یہ کوئی دو تین سال پرانی بات ہے۔ مجھے ایک پرائیوٹ سکول میں آٹھ دس دن تک بچوں کے ساتھ کلاسز لینے کا تجربہ ہوا۔ یہ سکول غالباً ًچھٹی جماعت تک کی ابتدائی تعلیم آفر کرتا تھا۔ ایک بات جو مَیں نے شدت سے محسوس کی، وہ ’’ڈر‘‘ تھی۔ ایک ایسی عمارت جس کے اندر ذہنی پختگی سے کوسوں دور معصوم بچے اپنی زندگی اور ہوش سنبھالنے کے ابتدائی دن گزار رہے تھے، اس عمارت کی در و دیوار پر خوف کے سائے پھیلے ہوئے تھے۔ بچے روزانہ سکول آتے، کلاسز لے کر دوبارہ گھروں کو لوٹ جاتے، پر اُن میں سے بیشتر گھر خالی ہاتھ ہی لوٹتے۔ ان کے ذہنوں میں جگہ پانے والے ’’ڈر‘‘ نے ان کے لیے کسی نئی چیز کے سیکھنے یا سمجھنے کے سارے راستے بند کردیے تھے۔ میرا گمان اس وقت یقین میں بدل گیا، جب میں نے چوتھی جماعت کے بچے کے سر پر کلاس کے دوران میں پیچھے کی طرف سے آتے ہوئے دستِ شفقت رکھنا چاہا۔ وہ ڈر کے مارے چونک گیا۔ جیسے وہ ڈر مجسم ہوگیا تھا، جسے وہ ذہن کے نہاں خانوں میں پال رہا تھا، جیسے اب اسے وہ تکلیف ملنے والی تھی جس کا ڈر ہر وقت اس کے حواس پر سوار رہتا تھا ۔ مَیں جس سکول کا ذکر کررہا ہوں، اسے عرفِ عام میں ’’سٹریٹ سکول‘‘کہا جاتا ہے۔ سٹریٹ سکول سے ہٹ کر بات کریں، تو ہمارے ہر تیسرے یا پھر دوسرے سرکاری سکول کی بھی یہی کہانی ہے۔
اس دن مجھے یقین ہوگیا کہ ہمارے بچے ڈر کا شکار ہیں۔ ایک ایسا ڈر جو اُن کے اندر چھپی صلاحیت کا دَم گھونٹ رہا ہوتا ہے۔ مَیں نے ایک ہفتہ کے اندر اندر اُس کلاس کا حلیہ بدل دیا۔ جہاں مجھے صرف ڈر کے مارے ایک جیسے بچے نظر آرہے تھے۔ وہاں اب مجھے اداکار، مقرر، انٹرٹینر اور کچی عمر میں بہترین ڈرائنگ بنانے والے آرٹسٹ نظر آنا شروع ہوگئے۔ مَیں یہ نہیں کہہ رہا کہ میرے پاس جادو کی چھڑی تھی، یا پھر یہ کہ مَیں کوئی بہت بڑا ماہر تھا۔ ایسا کوئی بھی کرسکتا ہے۔ آپ اس آسان فارمولے کو ایپلائی کرکے دیکھیں، کم عرصے میں نتائج آنا شروع ہوجائیں گے ۔ وہ بچے جنہیں آپ کوئی بات ڈانٹ کر کہتے ہیں، وہی بات انہیں پیار سے بول کر دیکھیں۔ ڈنڈے کے استعمال کی بجائے ان کے سر پر دستِ شفقت رکھیں۔ آپ پہلے انہیں سن لیں، بعد میں اپنی سنائیں۔ اگر کوئی بچہ ہوم ورک کرکے نہیں آیا، آپ پہلے اس کا سبب پوچھیں۔ اس کا کوئی چھوٹا موٹا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس کی رہنمائی کریں۔ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ آئندہ پوری ایمان داری کے ساتھ ’’ہوم ورک‘‘ کرکے آئے گا۔
مَیں خود بھی ایک طالب علم ہوں، مَیں نے سکول کے زمانے میں یہ چیزیں محسوس کی ہیں۔ میں نے اکثر طلبہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ’’میں نے فلاں ٹیچر کا دیا ہوا کام نہیں کیا ہے، زیادہ سے زیادہ ڈانٹ پڑے گی یا دو چار لگائے گا اور بس!‘‘ اور انہی سے یہ سننے کو ملتا کہ ’’نہیں، اگر میں نے ایسا کیا، تو فلاں ٹیچر ناراض ہوجائیں گے، جو مجھے قبول نہیں۔‘‘
یہاں بنیادی فرق کسی استاد کی تعلیمی قابلیت نہیں بلکہ پڑھانے کا انداز ہے۔ ہمارے روایتی سکولوں میں کلاس روم پڑھانے کی کم اور دلوں کی بھڑاس نکالنے کی جگہ زیادہ بن گئے ہیں۔ ہمارے بچے کیوں کر سکول جانا پسند کریں گے جہاں انہیں مار پیٹ کے ساتھ’’گدھا‘‘،’’نکما‘‘ یا پھر ’’غبی‘‘ جیسے القاب سننے کو ملیں! کیا ہم سکول کے گھٹن زدہ ماحول کو زعفران زار نہیں بنا سکتے؟ ہر وقت کتابیں پڑھانے اور بچوں سے ان کا رٹا لگوانے سے سیکھنے کا بھلا کیا تعلق ہے؟ اس سے کسی دماغ میں معلومات کا ذخیرہ تو انڈیلا جاسکتا ہے، البتہ کچھ سکھایا نہیں جاسکتا۔
پچھلے دنوں کم عمر بچوں کے سکول کے بستے کو لے کر کافی گرمام گرم بحثیں ہوئیں۔ ابتدائی جماعتوں کے لیے بھی کتابوں سے لدھا بھاری بھرکم بستہ بچوں کی کمر توڑ دیتا ہے۔ اندر موجود کتابیں بچوں کو نفسیاتی طور پر نقصان پہنچاتی ہیں۔ ہماری ساری توجہ بس کتاب پرہی مرکوز ہوتی ہے، اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے کتابوں سے نکل کر حقیقی دنیا میں کچھ محسوس ہی نہیں کر پاتے۔ ایک واقعہ کراچی میں پیش آیا جہاں ایک کمسن بچی کو مہندی لگانے کی پاداش میں سزا کے طور پر مسلسل تین چار دن مارننگ اسمبلی میں شرکت نہیں کرنے دی گئی۔ اس بچی نے یہ مہندی عید میلاد النبیؐ کی خوشی میں لگائی تھی۔ سکول کے اساتذہ کی جانب سے ایسا رویہ دیکھا، تو روز گھر آکر ہاتھوں کو رگڑ رگڑ کر مہندی مٹانے کی کوشش کرتی۔ ذرا سوچئے، اس بچی پر کیا بیتی ہوگی؟
میری دلی خواہش ہے کہ کبھی کوئی ایسا ماڈل سکول بھی ہو جس میں کتابوں کے ساتھ ساتھ موسیقی، رقص، اداکاری، آرٹ اور اس طرح کی دوسری سرگرمیوں پر بھی برابر توجہ دی جاتی ہو، جہاں بچوں کے لیے ایک آزاد ماحول ہو، جہاں نونہالوں کو بھی کھل کر سانس لینے کا موقعہ ملتا ہو۔ اگر ایسا کبھی ممکن ہوا، تو یقین جانئے، اس معاشرے کو بڑے کار آمد شہری مل جائیں گے۔
…………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔