کبھی خواب نہ دیکھنا (ستائیس ویں قسط)

Blogger Riaz Masood

چکیسر میں قیام کے دوران میں ایک اور چیز، جس نے مجھے متاثر کیا، وہ ان کی تعلیم کے ساتھ محبت تھی۔ ودودیہ سکول سیدو شریف کے بعد بادشاہ صاحب کے دور میں پہلا سکول چکیسر میں بنا تھا۔ ہائی سکول چکیسر موجودہ ضلع شانگلہ کا سب سے قدیم ادارہ ہے۔ 1950ء کی دہائی کے وسط میں جب والی صاحب نے نئی جدید عمارت تعمیر کروائی، تو پرانی عمارت کو بورڈنگ ہاؤس میں تبدیل کر دیا گیا۔ اردگرد کے تقریباً تمام علاقوں کے طلبہ علم حاصل کرنے کے لیے وہاں ٹھہرتے۔
شروع میں سٹیٹ ہائی سکول چکیسر ایک مخلوط تعلیمی ادارہ تھا۔ جب میں 1958ء میں بہ طور مہمان اور بعد میں 60ء کی دہائی میں بہ طور سرکاری ملازم چکیسر میں تھا، تو اُس وقت زیادہ تر لڑکیاں مڈل کے بعد سکول جانا چھوڑ دیتیں، لیکن چند لڑکیوں نے میٹرک تک اسی سکول میں اپنی تعلیم جاری رکھی۔ لوگ جڑے ہوتے تھے۔ آپس میں پیار و محبت تھی۔ اس لیے مخلوط تعلیم کو انہونی بات نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بااثر گھرانوں کی لڑکیاں سیکھنے کے لیے بے چین تھیں، لیکن اُس وقت مسائل پر قابو پانا اُن کی استطاعت سے باہر تھا۔
چکیسر صدیوں سے اسلامی علوم کا ممتاز مرکز رہا ہے اور اس کے عظیم علما اور مذہبی اسکالر دور دور تک مشہور تھے۔ برصغیر پاک و ہند کے عظیم اداروں کے اعلا تعلیم یافتہ اساتذہ کا تعلق چکیسر سے تھا۔ چناں چہ چکیسر کی مسجدیں سیکڑوں طلبہ کے لیے تحصیلِ علم کا مرکز تھیں۔
 ایک اور خوبی یا جو بھی کہیں، ان کا اپنی نسل، خیل اور آبا و اجداد پر فخر تھا۔ ہر قبیلے کا دعوا تھا کہ وہ دوسرے خیلوں کے مقابلے میں ’’نیلے خون والے‘‘ پختون ہیں۔ ریاستی حکومت نے ہر قبیلے کی سرپرستی کی، لیکن توازن برقرار رکھنا مشکل تھا۔ مثال کے طور پر سول انتظامیہ میں ایک حاکم آمیز خان، بیگم خیل سے تحصیل دار/ صوبہ دار میجر سیف الرحمان، کمانڈر آفرین خان، کیپٹن سلطان محمود خان، ایمنہ خیل سے صوبہ دار میجر احمد شاہ اور غورہ خیل سے صوبہ دار میجر سعد اللہ خان تھے۔ دو اور تحصیل دار بھی تھے، فیلاقوس خان اور ہمایوں خان، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ اُن کا تعلق کس خیل سے تھا؟
میرے پاس چکیسر کی تلخ و شیریں یادیں ہیں، جن میں سے کچھ اب بھی تازہ ہیں۔ کاش، مَیں وقت کو پلٹا سکوں اور اپنے لڑکپن کے پرانے چکیسر کو دوبارہ دیکھ سکوں!
پانچ دن آرام کرنے کے بعد، مَیں نے خود کو پُرسکون اور تازہ دم محسوس کیا۔ مَیں اپنے باس کے سامنے پیش ہوا۔ وہ مجھے صحیح سلامت دیکھ کر خوش ہوا۔ وہ کچھ دستاویزات اور ٹھیکے داروں کے بِلوں پر منظوری اور دستخط لینے کے لیے ’’ہز ہائینس‘‘ کے دفتر جا رہے تھے۔
مَیں اپنی غیر موجودگی میں تازہ ترین پیش رفت جاننے کے لیے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھنے گیا۔ ہمارا باس شاہی دفتر سے واپس آیا۔ وہ کچھ پریشان اور تھکا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ اُس نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اور مجھے بیٹھنے کو کہا۔ کچھ خیر سگالی کے الفاظ کے تبادلے کے بعد، اُنھوں نے کہا: ’’صاحب نئے مکمل ہونے والے ہائی سکول بری کوٹ کا دورہ کریں گے۔ آپ اُن کا استقبال کریں گے اور اُنھیں سکول کا معائنہ کرائیں گے۔ فکر نہ کریں، مَیں اُن کے ساتھ ہوں گا۔ اگر کچھ غلط ہوا، تو مَیں صورتِ حال کو سنبھال لوں گا۔‘‘
مَیں نے احتجاج کیا کہ مجھے اس منصوبے کے بارے میں کچھ نہیں معلوم، ٹھیکے دار کون ہے، معاہدے کی لاگت کتنی ہے؟ لیکن اس نے وہاں میری موجودگی پر اصرار کیا اور مجھے یقین دلایا کہ کوئی پریشانی کی بات نہیں ہوگی۔ بہ ہرحال میرے پاس اُن کی ہدایات پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ مَیں شاہی معائنہ سے تقریباً تین گھنٹے پہلے وہاں پہنچ گیا۔ سپاہیوں کے ذریعے سڑکوں کی صفائی کروائی۔ غالیگی کا ایک ٹھیکے دار ایوب وہاں موجود تھا۔ مَیں والی صاحب کے پہنچنے کا انتظار کرنے لگا۔
شاہی موٹر کار سکول کے گیٹ پر رُکی، تو مَیں نے اُنھیں سلام کیا اور اُن کے لیے کار کا دروازہ کھولا۔ اُنھوں نے میری طرف سرسری نظروں سے دیکھا اور پھر سکول میں داخل ہو گئے۔ پہلا کمرا جس میں وہ گئے، ہیڈ ماسٹر کا دفتر تھا، جس کے ساتھ اٹیچ واش روم تھا۔ وہ واش روم کے اندر گئے اور سیش کاڈ کے کانٹے کو کھینچ کر دیکھا کہ آیا یہ مضبوط ہے یا نہیں…… مگر وہ مضبوط نہ تھا! اُن کے ہاتھ میں باہر نکل آیا۔ اُنھوں نے میری طرف پلٹ کر پوچھا: ’’یہ کیا ہے عظیم کے بیٹے ؟‘‘
مَیں نے کہا کہ اس سکول کو دیکھنے کا میرا پہلا موقع ہے اور مَیں حال ہی میں چکیسر سے فارغ ہو کر آیا ہوں۔ ٹھیکے دار قریب ہی کھڑا تھا۔ والی صاحب نے اپنے ہاتھ میں موجود ہُک اس کے منھ پر دے مارا۔ اُنھوں نے میرے باس پر بھی ناراضی کا اظہار کیا اور مجھے ٹھیکے دار کو پانچ سو روپے جرمانہ کرنے کو کہا۔ سو مَیں نے اطمینان کا سانس لیا۔ مَیں بال بال بچ گیا تھا۔ والی صاحب خراب موڈ کے ساتھ میرے افسر کو سڑک کے کنارے کھڑا چھوڑ کر چلے گئے۔
اُن کی اپنی پک اَپ سائٹ سے تھوڑی دور کھڑی تھی۔ ہم اُس پر چڑھے اور سیدو شریف واپس آگئے۔ شام کا وقت تھا۔ اُنھوں نے مجھے رات کے کھانے پر ٹھہرنے کو کہا۔ ہم نے چاول اور کباب کھائے۔ ہلکی پھلکی ریفریشمنٹ سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ پھر اُنھوں نے ڈرائیور سے کہا کہ مجھے افسر آباد میں میرے گھر ڈراپ کر دے۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے