعا کر، وہ ہمیں شفا دے گا۔اس پر شاگردوں نے بھی کہا کہ اے خدا کے نبی، ان پر رحم کر۔ تب یسوع نے کراہ کر خدا سے دعا کی، ’’اے خداوند قادر و رحیم! رحم فرما اور اپنے بندے کی عرض سن اور ہمارے باپ ابراہیم کی محبت اور اپنے مقدس عہدکے واسطے ان آدمیوں کی التجا پر ترس کھا اور انہیں صحت بخش دے۔‘‘ یہ کہہ کر یسوع کوڑھیوں کی طرف مڑا اور کہا، جاؤ اور خدا کی شریعت کے مطابق اپنے تئیں کاہنوں کو دکھاؤ۔
عزیزانِ من، ایک طبیب کو اس سے بڑھ کر اور کیا عزت چاہیے کہ پروردگارِ عالم نے انبیائے بنی اسرائیل کے ایک جلیل القدر نبی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو لوگوں کے باطن کے ساتھ ان کے ظاہر کی بھی اصلاح کرنے کے لیے مبعوث کیا تھا۔ یعنی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو معجزہ ہی یہ دیا گیا تھا کہ ان کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ پیدائشی اندھوں، بہروں، اپاہجوں، مرگی کے مریضوں الغرض ہر قسم کے بیمار لوگوں کو شفا دیتے تھے۔
طبیب یا ڈاکٹر کا منصب اتنا عظیم ہے کہ ہر زمانے میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کسی طبیب یا ڈاکٹر کو لوگوں کے ہاں زندگی کی امید سمجھا جاتا ہے۔ ہر زمانے میں صرف مستند ذرائع سے اس کا علم حاصل کرنے والے ہی اس منصب پر فائز رہے ہیں۔ آج اس جدید تہذیبی دور میں بھی اس کے لیے باقاعدہ الگ درس گاہیں بنائی جاتی ہیں اور اس میں میرٹ کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ ہمارے ملک پاکستان میں آج 120کے قریب میڈیکل کالجز ہیں۔ وفاقی حکومت سالانہ 23 ارب روپے صحت کے لیے مختص کرتی ہے۔ اس کے علاوہ صوبائی حکومتیں اپنی بجٹ کے 15 فیصد صحت کے اوپر خرچ کرتی ہے۔ پاکستان میں ہر سال تقریباً 14 ہزار نئے ڈاکٹرز کالجوں سے فارغ ہوتے ہیں جن میں 70 فیصد تعداد خواتین کی ہوتی ہے۔ میرٹ پر آئے ہوئے طالب علم کو 5 سال کی کالج اور ہاسٹل فیس کی مد میں صرف اڑھائی لاکھ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ باقی کا سارا خرچہ حکومت برداشت کرتی ہے۔ حکومت ایک ڈاکٹر پر 5 سال میں 25 لاکھ روپے خرچ کرتی ہے۔ اس کے بعد ہاؤس جاب کے دوران میں اس نئے ڈاکٹرکو 50 ہزار روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں۔ پنشن، ہیلتھ اور ہاؤسنگ کی سہولیات اس کے علاوہ دی جاتی ہیں۔ ایف سی پی ایس یعنی سپیشلسٹ ڈاکٹر کو اگر تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں پوسٹ کیا جاتا ہے، تو اسے اس کی تنخواہ کے علاوہ ڈیڑھ لاکھ روپے کا الگ الاؤنس ملتا ہے۔ حکومت کی ان مہربانیوں کے علاوہ عوام بھی ان ڈاکٹروں کی دل سے عزت کرتے ہیں اور ان کی اکثر بداخلاقی کو بھی مریض ان کے منصب کی خاطر برداشت کرتے ہیں۔
عزیزانِ من! بڑے افسوس کے ساتھ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ سفید گاؤن میں ملبوس اس طبقے کو لوگ اپنے لیے مسیحا سمجھتے ہیں۔ درحقیقت آج یہ لوگ اس معیار پر پورا نہیں اترتے اور نہ ملک و قوم کی اتنی خدمت کرتے ہیں، جتنی ان کو کرنی چاہیے۔ جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ ہر سال 14 ہزار کے قریب ڈاکٹرز کالجوں سے فارغ ہوتے ہیں جن میں 70 فیصد خواتین ہوتی ہیں۔ ان میں سے تقریباً 5 ہزار خواتین ڈاکٹر بنتے ہی شادی کر کے گھر بیٹھ جاتی ہیں اور عوام کے ٹیکسوں سے ہر سال ساڑھے بارہ ارب روپے اسی طرح ضائع کردیے جاتے ہیں۔ باقی 9 ہزار ڈاکٹرز میں سے بھی 40 فیصد ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور وہ بچے کھچے 60 فیصد ڈاکٹرز ہاؤس جاب اور پھر ایف سی پی ایس کرنے لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز نے اب تک 35 ہزار کے قریب سپیشلسٹ پیدا کیے ہیں، لیکن ان میں سے بھی 40 فیصد ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق پاکستان دنیا کا تیسرا ملک ہے، جہاں کے ڈاکٹرز بڑی تعداد میں ملک سے باہر خصوصاً یورپ اور امریکہ میں جاب کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ پاکستان ان کو پڑھاتا ہے، ان پر پیسہ اور وقت صرف کرتا ہے جس کا فائدہ آخر میں کوئی اور اٹھالیتا ہے۔
عزیزانِ من! اس کے علاوہ پاکستان میں سرکاری سطح پر صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی انتہائی ناقص ہے اور یہ تحقیق بھی سامنے آئی ہے کہ ملک میں ڈاکٹروں کا لکھا ہوا کوئی ایک نسخہ بھی عالمی طبی معیار پر پورا نہیں اترتا۔
ایک برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق طبی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستانی ڈاکٹرز طبی قواعد کے برعکس 89 فیصد نسخوں پر اپنا نام نہیں لکھتے اور 78 فیصد نسخوں پر مریض کو لاحق مرض کی تشخیص درج نہیں کی جاتی، جب کہ 58 فیصد نسخوں پر لکھی گئی ڈاکٹرز کی تحریر کو پڑھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اکثر اس کے خطرناک نتائج سامنے آتے ہیں کہ بیماری کوئی اور تھی اور دوا کوئی اور دی گئی۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ 63 فیصد نسخوں پر ڈاکٹرز دوا کی مقدار اور 55 فیصد پر دوا لینے کا دورانیہ درج نہیں کرتے۔ تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستانی ڈاکٹرز ہر نسخے میں اوسطاً 3اعشاریہ 32 ادویات لکھ کر دیتے ہیں۔ حالاں کہ عالمی ادارۂ صحت کی سفارشات کے مطابق فی نسخہ ادویہ کی تعداد صرف دو ہونی چاہیے۔
تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ غریب مریضوں کو ڈاکٹرز کی تجویز کردہ ادویہ میں سے 90 فیصد مہنگی برانڈڈ کی دی جاتی ہیں۔ حالاں کہ ان میں اکثر ادویہ کا سستا متبادل مارکیٹ میں دستیاب ہوتا ہے۔
عزیزانِ من! یہ تو سرکاری سطح پر عوامی خدمت کی رپورٹ تھی، اب آپ پرائیوٹ سطح پر ان ڈاکٹرز کے کارنامے دیکھ لیجیے۔ پاکستان میں آج کل دل کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، جس سے ایک اندازے کے مطابق ہر سال 2 لاکھ افراد انتقال کر جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہر پانچواں شخص دل کے کسی نہ کسی عارضہ میں مبتلا ہے۔ اگر خدانخواستہ کسی شخص کو سینے میں تکلیف ہوتی ہے، اور ای سی جی و دیگر ٹیسٹ میں یہ معلوم ہوجائے کہ دل کی تکلیف ہے، اگر سٹنٹ ڈالنے کی ضرورت پڑے اور آپ غریب ہوں، تو سرکاری طور پر سٹنٹ ڈالنے میں کم از کم سال سے زیادہ عرصہ لگتا ہے۔ پھر جب آپ مجبوراً کسی پرائیوٹ ہسپتال جائیں گے، تو آپ کو بتایا جائے گا کہ 3 سٹنٹ کے فوری طور پر ساڑھے تین لاکھ جمع کرائے جائیں۔ آپ سے دستخط بھی لیا جاتا ہے، وہ اس لیے کہ اگر مریض آپریشن کے دوران میں ایکسپائر ہوجائے، تو باقی بل جمع کرنے کے بعد لاش لے جائی جاسکے گی۔
عزیزانِ من! یہ ہے اس پڑھے لکھے طبقے کی پڑھی لکھی وارداتیں۔ جب سٹنٹ دو نمبر ہوتا ہے، تو موت واقع ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ آپ نے مردوں کے جسم پر لگائے جانے والے کیمیکلز سے بنے ہوئے دودھ کے بارے میں تو سنا ہو گا اور چائے کے پتی میں لکڑی کا برادہ رنگ کر ڈالے جانے سے بھی واقف ہوں گے، لیکن آج یہ جان لیں کہ سفید گاؤن میں ملبوس یہ مسیحا آپ کے دل میں دو نمبر سٹنٹ ڈال کر اپنی بھاری فیس وصول کر لیتا ہے۔ اس کے بعد آپ جئیں یا مریں، انہیں کوئی احساس نہیں ۔ اکثر تو مریض کو بغیر ضرورت کے سٹنٹ ڈالا جاتا ہے، کیوں کہ چائینہ سے امپورٹ کیا ہوا 6 ہزار روپے والا سٹنٹ یہ لوگ ڈیڑھ لاکھ سے لے کر تین لاکھ تک لگاتے ہیں۔ معیاری سٹنٹ 50 ہزار روپے سے کم نہیں پڑتا، جو آئرلینڈ اور جرمنی وغیرہ ممالک سے امپورٹ کیا جاتا ہے۔ ان میں مہنگے ترین سٹنٹ کی قیمت تین لاکھ روپے تک ہوتی ہے جو معینہ مدت کے بعد خودبخود تحلیل ہو جاتا ہے۔ کسی بھی پارما کی ناقص دوا مریض کو لکھ کر بدلے میں باہر ملکوں کی سیر کرنا، مہنگی موٹر کار لینا یا اپنے گھر میں اے سی وغیرہ لگانا، یہ ان کے نزدیک کوئی برائی نہیں۔ بلا وجہ مریض کے ڈھیر سارے ٹیسٹ کروانا اور لیبارٹری والے سے اپنا حصہ لینا ان کے نزدیک کوئی ظلم نہیں۔
عزیزانِ من! یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام ڈاکٹرز ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ان میں ڈھیر سارے ایمان دار بھی ہوتے ہیں، جو حقیقت میں مسیحا ہوتے ہیں، لیکن وہ بھی بہت کم ہوتے ہیں۔ میری ان ڈاکٹرز صاحبان سے گذارش ہے کہ آپ پر عوام کے ٹیکسوں سے سالانہ اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور آپ کو خاصی اچھی تنخواہیں بھی ملتی ہیں، پھر بھی آپ عوام کے لیے سہولیات کی بجائے مشکلات ہی پیدا کرتے ہیں۔ براہِ کرم جن ڈاکٹرز کو پیسہ کمانا ہو، وہ کوئی تجارت شروع کرلیں اور اس مقدس پیشے کو بدنام نہ کریں۔وہ والدین جو صرف پیسے کمانے کے لیے اپنے بچوں کو ڈاکٹر بناتے ہیں، انہیں چاہیے کہ پہلے انہیں انسان تو بنائیں۔ پھر بھی اگر یہ ڈاکٹرز خود کو مسیحا سمجھتے ہیں، تو وہ سن لیں کہ مسیح دو ہیں، ایک مسیح ابنِ مریم ہے اور دوسرا مسیح دجال۔ اب یہ آپ ڈاکٹرز پر منحصر کہ آپ مسیح ابنِ مریم کے راستے پر چلتے ہیں یا مسیح دجال کے راستے پر؟
…………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔