اگر آپ پڑھے لکھے اور صاحبِ مطالعہ ہیں، سوچنے سمجھنے والے اور غور و فکر کرنے والے ہیں، سنجیدہ اور متوازن شخصیت کے مالک ہیں، معاشرتی اقدار و روایات اور آداب و تہذیب کے عادی اور ان کو پسند کرنے والے ہیں،عقیدہ و عمل آپ کی زندگی میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے، تو پھر موجودہ معاشرے میں مختلف مسائل و تضادات کو آپ شدت سے محسوس کریں گے۔ قدم قدم پر آپ کو نامانوس، ناشائستہ اور تکلیف دہ مناظر سے واسطہ پڑے گا۔ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں رشوت و سفارش، اقربا پروری اور بد عنوانی عام ہے۔ فرائض کی ادائیگی کا تصور مفقود اور حقوق کے حصول کا شعور زیادہ ہے۔ قومی خزانے سے تنخواہ لینے والے اور قومی ذمہ داریوں پر مامور اہل کار قوم کے آقا اور کار فرما بنے ہوئے ہیں۔ سیاست کا لفظ جھوٹ، فریب، وعدہ خلافی اور جھوٹے وعدوں کا مترادف بن گیا ہے۔ معاشرہ سے دیانت و امانت کا تصور ختم ہوگیا ہے اور ہر شخص زیادہ سے زیادہ مال، حرام حلال کی تمیز کے بغیر جمع کرنے اور کمانے میں مصروف ہے۔ پوری قوم مختلف انداز سے تقسیم در تقسیم ہے۔ کہیں جغرافیائی تقسیم ، کہیں صوبائی تقسیم ، کہیں لسانی تقسیم، کہیں دینی بنیاد پر فرقہ واریت کی تقسیم، تو آپ کو اتحاد و اتفاق اور مسلمہ بنیادوں پر یک جہتی اور یک رنگی کے بجائے انتشار و افتراق اور چھینا جھپٹی کا ماحول نظر آئے گا۔
ایک قوم کی بیماری اور مرض کے یہ بنیادی علامات ہیں۔ ان علامات کے پیچھے ایک نہایت مہلک اور جان لیوا بیماری موجود ہے، جس کی تشخیص نہایت ضروری ہے۔ جب تک اصل بیماری کی تشخیص نہیں ہوگی۔ ظاہری علامات کا علاج کبھی مؤثر نہیں ہوگا۔
اصل بیماری کی تشخیص کے لیے جب ہم اسباب، علامات اور وجوہات کا کھوج لگائیں گے، تو ہمیں اپنی قومیت کی ساخت، اپنے عقیدے کی اساس اور اپنی تہذیبی و ثقافتی بنیادوں کا جائزہ لینا پڑے گا۔ ہماری قومیت کی ساخت ’’دینِ اسلام‘‘ ہے اور ہمارے عقیدے کی اساس ’’عقیدۂ توحید‘‘ ہے۔ ہماری تہذیب و ثقافت کے سوتے اسلامی تاریخ و روایات سے پھوٹتے ہیں۔ قومیت کی تشکیل کے بنیادی اجزا رنگ، نسل، زبان، جغرافیہ اور مشترک رسوم و روایات، مسلم قومیت کی بنیاد نہیں بن سکتے۔ کیوں کہ
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ
عالمی انسانی برادری کا اگر کوئی تصور ہے، تو وہ عقیدۂ توحید، اقرارِ رسالتؐ اور ایمان بالآخرت کے بغیر کیسے وجود میں آ سکتا ہے؟ اس لیے کہ یہ بنیادی عقائد ہی انسانیت کو خیال و فکر اور عمل کی بنیاد فراہم کرتے ہیں، لیکن ہم بات کر رہے ہیں پاکستانی قومیت اور پاکستانی معاشرے کی۔ آپ کو یہ حقیقت معلوم ہے کہ مملکتِ خداداد پاکستان دنیا کی دوسری ریاست ہے جو ایک عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئی ہے۔ ایک مملکت اسرائیل اور دوسری پاکستان، جس کا پہلے سے برسر زمین کوئی وجود نہیں تھا۔ لیکن پاکستان سراسر عوام کے اس مطالبے پر وجود میں آیا کہ ہم ہندوؤں کے مقابلے میں ایک الگ عقیدہ اور نظریہ رکھتے ہیں۔ اسی نظریے اور عقیدے کے مطابق ہمارے معاشرتی، دینی، ثقافتی اور تہذیبی قدریں ہندوؤں سے بالکل جداگانہ اور مختلف ہیں۔ اس کے باوجود کہ انگریز دو سو سال سے ہندوستان پر ایک قابض اور غالب قوت تھا۔ ہندو اپنی عدددی اکثریت مال و دولت، تعلیم اور سرکاری دربار میں رسوخ رکھنے والی اور متحد و متفق قوم تھا۔ ان کے مقابلے میں مسلمان تعلیم اور معاش کے میدان میں کمزور اور مختلف دھڑوں میں شمولیت کی وجہ سے انتشار و افتراق میں مبتلا ایک منتشر گروہ تھا، لیکن اس منتشر گروہ کو کس چیز نے اتنا متحد، فعال اور متحرک کیا کہ اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود ایک الگ ملک کے قیام اور حصول میں کامیاب ہوا؟
یہ جذبۂ محرکہ، یہ طاقت و قوت کا سرچشمہ اور یہ اتحاد وا تفاق کا نسخہ صرف دینِ اسلام تھا۔ جب ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ لگایا گیا، تو اس نعرے نے جادو کا اثر کیا۔ انتشار اتفاق میں بدل گیا۔ کمزوری طاقت میں بدل گئی اور گویا مردوں میں جان سی پڑگئی۔ انگریز اور ہندو یہ اتحاد، یہ طاقت اور یہ جذبہ دیکھ کر ہندوستان کو تقسیم کرنے پر مجبوراً راضی ہوگئے۔ آپ نے دیکھا کہ اس اَن پڑھ، ناخواندہ، معاشی طور پر کمزور اور منتشر قوم نے ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کے جذبے سے سر شار ہو کر پاکستان کی ایک اسلامی مملکت کے لیے گھر بار اور عزیز و اقارب چھوڑ کر جان و مال اور عزت و آبرو کی عظیم الشان قربانیاں دے کر ہجرت کی۔
لیکن دشمن نے ایک اور جہت سے حملہ کیا۔ قوم سے ان کا نعرہ اور جذبۂ محرکہ چھین لیا۔ حسین خوابوں کو چکنا چور کیا۔ رہنماؤں کی جگہ لٹیرے قافلوں کے راہنما بن گئے۔ وہ جو کل دشمن کے ساتھ اور غیروں کے دستر خوان کے ریزہ چین تھے، وہ جو انگریزوں کے وفادار اور خطاب یافتہ تھے، وہ قوم پر مسلط ہوگئے۔ پھر انہوں نے اپنے آقاؤں سے جو تربیت حاصل کی تھی، ان سے جو تہذیب سیکھی تھی، ان کی تہذیب و ثقافت، اقدار و روایات اور زبان مسلم ملت پر مسلط کی۔ قوم کو صوبوں، زبانوں، علاقوں اور فرقوں میں تقسیم کیا۔ ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کی تکذیب کی۔ اس نے انکار کیا۔ قوم پر اپنے آقاؤں کا نظامِ تعلیم، نظامِ قانون اور نظامِ معاشرت مسلط کیا، جس کی وجہ سے قوم کا عقیدہ کمزور ہوا۔ عقیدے کی کمزوری سے اخلاقی بیماری پیدا ہوئی۔ اخلاقی بیماری کی وجہ سے قومی انتشار پیدا ہوا۔ قوم سے ان کا ماضی یعنی حافظہ چھین لیا گیا۔ اپنی تاریخ اور روایات سے ان کا رشتہ کاٹ دیا گیا۔ قیادت کا تصور ختم کر دیا گیا اور قیادت کا معیار گرا دیا گیا۔ چھوٹے چھوٹے گروہ اپنے اپنے مفادات کے لیے وجود میں آگئے اور وہ جو کعبے کے پاسبان تھے اور نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر کے میدانوں تک یک جان و یک زباں اور ایک امت تھے، وہ منتشر ہو کر قومیتوں اور فرقوں میں بٹ گئے اور ملت کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا۔
………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔