تبدیلی یا سراب؟

Blogger Tauseef Ahmad Khan

خیبر پختونخوا وہ صوبہ ہے جہاں گذشتہ تین ادوار سے تحریکِ انصاف کی حکومت قائم و دائم ہے۔ یہ جماعت نظریاتی بنیادوں پر ووٹ لینے میں سب سے زیادہ کام یاب رہی اور عوام نے اس سے ’’حقیقی تبدیلی‘‘ کی امید باندھی…… مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی تبدیلی آئی؟ کیا گورننس سسٹم میں بہتری آئی، یا پھرحالات مزید پیچیدہ ہوگئے؟
مَیں نے خیبر پختونخوا کے گورننس سسٹم کا جائزہ لینے کے لیے تحقیق کی، مختلف مضامین پڑھے، اصلاحاتی اقدامات کو جانچا اور قانون سازی پر بھی گہری نظر ڈالی…… مگر کہیں بھی وہ تبدیلی دکھائی نہیں دی، جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔
مزید تبدیلی کی حقیقت کو جانچنے کے لیے مَیں نے بہ راہِ راست ایسے لوگوں سے بات کی، جن کا روزانہ اداروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ خاص طور پر وکیل حضرات سے ملاقات کی، کیوں کہ ان کا گورننس سسٹم سے ہر وقت واسطہ پڑتا ہے اور وکلا حضرات اداروں کی کارکردگی کو اچھی طرح سے مانیٹر کرتے ہیں۔
جب مَیں نے کئی سینئر وکیلوں سے پوچھا کہ کیا 2013ء کے بعد ادارے بہتر ہوئے ہیں یا بدتر……؟ تو ان کا جواب حیران کن تھا۔ ایک سینئر وکیل نے کہا کہ ہمارے پاس سب سے زیادہ مقدمات زمینوں کے تنازعات سے متعلق ہوتے ہیں۔ پہلے جو کیس دو تین سالوں میں نمٹایا جاتا تھا، آج وہی کیس 10 سال میں بھی مکمل ہونا مشکل ہے۔ سرکاری افسران جان بوجھ کر پیچیدگیاں پیدا کرتے ہیں، تاکہ رشوت کی گنجایش نکل سکے۔ اگر کوئی شخص رشوت دینے سے انکار کرے، تو اس کی فائل برسوں تحصیل دار کے دفتر میں دبی رہتی ہے۔ موقع کمیشن کے نام پر لوگوں کو بے جا پریشان کیا جاتا ہے اور عدالتی احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جاتی ہے۔
جب قانون سازی اور کرپشن کے خلاف اقدامات کی بات کی گئی، تو ایک اور وکیل نے کہا کہ اگر واقعی تبدیلی آئی ہوتی، تو ہمیں گورننس کے پرفارمنس میں بہتری نظر آتی…… لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی نظام وہی پرانا ہے، جو ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے۔ بدعنوانی کو روکنے کے کوئی موثر اقدامات نہیں کیے گئے، بل کہ رشوت کا دائرہ مزید وسیع ہوگیا ہے۔
قارئین! جب مَیں نے سرکاری افسران سے پوچھا کہ وہ اپنی ڈیوٹی میں کن مشکلات کا سامنا کرتے ہیں؟ تو اُن کا جواب بھی حیران کن تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے راستے مین سب سے بڑی رکاوٹ عوامی نمایندگان خود ہیں۔ جب ادارے کسی کرپٹ مافیا کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، تو یہی نمایندے مداخلت کرتے ہیں، دباؤ ڈالتے ہیں اور افسران کو باقاعدہ دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے خلاف کوئی بھی اقدام عملی طور پر کام یاب نہیں ہوسکا۔ ادارے اور عوام دونوں مافیا کے ہاتھوں مزید بے بس ہوگئے ہیں۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر گورننس سسٹم بہتر کیوں نہیں ہو سکا؟ اس کا سب سے واضح جواب یہی ہے کہ تحریکِ انصاف نے اپنے منشور سے خود ہی انحراف کیا ہے۔ ایسے لوگوں کو ٹکٹ دیے گئے، جو نہ تو گورننس کا تجربہ رکھتے تھے اور نہ پارٹی کے اُصولوں پر پورا ہی اترتے تھے۔ جو جماعت موروثیت کے خلاف نعرہ لگاتی رہی، وہی خود موروثیت کی دلدل میں دھنس چکی ہے۔ ایک ہی خاندان کے افراد کو بار بار ٹکٹ دیے جا رہے ہیں اور یہی لوگ اداروں میں اثر و رسوخ قائم کرکے کرپشن کو مزید مضبوط کر رہے ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ خیبر پختونخوا میں تین بار حکومت ملنے کے باوجود کسی بھی ادارے میں مثبت تبدیلی نہیں لائی گئی۔ اس کے برعکس، کرپشن میں اضافہ ہوا ہے اور عوام کے حقوق کا استحصال مزید بڑھ گیا ہے۔
جب عوام نے تبدیلی کے نام پر ووٹ دیا، تو انھیں امید تھی کہ نظام بدلے گا، کرپشن ختم ہوگی اور ادارے مضبوط ہوں گے، مگر آج بھی حالت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بغیر سفارش یا رشوت کے کسی کام کے لیے سرکاری دفتر جائے، تو اس کی فائل مہینوں سرد خانے کی نذر رہتی ہے۔
قارئین! یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس ’’تبدیلی‘‘ کا وعدہ کیا گیا تھا، وہ گئی کہاں؟ اگر واقعی تبدیلی لانی ہے، تو تحریکِ انصاف کو صرف نعروں تک محدود رکھنے کے بہ جائے عملی اقدامات میں ڈھالنا ہوگا۔ ’’مئیر‘‘ سے لے کر وزیرِاعلا تک سب کی کارکردگی اور اہلیت کو جانچنا ہوگا کہ یہ لوگ کتنی فی صد تبدیلی لانے میں کام یاب ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان کے ذاتی اثاثوں میں یک دم اتنا بڑا اضافہ کیسے ہوا؟
اور اگر ایسا نہ کیا گیا، تو وہی عوام، جنھوں نے تین بار بھاری اکثریت سے اس جماعت کو منتخب کیا، اگلی بار کسی اور نعرے کے پیچھے چل پڑیں گے اور تحریکِ انصاف تاریخ کے صفحات میں دفن ہو جائے گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے