سنہ دو ہزار بارہ عیسوی کو دورانِ شورش ’’گل مکئی‘‘ کے نام سے بی بی سی کے لیے ڈائری لکھنے والی ملالہ یوسف زئی پر نامعلوم افراد کی جانب سے قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب ملالہ اپنے سکول سے گھر واپس آ رہی تھیں۔ ان کو فوری طور پر پہلے سیدو شریف اسپتال سوات، بعد میں سی ایم ایچ پشاور اور پھر بہتر علاج کی غرض سے برطانیہ لے جایا گیا، جہاں وہ تاحال مقیم ہیں۔
ملالہ پر حملہ کے اگلے ہی روزملکی اخبارات میں اس واقعہ کے حوالہ سے ایک ایک خبر تفصیل سے چھاپی گئی۔ سوات کے لوکل اخبارات میں تو اُس دن ملالہ کے علاوہ کوئی خبر جگہ پانے میں کامیاب نہ ہوئی۔ سوات سمیت پورے ملک میں مذکورہ واقعے کی مذمت کی گئی اور ملالہ کے لیے جگہ جگہ دعائیں کی جانے لگیں۔ دن گزرتے گئے اور پھر ایک ایسا وقت آیا کہ نوبل انعام ملنے کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب کی محبوب ملالہ ایک متنازعہ شخصیت بن گئیں۔ ملک بھر سے اُن کے حوالے سے نفرت اور شکوک و شبہات کا اظہار کیا جانے لگا، لیکن حیرت انگیز طور پر ملالہ کے اپنے آبائی علاقہ کے لوگ بھی انہیں شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے اور یوں یہ سلسلہ آج تک پورے زور و شور سے جاری ہے۔
ملالہ پر حملہ ایک ڈرامہ تھا یا فلم؟ اس بحث میں نہیں الجھتے۔ سب سے پہلے اپنے استاد اور محقق ڈاکٹر سلطان روم صاحب کے ایک کالم ’’سپاہِ ملالہ‘‘ سے ایک اقتباس کا نچوڑ اپنے کالم کا حصہ بنانا چاہوں گا، جس میں انہوں نے ملالہ یوسف زئی کے والد ضیاء الدین یوسف زئی سے درخواست کی تھی کہ خدارا! ملالہ یوسف زئی کو اسی طرح ایک باصلاحیت بچی رہنے دیں۔ اسے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے قربانی کا بکرا نہ بنائیں۔
اس قسط وار کالم کے چھپنے کی دیر تھی کہ ملالہ پر جان لیوا حملہ ہوگیا۔ ٹھیک ہے ملالہ ایک باصلاحیت لڑکی تھیں، وہ سوات کی کئی دیگر لڑکیوں کی طرح پُراعتماد تھیں۔ تقریر کے فن سے واقف تھیں اور اس کے علاوہ وہ ذہین بھی تھیں، لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ پوری دنیا میں پذیرائی ملنے کے بعد بھی ملالہ کے والد نے ’’بس ‘‘ کرنے پر اکتفا نہیں کیا اور ڈائری کے منظرِ عام پر آنے کے بعد بھی وہ ملالہ سے اپنی ادھوری خواہشات پوری کرنے کی فکر میں جت گئے۔ نتیجتاً سکول سے واپس آتے ہوئے معصوم ملالہ مسلح افراد کا نشانہ بن گئیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ضیاء الدین صاحب کی بچوں کی سی ضد نے نہ صرف ملالہ بلکہ پورے خاندان کو ملک بدر ہونے پر مجبور کیا۔ جہاں اب ملالہ سیکورٹی کے حصار میں ایک حبس زدہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ملالہ یوسف زئی کے اپنے ہی لوگوں میں سے بہت سارے اس کے خلاف ہیں اور نفرت بھرے جذبات رکھتے ہیں۔ مجھ سے اکثر اسلام آباد میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ باقیوں کی تو خیر ہے، یہ سوات کے اپنے لوگ ملالہ کو کیوں شکوک و شبہات کی نظرسے دیکھتے ہیں؟ میرے خیال میں اس کی ڈھیر ساری وجوہات ہیں۔ پہلے تو ملالہ کے ساتھ زخمی ہونے والی طالبات کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے پر لوگوں نے احتجاج کیا تھا کہ ان کو چھوڑ کر صرف ملالہ کو ہی کیوں توجہ اور خاص پروٹوکول دیا جا رہا ہے؟ زخمی تو تینوں طالبات ہوئی ہیں؟ بعد میں شدید عوامی ردعمل سامنے آنے کی وجہ سے باقی دو زخمی طالبات کو بھی بہتر علاج کی سہولیات مہا کی گئیں، تو معاملہ ٹھنڈا پڑگیا۔ لوگوں کے ملالہ مخالف بننے کی سب سے پہلی بنیادی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اہلِ سوات خراب حالات کے چشم دید گواہ ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ ٹھیک ہے ملالہ نے اپنی آواز بلند کی تھی لیکن باقی ماندہ ہیروز کا کیا بنا؟ یہاں کے لوگوں نے بہت سارے مقامی ہیروز کو گمنامی کی موت مرتے دیکھا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دہشت گردوں کے خلاف آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ اسلحہ بھی اٹھایا تھا۔ اس کے علاوہ ایسے بھی لوگ تھے جو آخر دم تک ڈٹے رہے اور اپنی جانیں تک قربان کیں لیکن ان کو ملالہ کی طرح پذیرائی نہ مل سکی۔ ان مقامی ہیروز کو کسی نے سراہا نہیں۔ آج ان کے بچے در در کی خاک چھاننے پر مجبور ہیں۔
دوسری اہم وجہ سوات کے تعلیمی میدان میں ملالہ کا کردار ہے۔ یہاں کے لوگ سوال کرتے ہیں کہ سوات کی تعلیمی صورتحال کی بہتری میں ملالہ کا کیاکردار رہا ہے یا حالیہ کیا کردار ہے؟ واضح کرتا چلوں کے اس وقت سوات میں ضیاء الدین صاحب کا سکول’’خوشحال پبلک سکول‘‘ جو اُن کے بیٹے کے نام سے ہے، ابھی تک موجود اور فعال ہے۔ مذکورہ سکول میں میری اطلاعات کے مطابق بیشتر طالبات کے تعلیمی اخراجات ’’ملالہ فنڈ ‘‘برداشت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ سکول دیگر سکولوں کی طرح ایک پرائیوٹ سکول ہے اور طلبہ سے معقول فیس وصول کرتا ہے۔ اس تناظر میں اہلِ سوات کا کہنا ہے کہ جب ’’ملالہ فنڈ‘‘ سے سکول کے اخراجات پورے ہوتے ہیں، تو کم از کم اس میں تو سو فیصدمفت تعلیم مہیا کی جاتی۔ اس سکول کے حوالہ سے ایک غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ شورش کے دنوں میں یہ سوات کا واحد سکول تھا جو بند نہیں ہوا اور تعلیم کاسلسلہ جاری رہا۔ حالاں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اُن دنوں وقتی تعطیلات کے سوا کوئی بھی سکول بند نہیں ہوا تھا اور سوات کے تقریباً تمام سکولوں میں تعلیم کے حصول کا سلسلہ جاری تھا۔ یہ کہنا کہ اس وقت صرف اور صرف ضیاء الدین یوسف زئی ڈٹے رہے اور انہوں نے اپنے سکول کے دروازے بند نہیں کیے، سراسر غلط بات ہے۔ سوات کے تمام سکول مالکان ڈٹے رہے، کسی نے بھی طلبہ و طالبات پر تعلیم کے دروازے بند نہیں کیے۔ تعلیم کا سلسلہ دشواسہی مگر جاری تھا۔
اس کے علاوہ ملالہ فنڈ نے حال ہی میں سوات میں قائم ’’خپل کور فاؤنڈیشن‘‘ سے ایک معاہدہ کیا تھا۔ ادارہ خپل کور فاؤنڈیشن یتیم بچوں کو مخیر حضرات کی زکوٰۃ و خیرات سے میٹرک تک مفت تعلیم فراہم کرتا ہے۔ معاہدہ کے مطابق ملالہ فنڈ کے تعاون سے ملالہ کے آبائی علاقہ ’’شانگلہ‘‘ میں خپل کور فاؤنڈیشن کا آغاز ہونا تھا، لیکن میرے ذرائع کے مطابق معاملہ ایک افتتاح کی وجہ سے لٹکا ہوا ہے۔ ضیا ء الدین صاحب اس کا افتتاح اپنے ’’رفقائے کار‘‘ کے ہاتھوں کرنا چاہتے ہیں جب کہ فاؤنڈیشن کے سربراہ کو یہ ہرگز منظور نہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ فاؤنڈیشن کے سربراہ اور ضیاء الدین یوسف زئی نئے کھلنے والے سکول کے نام پر بھی متفق نہیں۔ ایک پارٹی سکول کے اصل نام’’خپل کور فاؤنڈیشن‘‘ پر بہ ضد ہے، تو دوسرا اسے ملالہ کے نام سے منسوب کرنا چاہتی ہے۔ اس کشمکش میں شانگلہ میں مذکورہ سکول کا معاملہ تاحال لٹکا ہوا ہے۔ اب یہاں بھی سوال اٹھتا ہے کہ پوری دنیا میں تعلیم کا ڈھنڈورا پیٹنے والے محض ایک افتتاح یا نام کی وجہ سے کیوں سیکڑوں یتیموں کی تعلیم میں رکاوٹ بن رہے ہیں؟
اس نفرت کو ہوا ملالہ کے’’یہاں اب امن ہے‘‘ والے بیان نے دی ہے۔ یاد رہے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا گیا ہے، جب ’’پختون تحفظ موومنٹ‘‘ ریاست سے اپنے جائز مطالبات کے حق میں مصروفِ عمل ہے۔ اس بیان پر پختونوں کو تحفظات ہیں۔ صرف سوات ہی نہیں بلکہ اسلام آباد جیسے محفوظ شہر میں ملالہ کو ’’فول پروف سیکورٹی‘‘ دی جاتی ہے اور ایسے اہم وقت میں ملالہ جیسی طاقتور آواز یہ بیان داغتی ہے کہ یہاں اب امن ہے۔ اس جیسا مثالی امن دنیا میں کہاں ہوگا کہ ملالہ صاحبہ اپنے گھر کا دورہ ایک ایسے ماحول میں کرتی ہے جس پر کرفیو کا گمان ہوتا ہے۔ اس صبح کو کسی کو گھر سے نکلنے یا واپس داخل ہونے پر مکمل طور پر پابندی تھی۔
بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ ملالہ سے نفرت محض حسد کی بنیاد پر ہے۔ حسد، کینہ، بغض وغیرہ انسانی نفسیات ہیں۔ مانتا ہوں کہ ڈھیر سارے لوگ ملالہ سے حسد کی وجہ سے نفرت کرتے ہوں گے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کی آڑ میں کچھ زمینی حقائق کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جائے۔ اس حوالہ سے کچھ تعلیم یافتہ لوگوں کے جذباتی ہونے پر بھی حیرت ہوتی ہے، جو بات سنے بغیر ہی ملالہ سے اختلاف کرنے والوں کو گالیاں تک دینے سے گریز نہیں کرتے۔ عرض ہے کہ پہلے بات سنی جائے۔ ملالہ پر حملہ ہوا، تو پورا سوات غم میں ڈوبا ہوا تھا۔ شروع میں اگرکچھ حلقوں سے ملالہ کے خلاف نفرت کا اظہار سامنے آیا بھی، تو اسے آپ حسد کہہ سکتے ہیں لیکن یہاں جن عناصر کی وجہ سے دن بہ دن ملالہ کے خلاف نئی نئی آوازیں بلند ہو رہی ہیں، اس کے درپردہ وجوہات پر بھی غور کیا جائے۔ ملالہ کی ہمت یا ذہانت کو لے کر کوئی بے جا تنقید کرے، تو وہ واقعی زیادتی ہے، مگر اس سارے معاملے میں ملالہ یا ان کے والد کے کردار یا بعض سرگرمیوں پر تنقید ہو، تو اسے کھلے دل کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔
قارئین کرام! میرے خیال میں ہمیں ملالہ یا ان کے والد کو ’’بت‘‘ بنانے کی بجائے ان وجوہات پر غور کرنا چاہیے جس سے ملالہ یوسف زئی کے خلاف آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ ملالہ یوسف زئی اور ان کے والد کوئی آسمان سے اتری ہوئی مخلوق نہیں بلکہ ہم جیسے عام انسان ہیں اور مقولہ ہے کہ ’’انسان غلطیوں کا پُتلا ہے۔‘‘
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔