میں ہوں ملالہ

آج سے قریباً سولہ سال پہلے کی بات ہوگی، سیدوشریف میں فرمان ندیم نامی اک نوخیز شاعر کی ’’ترانہ‘‘ نامی اردو شاعری کی کتاب کی تقریب رونمائی میں مجھے زندگی کا پہلا مقالہ پیش کرنے کی دعوت دینے شاعر موصوف خود میرے پاس عالم گنج تشریف لائے تھے۔ اسی تقریب میں فضل ربی راہیؔ اور ضیاء الدین یوسف زئی بھی مدعو تھے، جب کہ صدرِمحفل دنیا کی طویل ترین کہانی’’دیوتا‘‘ لکھنے والے کراچی کے محی الدین نواب تھے۔ تقریب میں ضیاء الدین یورسف زئی نے اپنی کرشماتی تقریر سے لوگوں کو خوب محظوظ کیا۔ اُن کی زبان میں ہلکی سی لکنت تھی جو کسی لفظ میں اٹک کر دھڑلے سے نکلتی اور محفل کو مزید دو آتشہ کردیتی۔ یادش بخیر! صدرِ محفل نے کہا: ’’ہم وطن کے لیے خون تو دیتے ہیں دودھ نہیں دیتے۔‘‘ محفل کے اختتام پر ضیاء الدین نے اُن سے سوال کیا: ’’یہ دودھ دینے سے کیا مراد ہے؟‘‘ تو انہوں نے کہا کہ ’’اس سے مراد وطن کی بقا، تعمیر اور ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔‘‘ ضیا نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا: ’’آپ نے بڑی پتے کی بات کی۔‘‘ ضیاء الدین نے یہ بات پلے باندھ لی اور مختلف سماجی، ادبی اور فلاحی تنظیموں سے وابستگی اختیار کرلی۔ آپ ’’گلوبل پیس کونسل‘‘ کے جنرل سیکرٹری اور پھر صدارت کے بعد پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ (پی ایس ایم اے) کے صدرمنتخب ہوئے۔ بعد ازاں ’’سوات امن جرگہ‘‘ کے ترجمان کی حیثیت سے بھی فعال کردار ادا کیا۔ یہی نہیں بلکہ اپنی دھواں دھار تقاریر اور فعالیت پسندی کی وجہ سے قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں بھی آنے لگے۔ دوسری جانب سوات کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے۔ زیادہ تر لوگ خاموش ہونا شروع ہوگئے یا دائمی خاموش کردیے گئے۔ بقول شاعر
سبھی کو جان تھی پیاری سبھی تھے لب بستہ
بس اِک فراز تھا ظالم سے چپ رہا نہ گیا
آپ بولتے رہے۔ اخبار، ریڈیو، ٹی وی اور جلسہ جلوسوں میں آپ اپنا مؤقف ڈنکے کی چوٹ پہ کہتے رہے۔ ایسے میں آپ کو دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں۔ ایک دن میں فضل محمود روخان کی دکان میں بیٹھا تھا کہ ضیاء الدین گھبرائے گھبرائے آئے اور روخان صاحب سے کہا: ’’میری جان کو خطرہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تم مخلوط کالج چلاتے ہو۔ مغربی کلچر کا پرچار کرتے ہو۔ طالبان کو برابھلا کہتے ہو۔ اور تو اور تمہاری بیٹی بھی تمہارے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ ہم تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ روخان صاحب نے اُنہیں تسلی دی اور احتیاط کرنے کو کہا۔ آپ اسی طرح گھبرائے گھبرائے، سرنیہوڑائے چلے گئے۔ یہ میری ضیاء الدین سے آخری ملاقات تھی۔
2009ء میں حالات ایسے بگڑے کہ اہلِ سوات اپنی جنت کو چھوڑ کر تپتے کیمپوں میں جا بسے۔ ایسے میں ضیاء الدین یوسف زئی کی بیٹی جسے دنیا ’’ملالہ یوسف زئی‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ ’’گل مکئی‘‘ کے فرضی نام سے بی بی سی اردو میں بولنے لگ گئی۔ میں نے خود ان کی کئی ایک ریڈیائی قسطیں سنیں، جن میں سسکتی، کلپتی گل مکئی کو پیچھے گھرمیں رہ جانے والے چوزوں کا غم ستا رہا تھا۔ اُسے اپنی کاپیوں، کتابوں، پنسلوں اور جیومیٹری کے ساز و سامان کی یاد ستاتی تھی، وہ اپنے گھر جانا چاہتی تھی، پڑھنا چاہتی تھی، لیکن وہاں کی تو کایا ہی پلٹ چکی تھی۔ چار سو سے زائد تعلیمی ادارے دھماکوں سے اڑاکر زمین بوس کر دیے گئے تھے۔ پل، سڑکیں اور انفراسٹرکچر تباہ تھا، جس وادی میں پرندوں کی چہکار اور پھولوں کی مہکار ہوا کرتی تھی، وہاں بارود، دھویں اور مردوں کی سڑاند کی بو تھی۔ لوگوں کی یہ حالت تھی کہ
بیچ بازار دھماکا نہ ہوا ہو کوئی
اب تو بادل بھی گرجتا ہے، تو ڈر لگتا ہے
پھر حالات اِک اور کروٹ لیتے ہیں۔ وادی سے خوف کے بادل چھٹنے لگتے ہیں۔ لوگ اپنے گھر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ طالبان روپوش ہوجاتے ہیں۔ کچھ ختم ہوجاتے ہیں اور کچھ افغانستان چلے جاتے ہیں۔ اب ضیاء الدین یوسف زئی جیسے لوگ بحالی کے لیے بولنے لگ جاتے ہیں۔ کبھی حکومتی پالیسیوں پہ بھی انگشت نمائی کرتے ہیں جب کہ طالبان کو بھی ہدفِ تنقید بناتے ہیں۔ دوسری طرف ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ملک بخت بیدار، شمشیر علی خان اور ڈاکٹر محمد فاروق جیسے درجنوں مشاہیر نشانہ بنتے ہیں۔ حاجی زاہد خان جیسے سفید ریش کو بھی چہرے پہ گولی ماری جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ معصوم ملالہ کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ 9 اکتوبر 2012ء بروزِ منگل ملالہ کو سکول سے واپس آتے سر میں گولی ماری جاتی ہے، جس پہ دنیا بھر میں احتجاج ہوتا ہے۔ اُسے سوات سے پشاور، اسلام آباد اورپھر برمنگھم پہنچایا جاتا ہے۔ جہاں بڑی جانفشانی سے اُس کا علاج کیاجاتا ہے۔ وہ بحال ہوجاتی ہے۔ تعلیم کی سفیر بن کر دنیا بھرمیں گھومتی ہے۔ اُسے بہت سے تہنیتی ایوارڈ اور انعامات ملتے ہیں۔ یہاں تک کہ دنیا کے سب سے بڑے انعام ’’نوبل ایوارڈ‘‘ سے بھی اسے نوازاجاتا ہے، لیکن ہم من حیث القوم کسی کی تعریف کی بجائے تنقیص کے پہلو تلاشتے ہیں۔ جہاں ساری دنیا میں اُس کی پذیرائی ہورہی تھی، ہم اُس پر کیچڑ اچھال رہے تھے۔

اس کتاب میں تاریخی شواہد اور آثار کا بھی بھر پور تفصیلی ذکر موجود ہے۔ (Photo: Mashal Books)

’’میں ہوں ملالہ‘‘ اُن کی زندگی پر لکھی جانے والی خود نوشت ہے، جس میں کرسٹینا لیمب اُن کی معاون مصنفہ ہیں۔ انگریزی میں لکھی اس کتاب کے دنیا کی 55 زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔ 370 صفحات کی اس کتاب کا مقبول الٰہی نے اردومیں ایسا شان دار ترجمہ کیا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے (اسے لکھاری ہی جانتے ہیں)۔ مجھے فضل ربی راہیؔ نے یہ کتاب تحفتاً دی۔ کیوں کہ انہیں پتا تھا کہ 980 روپے کی یہ کتاب مَیں نہیں خرید سکتا تھا۔ کتاب مَیں نے تین دنوں میں ختم کی۔ اس میں اِک ایسا جادوئی اثر ہے کہ ایک بار شروع کرنے کے بعد ختم کیے بنا قاری اسے نہیں رَکھ سکتا۔ اس میں داستان کی طرح کہانی پن بھی ہے اور ناول کی طرح تسلسل اور سسپنس بھی، افسانے کی طرح تاثر بھی ہے اور تاریخ کی طرح حقائق بھی۔ جب کہ پل پل بدلتی دنیا اور حالاتِ حاضرہ کا جہاں نما تو ہے ہی۔ اس میں تاریخی شواہد اور آثار کا بھی بھر پور تفصیلی ذکر موجود ہے۔ نام ’’ملالہ‘‘ کی وجہ تسمیہ، اس کی تاریخ، پھر ریاستی دور کا احوال، مقامی رسم و رواج، معاشرت اور غمی خوشی کاذکر ہو یا ملکی و بین الاقوامی صورتِ حال، سبھی ذائقے ہمیں یکجاموجودملتے ہیں، لیکن بہ حیثیت مجموعی یہ ایک ٹریجک کتاب ہے۔ بہت کم کتابیں اور فلمیں ہیں جنہوں نے میری آنکھیں ڈبڈبائی ہوں، آنسو بہائے ہوں، یہ ان میں سے ایک ہے۔ مثلاً جب ملالہ کو گولی لگتی ہے، وہ ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہوتی ہے۔ اُس کا باپ چارسو پرنسپلوں سے خطاب کررہا ہوتا ہے۔ اطلاع پہ وہ بھاگم بھاگ ہسپتال آتا ہے۔ کیمروں اور فوٹو گرافروں کے ہجوم کو چیرتا جب اپنی بیٹی کے سامنے آتا ہے تو ملالہ لکھتی ہیں: ’’میں اِک ٹرالی میں آنکھیں بند کیے لیٹی تھی۔ میرے بال بکھرے تھے۔ وہ بے ساختہ مجھ سے لپٹ کر کہتے ہیں، ’’میری بیٹی، میری بہادر بیٹی، میری خوبصورت بیٹی۔‘‘ وہ میری پیشانی، گال اور ناک چوم رہے تھے۔‘‘ ’’پرنسپل مریم بھی دیوانہ وار آتی ہیں اور مجھے ہلا ہلا کر کہتی ہیں، ’’ملالہ، ملالہ! کیاتم مجھے سن رہی ہو؟‘‘ بھائی اتل اپنی ماں سے لپٹ کر کہتا ہے: ’’ملالہ بری طرح زخمی ہے۔‘‘جب ہیلی کاپٹرمجھے لے کراُڑا تو میری امّی نے اپنا دوپٹہ اپنے سر سے اتار لیا۔کسی پختون عورت کے لیے یہ ایک بہت ہی غیر معمولی حرکت تھی۔ انہوں نے وہ دوپٹہ ہوا میں لہرایا اورالتجا کی: ’’اے خدا! میں اسے آپ کی امان میں دیتی ہوں۔‘‘
یہ ایسے جملے ہیں جو انسان کو اندر سے ہلاکر رکھ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بڑے عجیب و غریب اور دلچسپ جملے سامنے آتے ہیں۔ مثلاً ’’نوجوانی میں میرے والداپنے دستخط ضیاء الدین پنج پیری کے طور پر کرتے اور وضع قطع بھی خالص مذہبی بنالی۔‘‘ کرنل امام کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتی ہیں: ’’افغانوں کو منظم کرنا ایسا ہی ہے جیسے مینڈکوں کا وزن کرنے کی کوشش کرنا۔‘‘ اور یہ بھی کہ ’’بھٹوضیاء الحق کو اپنا ’’بندر‘‘ کہا کرتے تھے۔‘‘
آخرمیں اک شگفتہ جملہ بھی ہوجائے۔ وہ اس طرح کہ جب اُن کی والدہ برمنگھم کی برف پڑتی ٹھنڈ میں گوریوں کی ننگی پنڈلیاں دیکھتی ہیں، تو بے ساختہ کہتی ہیں: ’’ڈوبہ شومہ!‘‘ کیا ان کی ٹانگیں لوہے کی ہیں؟ ضیاء الدین مسکرانے کے سوا اور کیا جواب دے سکتے تھے۔‘‘
جاتے جاتے ضیاء الدین کو اِک رائے یہ دوں گا کہ ملالہ کے متعلق (حق میں یا خلاف) جتنے بھی کالم، فیچر یا مضامین وغیرہ لکھے گئے ہیں، انہیں یکجا کرکے اک کتابی شکل میں شائع کریں، تاکہ یہ سب تاریخ کا حصہ بن جائیں۔ مبادا یہ بکھرا مواد مرورِ زمانہ کے ہاتھوں ضائع ہو جائے۔

…………………………………………

  لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔