ستائیس مارچ 2018ء کو ایک نجی ٹیلی وِژن نے سابقہ وزیراعظم محمد نواز شریف کو یہ کہتے ہوئے دکھایا کہ وہ نظریاتی بن گیا ہے۔ علما کی ایک جمعیت کے نام کے ساتھ لفظ نظریاتی بھی کہیں نظروں سے گزرا ہے۔
’’نظریہ‘‘ کیا ہے؟ اس کو سمجھنے اور سمجھانے میں مجھے ہمیشہ الجھاؤ کا سامنا ہوتا رہا ہے۔ ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کے الفاظ کا تکرار مطالعۂ پاکستان کے مضمون میں فاضل مؤلفین بار بار کرتے ہیں، لیکن وہاں بھی الجھاؤ ہی کا سامنا ہوتا ہے۔ کیوں کہ قیامِ پاکستان کے ستر سال بعد بھی ہم اسلامی طریقۂ حکومت سازی اور دورِ جدید میں ایک بڑی مملکت کے معاملات کو اسلام کی حدود میں اسلام کے اصولوں کے مطابق چلانے کے لیے نہ کسی قانون کو اور نہ کسی مسودۂ قانون کو دیکھ سکے۔ کئی کتابوں سے مدد مل سکتی ہے، لیکن کتابوں میں درج عبارات اور پارلیمان کے منظور کردہ مسوداتِ قوانین میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ حکومت چلانے کے لیے اور اسے اقوامِ عالم میں مقبول بنانے کے لیے منتشر کتب کے فقرے اور اقتباسات شاید ناقابلِ قبول ہوں۔ اس لیے جو مقتدر حضرات اسلامی نظریہ کو قیام پاکستان کا جواز گردانتے ہیں، اُن پر لازم آتا ہے کہ وہ بسم اللہ کرکے ایک مکمل مسودۂ قوانین اور لائحۂ عمل پارلیمنٹ میں پیش کرکے منظور کروالیں۔ صرف یہ کہنا کہ ’’ہم خدا کی زمین پر خدا کی حکومت چاہتے ہیں کافی نہیں۔‘‘
اگر میں غلطی پر نہ ہوں، تو عملی طور پر دنیا میں حکومت کے دو نظریے موجود ہیں۔ ایک سرمایہ دارانہ نظریہ کہ جو کچھ بھی ہے، وہ مالکِ مال کا ہے اور دوسرا سوشلسٹ نظریہ کہ سب کچھ ریاست کا ہے۔ اسلامی نظریۂ حکومت و نظریۂ حکمرانی کا صرف زبانی تکرار ہوتا ہے۔ عملی طور پر دورِ نبویؐ اور دورِ خلفائے راشدین کے بعد اسلامی بنیادوں اور اسلامی اصولوں پر مبنی حکومت کم از کم مجھے معلوم نہیں۔ اسلامی نظریہ میں سب کچھ اللہ کا ہے اور انسان اس کا غلام ہے۔ اسلام نے حکومت بنانے کا کام مسلمانوں پر چھوڑا ہے۔ البتہ ایک صالح حکومت و حکمرانی کے معیارات ضرور وضع کیے ہیں، جن کی بنیاد ’’نیکی‘‘ ہے۔ ’’فلاح‘‘، عدل، ترقی، خوشحالی اور امن ہے۔
فی الوقت وطنِ عزیز میں سوشلسٹ حکمران موجود ہیں اور نہ کیپٹلسٹ، بلکہ مال کماؤ کے لیے اقتدار حاصل کرنے والوں کا دور ہے۔
مذہبی جماعتوں کی پارلیمنٹ میں موجودگی معمولی تناسب سے ہے، جو یہ بتاتی ہے کہ یہ جماعتیں بوجوہ عوام سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کرسکتیں۔ یہ جن علاقوں سے ووٹ حاصل کرتی ہیں، وہ علاقے دور افتادہ سرحدی علاقے ہیں، جہاں کے لوگ نماز و روزے کے پابند ہوتے ہیں اور مولوی لوگوں کے معتقد، ورنہ اسلام کا اجتماعی نظام اُن میں بھی بہت کم جانتے ہیں اور نہ وہ نظام اُن کو سمجھایا ہی جاتا ہے۔
نواز شریف صاحب جو کیپٹلسٹ کیمپ سے تعلق رکھتے ہیں، کو کافی لمبا عرصہ اقتدار کا ملا لیکن وہ وطنِ عزیز میں محنت کشوں اور عوام کی فلاح کو عملاً نہ دِکھاسکے بلکہ حالیہ اقتدار میں ملکی وسائل اور قوتوں کو بروئے کار لانے کی بجائے قرضوں کے عظیم بوجھ تلے ملک و قوم کو دبا دیا۔ اس سے ایک حقیقت یہ بھی سامنے آئی کہ اُن کا وزیرِ خزانہ صرف اُن کا رشتہ دار تھا اور بس، لیکن ہر ’’مغل‘‘ شہزادہ نہیں ہوتا۔ نواز شریف صاحب نے ملکی یونیورسٹیوں اور مارکیٹ میں موجود بے شمار ماہرینِ اقتصادیات کی طرف توجہ ہی نہ کی۔ کیوں کہ وہ اُن کے رشتہ دار نہ تھے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے ممالک میں بھی کسانوں اور مزدوروں اور دوسری افرادی قوت کو توانا بنایا جاتا ہے، تاکہ اُن کی پیداواری صلاحیتیں مستحکم اور زیادہ ہوں۔ نوازشریف صاحب کی حکومتوں نے عوام کی صلاحیتوں کو نظر انداز کیا۔ اب معلوم نہیں وہ کس نظریے کو اختیار کریں گے؟
بھٹو مرحوم کی پارٹی کا نظریہ اسلامی سوشلزم تھا، لیکن دو تین بار اقتدار میں آنے کے بعد وہ بھی عملاً نوازشریف والی طرزِ حکمرانی پر قائم رہی۔ اُس کی حکومتوں میں اسلامی نظامِ حکومت و معیشت پر عمل ہوا اور نہ سوشلسٹ نظام پر۔ اس لیے نواز صاحب والی حکومت کی طرح یہ بھی بغیر نظریے کی جماعت ثابت ہوئی۔ دونوں جماعتوں میں اگر کوئی قدر مشترک رہی، تو وہ عوامی وسائل کی لوٹ کھسوٹ تھی۔ نااہل اقربا کو چھوٹی بڑی کرسیوں پر لا بٹھانا، قرضوں پر انحصار کرنا ہی رہا۔
ایم ایم اے کی حکومت کو سابقہ صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) میں ہمیں دیکھنے کا موقع ملا۔ دوسرے شعبے تو دور کی بات ہے، یہ لوگ نظامِ تعلیم اور ’’تربیتِ عوام‘‘ کے شعبوں میں بھی کچھ نہ کرسکے۔ البتہ یہ بھی اپاہجوں میں جعلی خود اعتمادی بڑھانے کا سبب بنی۔
ہمارے یہاں یہ تین نظریے یعنی اسلامی، سرمایہ داری اور اشتراکی اہلِ نظر لوگ جانتے ہیں اور یہ بھی لوگ جانتے ہیں کہ ان کے نام لیوا صرف زبانی حد تک ہیں۔ چوں کہ نواز شریف ایک معروف سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، اب یہ پتا نہیں چلتا کہ وہ عوام (یعنی عام آدمی) کی فلاح کے لیے کس نظریے کو اپنائیں گے یا کوئی نئی اختراع سامنے لائیں گے۔
خدا کی زمین پر خدا کی حکومت کی بات کرنے والوں کی معنی خیز مسکراہٹیں بہت کچھ بتاتی ہیں۔ اُن کی حکومت (ایم ایم اے) بنی۔ آج بھی اُن کی وزارتیں موجود ہیں لیکن اسلام کے عدلِ اجتماعی کے تحت اُن کی اصلاحات کہیں نظر نہیں آتیں۔
سیاست میں کام کرنے والے مخلص لوگ ہوتے ہیں، لیکن دورِ جدید کے اس الجھے موضوع پر اُن کی اکثریت بے علم ہوتی ہے۔ زیادہ تر امیدوار ایم پی اے، ایم این اے کی ذمہ داریاں نالیوں، گلیوں، سڑکوں، گیس اور بجلی کی فراہمی کو سمجھتے ہیں۔ جمہوری نظام میں صرف سرمایہ دار لوگ آگے آسکتے ہیں اور ماہرین کے پاس سرمایہ نہیں ہوتا۔ کامیاب جمہوری ممالک میں ماہرین کی مدد عوامی نمائندوں کو فراہم کی جاتی ہے جب کہ ہمارے یہاں بوجوہ عوامی نمائندے تنہا ہوتے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کے لیے ایک نئے عمرانی طریقۂ کار کو اپنانے کی ضرورت ہے، تاکہ عوامی نمائندوں کا انحصار، رشتہ داروں، خوشامدیوں اور ’’چمچوں چمٹوں‘‘ کی جگہ ماہرین پر ہو۔ ماہرین کی موجودگی ہر نظریے کی حکومت میں لازمی ہو۔ صرف نظریاتی بن جانے سے کام نہیں چلتا۔ حکمران کے ساتھ اچھے اور ماہر ساتھیوں کا ہونا حکمِ نبویؐ ہے۔
………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔