یہ سوال ہمارے سامنے ہمیشہ سوال ہی رہے گا کہ ہم اہلِ سوات نے کیا پایا، کیا کھویا؟ تاریخ کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے تعلیم، صحت کی سہولیات، امن و امان، ترقی (ترقی معکوس)، تہذیب و تمدن اور برداشت…… الغرض ہر حوالے سے جایزہ لینا ہوگا۔
مجھے کہنے دیجیے کہ اگر ہم نے ترقی کی ہے، تو آبادی کے بے پناہ اضافے اور اس کے نتیجے میں پیدا شدہ مسائل، عدم برداشت، دہشت گردی اور معاشرتی انحطاط کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ جو مادی ترقی باقی ماندہ دنیا نے کی، اُس کے اثرات ہم نے ضرور لیے، مگر بہ حیثیتِ معاشرہ اور بہ حیثیتِ مفید شہری ہم نے کئی دہائیاں پیچھے کا سفر کیا ہے اور اب آگے جانے کا راستہ ہی نہیں مل رہا۔
اگر ہم ماضی میں دیکھیں، تو سوات پورے صوبے کے لیے باکردار اور موثر افرادی قوت پیدا کرتا تھا، جو طب، صنعت و حرفت، تجارت اور انتظامی امور میں ملکہ رکھتی تھی اور صوبہ خیبر پختونخوا کا کوئی بھی ضلع، سوات کے کسی بندے کو اپنے کسی ادارے میں خدمات میں پاکر ترقی کا یقین کرلیتا تھا۔
سوات کے نیکپی خیل کوزہ بانڈئی میں ایوب خان ایک مانے ہوئے خان تھے، جن کی بہادری اور شجاعت تاریخ سوات کا حصہ ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے فریدون خان جیسا بہادر، روشن خیال، قابل اور بہادر بیٹا دیا۔ آگے چل کر فریدون خان کو قدرت نے اکبر خان جیسے بیٹے کا باپ بنایا، جن پر ان کو، نیکپی خیل کو اور پورے سوات کو ہمیشہ فخر سے یاد کیا جائے گا۔
اکبر خان صاحب نے مادرِ علمی اور شخصیت ساز جہانزیب کالج سے تعلیم حاصل کی اور 1988ء میں سول سروس جوائن کی۔ مختلف جگہوں پر اُنھیں ڈپٹی کمشنر بونیر، شانگلہ (وغیرہ) کے طور پر خدمات سر انجام دینے کا موقع ملا، اور ان جگہوں پر اب بھی انھیں عزت و احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ترقی کے زینے چڑھتے ہوئے سیکرٹری بورڈ آف ریونیو خیبر پختونخوا رہے، جو کہ ایک نہایت ذمے داری اور قابلیت کا متقاضی عہدہ تھا۔ یہاں جاں فشانی سے کام کرنے کے بعد انھیں ہوم سیکرٹری خیبر پختونخوا کے طور پر خدمات انجام دینے کا موقع دیا گیا۔ اس حیثیت سے اپنی بیوروکریٹ کیریئر کا خاتمہ کرتے ہوئے سبک دوش ہوئے۔
ان اعلا عہدوں پر رہنے اور مشاہدات و تجربات کام یابی سے کرنے کی بڑی وجوہات گھر کی تربیت، جہانزیب کالج کی شخصیت سازی، وسیع مطالعہ، باذوق مزاج، لائق اور قابل ذہن کے ساتھ ایک بااُصول، بہادر اور دیانت دار طبیعت پائی۔
سوات میں حالات مخدوش ہوئے، تو یہ اس خاندان کے لیے صحیح معنوں میں امتحان کا وقت قرار پایا۔ قربانیوں پر قربانی کا سلسلہ شروع ہوا۔ دہشت گردوں نے اُن کے حجرے کو متعدد بار نشانہ بنایا، جہاں سے گزرتے ہوئے لوگ سر جھکا کر چلتے تھے، اُس حجرے کو لوٹا گیا۔ پختون روایات کو پاؤں تلے روندا گیا۔ جب اس پر بھی تسلی نہ ہوئی، تو جناب اکبر خان صاحب کے حجرے کو بارود سے اُڑایا گیا۔ کیوں کہ یہ خاندان کسی صورت سرنگوں ہونا نہیں جانتا تھا اور نہ دہشت گردوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوکر ان کی بیعت ہی پر تیار تھا۔
جناب اکبر خان صاحب کے داماد سید عثمان لالا (تندو ڈاگ) پشاور پولیس میں نمایاں خدمات انجام دے رہے تھے۔ وہ سماج دشمن عناصر کے لیے موت کا نام تھے۔ کہتے ہیں کہ بدقسمتی کبھی اکیلے نہیں آتی۔ خوب صورت سید عثمان لالا ایک غیر ضروری اور ناجائز دشمنی کا شکار ہوئے۔ اُن کے خلاف قبائلی بدمعاشوں نے باقاعدہ فوج بنائی اور سماج دشمن عناصر نے اُن کے خاتمے کی تدابیر کرنا شروع کیں۔ پھر ایک دن کسی ظالم نے اُن کی خوراک میں زہر ڈال دیا، جس نے سید عثمان لالا جیسے مضبوط اور طاقت ور انسان کو جسمانی طور پر بہت کم زور کردیا۔ دشمن اُن کے جسم میں وہ زہر دوڑانے میں کام یاب ہوئے، جس سے اُن کی قوتِ مدافعت کم زور ہوتی گئی اور 24 گھنٹے تکلیف میں مبتلا رہے…… مگر زہر ان کا عزم اور حوصلہ پست نہ کرسکا۔ وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ یہ پورے خاندان کے لیے ایک عظیم سانحہ تھا۔
جناب اکبر خان صاحب جیسے مضبوط انسان کو کوئی دہشت گردی، کوئی جانی یا مالی نقصان کم زور نہ کرسکا۔ وہ چٹان کی طرح کھڑے رہے۔ دہشت گرد باطل تھے اور باطل نے مٹ جانا تھا، سو مٹ گیا۔
امن کا قیام اور دہشت گردوں کی پسپائی ایک طرح سے اکبر خان صاحب کی کام یابی اور خدمات کا اعتراف تھا۔ نیکپی خیل کا یہ اصلی باشندہ مع اپنے معزز خاندان آج بھی موجود ہے اور دہشت گرد مارے مارے پھر رہے ہیں۔
اکبر خان صاحب کی خدمات، ان کی قابلیت، ان کی عزت ان کی قربانیوں پر اہلِ سوات دل کی گہرائیوں سے انھیں خراجِ تحسین اور سلام پیش کرتے ہیں۔ وہ واقعی ہیرو ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی عزت اور مرتبے میں اضافہ فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
