ریاست سوات کا جہانزیب کالج

Blogger Riaz Masood

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
سوات ریاست کے تمام تعلیمی ادارے پشاور یونیورسٹی کے ساتھ الحاق شدہ تھے۔ آٹھویں، دسویں، انٹرمیڈیٹ اور بیچلر سطح کے امتحانات صوبے کے دیگر سکولوں اور کالجوں کے ساتھ منعقد ہوتے تھے، جن کی نگرانی پشاور یونیورسٹی کرتی تھی۔ میٹرک اور ایف اے کے سرٹیفکیٹس یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے دستخط سے جاری ہوتے تھے۔ گزٹ میں ریاستی سکولوں کو علاحدہ طور پر ریاست ہائی سکول سیدو یا اسی طرح کے نام سے درج کیا جاتا تھا۔ یہی صورتِ حال جہانزیب کالج کی بھی تھی۔
سکولوں کے تدریسی عملے کا معیار باقی صوبے کی طرح تھا، صرف تنخواہوں میں فرق تھا، کیوں کہ ریاستی وسائل محدود تھے۔ جہانزیب کالج کے عملے میں تدریسی، انتظامی، اکاؤنٹس کے ساتھ ساتھ لیبارٹریاں، بوٹانیکل گارڈن، لائبریری کا عملہ اور مالی وغیرہ شامل تھے۔ آخر الذکر ادارہ ایک ’’سٹیوارڈ‘‘ کے ماتحتی میں چلتا تھا۔
پرنسپل اور وائس پرنسپل کے علاوہ، باقی تدریسی عملے کو پروفیسر کا درجہ دیا گیا تھا۔ یہاں لیکچرر، ایسوسی ایٹ پروفیسر، اسسٹنٹ پروفیسر اور پروفیسر جیسے عہدوں کا کوئی تصور نہیں تھا، جیسا کہ پشاور یونیورسٹی سے الحاق شدہ دیگر کالجوں میں ہوتا تھا۔ ہر پروفیسر کو کالج کالونی میں ایک ہی قسم کا بنگلہ الاٹ کیا گیا، سوائے پرنسپل کے، جس کا سرکاری رہایش گاہ زیادہ کشادہ اور بڑا تھا۔ تمام رہایش گاہوں میں بڑے بڑے لان تھے۔ باؤنڈری وال کی جگہ سدا بہار باڑوں کی قطاریں ان بنگلوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتی تھیں۔
باقاعدہ سکالر کی آمد سے پہلے، ایک عربی لیکچرر قریشی صاحب اسلامیات پڑھاتے تھے۔ جب جناب بادشاہ زادہ الازہر یونیورسٹی مصر سے دینی مضامین میں اعلا تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس آئے، تو انھیں اسلامیات کے فیکلٹی کا ڈین مقرر کیا گیا۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا، تدریسی عملے کے ہر رُکن کو پروفیسر کہا جاتا تھا۔ ان کا اندراج سالانہ آرڈر آف پرسیڈینس (حیثیت) یا پروٹوکول میں بھی کیا گیا تھا۔
ریاستی افواج کے کپتانوں اور حاکموں کے درجے کے سول افسران کے اوپر عہدیدار اور جہان زیب کالج کے پروفیسروں کی حیثیت ایک برابر ہوتی۔
جناب بادشاہ زادہ اولین استاد تھے، جنھوں نے قاہرہ کی الازہر یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ جلد ہی کالا کلی نیکپی خیل کے ساتھ تعلق رکھنے والے ایک اَور سواتی بھی مصر سے اعلا تعلیم حاصل کر کے آئے اور اسلامیات کے فیکلٹی کے ڈین کے طور پر مقرر کیے گئے۔ اس طرح سینئر ڈین کے بوجھ کو ان دو کے درمیان تقسیم کیا گیا۔
جہانزیب کالج سے وابستہ ایک اور مشہور شخصیت قاضی حسین احمد تھے۔ وہ ایم ایس سی جغرافیہ تھے اور بے روزگار تھے۔ ان کے ہم جماعت، جو شاہ ڈیرئی نیکپی خیل سے تعلق رکھتے تھے، پروفیسر ولی محمد تھے۔ وہ اپنے مضمون میں گولڈ میڈلسٹ تھے۔ یونیورسٹی آف پشاور نے انھیں بہت پُرکشش مراعات کے ساتھ نوکری کی پیش کش کی تھی، لیکن انھوں نے انکار کر دیا اور سوات آ گئے۔ چند ماہ بعد، انھوں نے والی صاحب سے درخواست کی کہ انھیں فارغ کر دیا جائے۔ کیوں کہ ان کی تنخواہ ان کی قابلیت سے کم تھی۔ والی صاحب نے انھیں کہا کہ وہ کسی متبادل کی تلاش کریں، تاکہ طلبہ کا وقت ضائع نہ ہو۔ انھوں نے قاضی صاحب کو سوات بلایا اور انھیں اپنی جگہ عہدہ قبول کرنے کے لیے تیار کیا۔ قاضی صاحب کو سوات سے محبت تھی اور انھوں نے ہامی بھرلی۔ یوں ولی محمد کو پشاور جانے کی اجازت دی گئی۔
اس طرح قاضی صاحب کو ولی محمد کا خالی کردہ بنگلہ الاٹ کیا گیا اور اس طرح جہانزیب کالج میں ان کی تدریس کا آغاز ہوا۔ وہ خوش مزاج اور طلبہ میں بہت مقبول شخص تھے۔
میرے ذہن میں ان کے ساتھ خوشگوار لمحات کی یادیں تازہ ہیں ، جو ان شاء اللہ میں قارئین کے ساتھ بانٹوں گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے