وادئی سوات: مذہبی سیاحت کے امکانات اور چیلنجز

Blogger Arshad Jan

تحریر: ارشد جان 
وادئی سوات، اپنی قدرتی خوب صورتی اور دل کش مناظر کے ساتھ ساتھ، مذہبی سیاحت کے حوالے سے بھی عالمی سطح پر ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ یہ وادی اپنی غیرمعمولی تاریخ، تہذیب اور ثقافتی ورثے کی بہ دولت مختلف ادوار میں مختلف اقوام کا گہوارہ رہی ہے ۔ سوات میں بدھ مت کے تاریخی آثار، اسٹوپے اور خانقاہیں بدھ مت کی قدیم روایتوں کی یادگار ہیں، جو تبت اور جنوب مشرقی ایشیا کے بدھ مت کے پیروکاروں کے لیے مقدس مقام سمجھی جاتی ہیں۔ بدھ مت کے پیروکاروں کے لیے وادئی سوات کو دوسری مقدس سرزمین کا درجہ حاصل ہے ، جہاں ہر سال بڑی تعداد میں زائرین مذہبی رسوم ادا کرنے اور روحانی سکون حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔
تاہم اس وادی کی غیر معمولی مذہبی اور تاریخی اہمیت کے باوجود، مذہبی سیاحت کو وہ پذیرائی حاصل نہ ہوسکی جو دنیا کے دیگر مذہبی سیاحتی مقامات کو ملی ہے۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ حکومت کی عدم توجہی اور مقامی آبادی کی عدم شمولیت اس کی اہم وجوہات ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی عالمی سیاحت کی تنظیم (UNWTO) کے مطابق، مذہبی سیاحت مقامی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے، ثقافتی تفہیم کو فروغ دیتی ہے اور مقامی معیشت کو تقویت بخشتی ہے…… لیکن وادئی سوات میں مذہبی سیاحت کو وہ فروغ نہیں ملا، جو اسے حاصل ہونا چاہیے۔
دنیا بھر میں مذہبی سیاحت کی کامیاب مثالیں موجود ہیں۔ اگر ہم انڈونیشیا کے مشہور ’’بوروبدور مندر‘‘ کا موازنہ کریں، تو وہاں سالانہ تقریباً 1.44 ملین زائرین آتے ہیں، جو ملک کی معیشت کو نمایاں زرِمبادلہ فراہم کرتے ہیں۔ ’’بوروبدور مندر‘‘ کے لیے ہر سیاح کی داخلہ فیس تقریباً 25 امریکی ڈالر ہوتی ہے، جس سے علاقے کی معیشت میں بڑا حصہ شامل ہوتا ہے۔ انڈونیشیا کی حکومت اس مندر سے حاصل ہونے والی سیاحت کی آمدنی کو بڑھانے کے لیے سرگرم ہے اور ’’بوروبدور‘‘ سے سالانہ 2 بلین امریکی ڈالر کی آمدنی حاصل کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اس کے برعکس، گندھارا اور دیگر قدیم تہذیبوں کا گھر سمجھی جانے والی وادئی سوات، اپنی بے پناہ مذہبی اور تاریخی اہمیت کے باوجود، سالانہ چند ہی غیر ملکی سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔
ضلع سوات میں قائم میوزیم کے اعداد و شمار کے مطابق، سال 2023ء میں 15,609 سیاحوں نے سوات میوزیم کا دورہ کیا، جن میں سے 1,297 غیر ملکی اور 14,312 مقامی سیاح تھے۔
گذشتہ ایک دہائی سے وادئی سوات میں کام کرنے وا لی پاکستان میں اطالوی آثارِ قدیمہ کے مشن کی ڈپٹی ڈائریکٹر الیسا نے وادئی سوات کی تاریخی و مذہبی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ ’’اگر کسی کو تاریخ کا جنون ہے، تو اُسے وادئی سوات کا دورہ کرنا چاہیے، جو اپنی فطری خوب صورتی، عصری روایات اور بھرپور ثقافتی ورثے کے لیے مشہور ہے ۔‘‘
سوات میں موجود ایک بدھ مندر، ایک ہندو قلعہ اور اوڈیگرام کے علاقے میں بنی مسجد خطے کی متنوع مذہبی تاریخ کو اجاگر کرتی ہے۔ الیسا نے ان آثارِ قدیمہ کے مقامات کو محفوظ رکھنے کے لیے صوبائی حکومت کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ وادی نہ صرف مقامی لوگوں کے لیے ثقافتی خزانہ ہے ، بلکہ آمدنی کا ذریعہ بھی ہے۔‘‘
الیسا نے سوات کے رہایشیوں اور اپنے پاکستانی ساتھیوں کے تعاون اور غیر معمولی مہمان نوازی کے لیے شکریہ بھی ادا کیا۔
خیبرپختونخوا کے ضلع سوات میں قائم میوزیم کے کیوریٹر نواز الدین نے کہا کہ زیادہ تر غیر ملکی زائرین چین، جاپان، کوریا اور دیگر ممالک سے آتے ہیں۔ ’’تاہم اس سال مارچ کے مہینے میں ملاکنڈ ڈویژن کے بشام میں چینی بم دھماکے کے واقعے جیسے سیکورٹی خدشات کی وجہ سے غیر ملکی زائرین کی تعداد میں کمی آئی ہے۔‘‘
نواز الدین نے اس بات پر زور دیا کہ بیرونی ممالک سے آنے والے سیاح بہتر سڑکوں کو کم، جب کہ پُرامن ماحول اور بنیادی سہولیات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ ’’آثارِ قدیمہ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ وادئی سوات کی بھرپور تاریخ اور متعدد آثارِ قدیمہ کے مقامات بین الاقوامی سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں، تاہم سیکورٹی خدشات نے خطے میں مذہبی سیاحت کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہوئی ہے ۔‘‘
سوات یونیورسٹی کے شعبۂ آثارِ قدیمہ کے پروفیسر زڑہ ور خان، جنھوں نے بدھ مت کے فن پر پی ایچ ڈی کیا ہے، کہتے ہیں کہ وادئی سوات کی تاریخی وراثت کو محفوظ کرنے کے لیے مقامی آبادی کو شامل کرنا ضروری ہے ۔’’وادئی سوات کی ایک طویل اور بھرپور تاریخ ہے، جس کے نمونے پتھر اور کانسی کے زمانے کے ہیں۔ یہ خطہ مختلف مذہبی پیروکاروں اور خاندانوں کے لیے ایک مرکزی نقطہ رہا ہے۔ ریاستِ سوات نے وادئی سوات کے قدیم آثاراور اس کی خوب صورتی کو برقرار رکھاہے اور مقامی لوگوں کی عدم شمولیت اور سیکورٹی کے مستحکم اقدامات کیے بغیر سوات میں مذہبی سیاحت پروان نہیں چڑھ سکتی۔‘‘
انہوں نے مقامی لوگوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ثقافتی ورثے کی حفاظت کریں اور غیر قانونی کھدائیوں سے پرہیز کریں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وادئی سوات کی ثقافتی اور مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے بہتر سڑکوں، پُرامن ماحول اور جدید سیاحتی سہولیات کا قیام ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کو اپنے ثقافتی ورثے کی حفاظت کرنی چاہیے، تاکہ غیر قانونی کھدائیوں کو روکا جا سکے اور تاریخی مقامات کو نقصان نہ پہنچے۔ اس طرح سوات کی سیاحت کو عالمی سطح پر ترقی دی جا سکتی ہے، جو علاقے کی معیشت اور عالمی سطح پر پاکستان کی سیاحتی شناخت میں اہم کردار ادا کرے گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے