وادئی کیلاش کی سب سے بڑی ’’اٹریکشن‘‘ وہاں پر کیلاشیوں کی طرف سے منائے جانے والے اُن کے تہوار اور اُن تہواروں کے مواقع پر کیے جانے والے ڈانس ہیں۔ نرم و نازک ناریاں، بدن پر رنگوں کی ہولی کھیلتے، رنگ بہ رنگ، شوخ و شنگ لباس، سر پر رنگ بہ رنگے رنگولی میں کھلتے رنگوں سے بھرا ’’سوشوت‘‘، گلے میں موتیوں، کوڈیوں اور قسم ہا قسم کے قیمتی پتھروں سے جڑے ہار، ڈھول کی تھاپ پر رقصاں، تھرکتے جسم ایک خاص لے میں حرکت کرتے آگے پیچھے کی طرف گھومتے جھومتے رقص کرتے جاتے ہیں۔ اور جنھیں ہم جیسے ٹورسٹ ’’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘ کے مصداق دیکھتے ہوئے بت بنے کھڑے رہ جاتے ہیں۔
تیرے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن
زباں میں آنکھ نہیں آنکھ میں زبان نہیں
کہتے ہیں کہ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ کیلاش کا حسن بھی اِک جادو ہے، جو ہمیشہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ کیلاش کا نام آتے ہی ذہن کے بند دریچوں میں بسی، کسی وادیِ دور دراز، کسی کوہ قاف، کسی ساتویں آسمان سے پرے جنت نظیر وادی کا تصور اُبھر آتا ہے۔ جس میں قسم ہا قسم کے لذیذ ترین میوے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک رنگوں کی ات سری مالا میں پروئے، خوش احساس اور خوش بودار پھول ہیں۔ چٹکتی مٹکتی، مشک عنبر میں ڈوبی، مشن ختن میں نہائی خوش بو دار خوش گوار کلیاں ہیں۔ قسم ہا قسم کے سوادیسٹ پھل ہیں۔ میٹھے پانی کے جھرنے اور جس کے بیچوں بیچ ناچتے گاتے شور مچاتے دریا بہہ رہے ہیں۔ چاروں اُور سبزہ اور لہلہاتے کھیت کھلیان ہیں، اور اُن میں سرخ، پیلے، نیلے، سرمائی اور دھانی رنگوں کے پہناوے پہنے ناریوں کے پاؤں میں چھنکتی چھن چھنانن چھن چھلکتی پائل کی جھنکار ہے۔ جنھیں عنبر سے اُونچے پہاڑوں سے اُترتی دیو مالائی حسن کی مالکہ حوروں نے پہن رکھا ہے، اور جس کا آہنگ ہی سحر کر دینے والا خوش کُن ہے۔
یہاں پر بھی ایسی ہی چُلبل ناریاں ہیں۔ کبھی یہ اپسرائیں بِنا ’’میک اَپ‘‘ کے ہی غضب ڈھاتی تھیں۔ اب تو جدیدیت کی لہر سے متاثر ہوکر انھوں نے بھی میک اَپ کرنا شروع کر دیا ہے۔ میک اَپ کے دوران میں جب یہ آئینے کے سامنے کھڑی ہوتی ہوں گی، تو ایک بار ان کے حسن کی تاب نہ لاتے ہوئے آئینہ بھی شرما جاتا ہوگا۔
آئینہ دیکھ کے کہتے ہیں سنورنے والے
آج بے موت مریں گے میرے مرنے والے
کیلاشی حسیناؤں کے حسن کے کیا کہنے! اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ چہروں پہ رونق بے شمار، جھیل سی گہری آنکھوں میں شراب کی سی مستی، انگ انگ سے چھلکتا خمار، سر پر لٹکتی سنہری بالوں کی ڈور جسے بڑی کاریگری اور نفاست سے بُنا گیا ہے۔ انھی کے متعلق شاید کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
کسی کلی کی کسی گلی میں کسی چمن میں نہیں
وہ رنگ ہے ہی نہیں جو تیرے بدن میں نہیں
اتنی خوب صورت ہونے کے باوجود مگر ان کیلاشیوں کے ہاں عورت ناپاک ہے۔ بکرے کا گوشت بھی مرد ہی کھاتے ہیں۔ عورتوں کو اسے کھانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس کے ساتھ ساتھ تہواروں کے موقع پر عورتوں کو وہاں پر بنائے گئے مخصوص مذہبی مقامات پر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ’’روغلید‘‘ بھی ایک ایسے ہی تہوار کا نام ہے، جو سردیاں شروع ہونے پر منایا جاتا ہے۔ اسی طرح سے یہ لوگ اور بھی بہت سے چھوٹے چھوٹے تہوار مناتے رہتے ہیں۔ جیسے: ’’دیواکا‘‘، ’’باسون مروت‘‘، ’’حمل‘‘، ’’کیلاسار‘‘، ’’گوم لیتری‘‘، ’’جانی‘‘، ’’پون سیریک‘‘ اور ’’پھول‘‘ وغیرہ۔
کیلاشہ میں موسمِ سرما کو ’’ہیمان‘‘، بہار کو ’’باسون‘‘، گرما کو ’’نیلہ‘‘ اور موسمِ خزاں کو ’’شارو‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ سارے تہوار شمسی کیلنڈر کے مطابق منائے جاتے ہیں۔ قاضی سارے حساب کتاب کا ماہر ہوتا ہے، اور وہی ان کے شروع کرنے کا اعلان کرتا ہے۔ ان میں سے کچھ تہوار کسی ایک وادی میں منائے جاتے ہیں جب کہ دوسری کسی وادی میں نہیں منائے جاتے۔ جیسے ’’پھول کا تہوار‘‘ صرف وادئی بریر میں منایا جاتا ہے۔
’’پھول‘‘ انگور کی فصل پک کر تیار ہونے اور کیلاشی شراب بنانے کا تہوار ہے، جو خزاں کی آمد کے آغاز کا اشارہ بھی ہوتا ہے۔ انگور کی فصل برداشت کرنے کے لیے قاضی کسی خاص تاریخ کا اعلان کرتا ہے۔ شہتوت، سٹرابیری، چیری، خوبانی، آڑو، سیب، ناشپاتی، اخروٹ، چلغوزہ، انجیر اور انگور کیلاش سمیت پورے چترال میں ان کی فراوانی ہوتی ہے۔ وادئی ریمبور میں ناشپاتی کی ایک خاص قسم پائی جاتی ہے، جسے گرم علاقوں کی طرف لانے کی کوشش کی جائے، تو یہ گل سڑ کر خراب ہوجاتی ہے۔ ناشپاتی کی اس قسم کا نام ’’شگوری‘‘ ہے، جو پورے چترال میں پائی جاتی ہے۔ اسے سکھا کر رکھا جاسکتا ہے۔ یہ خراب ہوتی ہے اور نہ اس کا ذائقہ ہی بدلتا ہے۔
خوبانی کی ایک خاص قسم وادئی سوات میں بھی پائی جاتی ہے۔ جس کا لوکل نام جو غالباً پشتو زبان کا لفظ ’’پڑاؤ‘‘ ہے۔ یہ بہت لذیذ ہوتی ہے۔ اس کے متعلق مینگورہ شریف سے ہمارے دوست شوکت علی (سوات) نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ بہ ذاتِ خود بھی ایک یوسف زئی پختون ہیں۔ جب کچھ ماہ قبل مینگورہ شریف میں ہم اُن کے ساتھ مل کر وائٹ پیلس، مرغزار (سابقہ ریاستِ سوات کے بادشاہ کا گرمائی دارالحکومت)دیکھنے گئے تھے ۔
اٹک میں ہمارے دوست عمر فاروق عارفی کی شادی تھی۔ عارفی صاحب ایک بہت اچھے ٹورسٹ اور لکھاری ہیں، جن کا ڈھیر سارا وقت ہمارے ہاں بورے والا میں گزرا ہے۔ مَیں، سر حنیف زاہد صاحب، ڈاکٹر شاہد اقبال صاحب، اشفاق احمد صاحب اور علی ارسلان صاحب اُن کی دعوت پر بورے والا سے اُن کی شادی کی خوشیوں میں شامل ہونے کے لیے اٹک گئے تھے۔ وہاں سے وادئی سوات یہاں بورے والا کے مقابلے میں لبِ بام پر ہی کہی جاسکتی ہے۔ اس لیے ہم نے سوچا کہ نزدیک تو آئے ہوئے ہیں۔ کیوں نہ وادئی سوات کو بھی وزٹ کر لیا جائے۔
شادی سے فراغت کے بعد ہم رات کو مینگورہ جا پہنچے۔ مینگورہ کے نواح میں شہر شروع ہونے سے ذرا پہلے سر شوکت علی صاحب کا گھر آتا ہے۔ گھر سے ملحقہ ان کا ڈیرہ سا بنا ہوا ہے، جو اُن کا مہمان خانہ بھی ہے۔ ہم جب بھی سوات جائیں اس کے دروازے ہمیشہ ہمارے لیے کھلے ہوتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ اس کی ایک چابی ہمارے پاس ہماری پہنچ میں ہوتی ہے۔
وائٹ پیلس (مرغزار، سوات) کو جاتے ہوئے، راستے میں اس خوبانی کے پودے نظر آئے، تو مَیں نے وہاں درختوں پر لگی تازہ خوبانی کھانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ 200 روپے کلو کے حساب سے ملی تھی۔ تھوڑی نرم سی اور کھانے میں اس کا ذائقہ نہایت لذیذ تھا۔ سوچیں ذرا کہ جو سوات میں 200 روپے کلو میں ہمیں ملی۔ اِدھر پنجاب پہنچ کر اس کا کیا ریٹ ہوتا ہو گا! اسی طرح وادئی ہنزہ میں ’’التت قلعہ‘‘ کے قریب پائی جانے والی شاہی باغ کی ہری رنگت والی ’’بروم جو‘‘ اور پھر دوسری ’’مرغلم‘‘ نسل کی خوبانی ہے۔ جو شہد جیسی میٹھی لذت کی حامل ہوتی ہے اور جو درخت سے ٹوٹنے کے تقریباً آدھ گھنٹا بعد گل سڑ کر خراب ہوجاتی ہے۔ اب تو اس شاہی باغ کا رکھوالا بابا نایاب شاہ کچھ عرصہ قبل وفات پاگیا ہے۔ ہم جب بھی ہنزہ جاتے، ’’التت گاؤں‘‘ میں اسے ملنے کے لیے ضرور جاتے تھے۔ بہت پیار کرنے والا شخص تھا۔ ہمارے ساتھ بہت عزت و احترام سے پیش آتا اور ہمیں اپنے خوبانی کے باغ سے تازہ تازہ خوبانی بھی تڑوا کر اور پھر اسے دُھلوا کر کھلاتا تھا۔
آج سے تقریباً 25، 30 سال قبل کیلاشی عورتیں میک اَپ نہیں کیا کرتی تھیں۔ اُن کی سادگی میں بھی کمال حسن ہوا کرتا تھا۔ اُن کے حسن و جمال، اُن کی گوری گوری صاف و شفاف رنگت، سادگی و نازکی سے گندھے رس بھرے، لُس لُس کرتے انگ، دل کش و دل نشیں چندن بدن کے متعلق بہت سے قصے اور بہت سی کہانیاں مشہور تھیں۔ کہا جاتا تھا کہ جب وہ پانی پیتی ہیں، تو پانی اُن کی رگوں میں دوڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ گرچہ یہ ایک شاعرانہ تخیل ہے، جسے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ یہ اُن کے حسنِ جاں فزا کی تندی اور کاٹ کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
بعض اوقات شاعر بھی تو حد کر دیتے ہیں۔ مَیں نے ایک بار زمانۂ قدیم میں گزرنے والے شاعر، جرات کا ایک شعر پڑھا تھا، جس میں وہ اپنی محبوبہ کی کمر کی نازکی،تیکھے پن اور پتلی پتنگ ترین ہونے کا ذکر کرتا ہے:
سنا ہے کہ اُن کی کمر ہی نہیں ہے
خدا جانے نالہ کہاں باندھتے ہیں
یعنی یہ تو اُس شاعر نے حد ہی کر دی۔ اُس نے اپنے معشوقہ کی کمر کو تقریباً نہ ہونے کے برابر قرار دے دیا۔
دوسرے اکثر لوگوں کی طرح پہلی بار ہم بھی ایسے قصے کہانیاں اور ایسی پتلی پتنگ شوخ و شنگ خوب صورتی کا سن کر وہاں گئے تھے۔ اُس وقت وہاں بغیر گائیڈ کے گھومنے پھرنے پر سخت پابندی تھی۔ کیوں کہ افغان بارڈر نزدیک ہونے کی وجہ سے یہ سارا علاقہ بڑا حساس ہے، مگر پہلے کے مقابلے میں فرق اب یہ پڑا ہے کہ اب گائیڈ لینے کی اتنی پابندی نہیں رہی ہے۔ وادی میں ہر جگہ پر ہماری طرح زیادہ تر ٹورسٹ بغیر گائیڈ کے اپنی مرضی سے گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
یہ 2001ء کی بات ہے، جب ہم چترال بہت لیٹ پہنچے تھے۔ چترال پہنچتے پہنچتے رات کے 12 بج گئے۔ ہم اُن دنوں شام کو بورے والا سے چل کر بڑی مشکلوں سے اگلی شام تک تیمرگرہ تک پہنچتے تھے۔ تیمرگرہ میں ایک رات قیام کے بعد اگلے دن چترال اور پھر چترال سے ایون تک اور پھر کہیں جا کر ایون سے کسی جیپ وغیرہ پر بیٹھ کر وادئی کیلاش تک پہنچ پاتے تھے۔ یوں دو دن ہمیں فقط بمبوریت تک پہنچنے میں ہی لگ جایا کرتے تھے۔ کیوں کہ اُن دنوں لواری ٹاپ والا رستہ بہت وقت لیتا تھا۔ ویگن ڈرائیور جگہ جگہ رُک کر گاڑی کا انجن ٹھنڈا کرتے۔ کبھی سامنے سے کوئی ٹرک آجاتا۔ اُن دنوں سڑک قدرے تنگ ہوا کرتی تھی۔ ویگن کے گزرنے کے لیے رستہ تنگ پڑ جاتا، تو ویگن کو آگے پیچھے کر کے کہیں نسبتاً کھلی جگہ تلاش کرتے اور پھر جا کر ٹرک کے گزر جانے کے لیے رستہ بناتے تھے۔ خیر، اس کے بعد کچھ آسانی یہ ہوئی کہ دیر سے پجارو ٹائپ بڑی بڑی گاڑیاں رینٹ پر مل جایا کرتی تھیں، جو لواری پاس بھی آسانی سے پار کر جاتیں اور بہ جائے ہم سیدھے چترال جائیں اور پھر 20، 22 کلومیٹر واپس ایون آکر کیلاش جائیں۔ یہ لواری پاس کراس کرکے دروش سے ہوتی ہوئی سیدھی ہمیں آیون سے ہو کر کیلاش لے جاتی تھیں۔
سنہ 2001ء میں میرے ساتھ کچھ نئے ساتھی تھے۔ ہم اگلے دن عصر کے وقت تیمر گرہ پہنچے۔ مَیں نے اُنھیں کَہ بھیجا کہ بازار جاکر کہیں پر کوئی اچھا سا ہوٹل تلاش کریں۔ جو نسبتاً ہوادار بھی ہو، اور جس میں ہم ذرا اچھے طریقے سے رات بھی بسر کرسکیں۔ وہ تھوڑی دیر بعد واپس آئے، تو آتے ہوئے چترال کے لیے ویگن کا ٹکٹ لے آئے۔ کہنے لگے کہ ویگن والا کہتا ہے کہ وہ اُنھیں دو اڑھائی گھنٹے میں چترال پہنچا دے گا۔ اس لیے ہم نے سوچا کہ جہاں تیمرگرہ تک ہم نے اتنا لمبا سفر کرلیا ہے۔ دو اڑھائی گھنٹے کا سفر اور سہی۔ ہم نے سوچا کہ ابھی رات ہونے میں دو تین گھنٹے باقی ہیں۔ اتنی دیر تک ہم چترال جاپہنچیں گے اور رات کا قیام وہیں کریں گے ۔ مَیں اُن سے خفا بھی ہوا کہ جب مَیں نے آپ کو سمجھا کر بھیجا تھا کہ آپ ہوٹل میں کمرہ تلاش کریں، تو آپ چترال والی ویگن کا ٹکٹ کیوں لے آئے ہو؟ خیر، اَب کیا ہو سکتا تھا۔ بدن تھکاوٹ سے پہلے ہی چور تھا۔ مَیں نے اپنے بیگ میں سے ایک عدد پین کلر نکال کر کھائی اور اُن کے ساتھ جاکر وین میں جا بیٹھا۔
چترال تک پہنچتے پہنچتے ہمیں رات کے بارہ بج چکے تھے۔ ویگن والے نے ہمیں تاج ہوٹل پر اُتارا۔ ڈرائیور کی مہربانی کہ اُس نے ہمیں ہوٹل والے کو جگا کر کمرے لے دیے تھے۔ جون کا مہینا اور متھے تے پسینا تھا۔ گرمی بہت تھی چترال میں۔ ہاں مگر کمرے میں سیلنگ فین لگا ہوا تھا۔ ہوٹل تھوڑا ماٹھا تھا، مگر رات کے اس پہر ہمارے پاس کوئی اور چوائس بھی تو نہیں تھا۔ ہم نے صبر شکر کر کے وہیں پر رات بسر کی اور پھر چترال شہر پھر پھرا کے اگلے دن دوپہر کے بعد ہم بمبوریت پہنچے تھے۔ فرنٹیئر ہوٹل شروع ہی سے ہمارا ٹھکانا رہا ہے۔ کمرے میں سامان رکھ کر ہم بازار کی طرف گھومنے نکل کھڑے ہوئے۔ ہمارے دو ساتھی مجھ سے تھوڑے فاصلے پر چل رہے تھے۔ مجھے کچھ خبر نہ تھی۔ اُنھیں رستے میں ایک مقامی شخص ملا۔ وہ اُس کے پاس رک کر اُس کے ساتھ کچھ گٹ مٹ کرنے لگے۔ اُس نے اُنھیں یقین دلایا کہ وہ اُنھیں دریا پار لے جاکر کیلاشیوں کے گھر لے جائے گا اور وہ کیلاشنیوں سے بہ راہِ راست گپ شپ لگا سکیں گے، مگر اس بات کو اُنھوں نے میرے سامنے صیغۂ راز میں رکھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔