کہاوت ہے کہ دنیا میں ’’فری لنچ‘‘ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ یہ کہاوت دنیا والوں کے لیے سمجھ میں آتی ہے، لیکن قریبی رشتوں کو ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ وہ لوگ جو آپ کے قریبی ہیں، اگر وہ آپ کو گفٹ دے کر یا مالی طور پر سہارا دے کر نفسیاتی طور پر ٹارچر کرنے کا اختیار خریدلیں، تو پھر اُنھیں آپ ’’سخی نرگسیت پسند‘‘ کہتے ہیں۔
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
ایک دوست اپنی بہن کے سسرال کی روداد سناتے ہوئے کہتی ہیں کہ اُن کی بہن کی ساس مالی طور پر آزاد اور اچھے عہدے پر فائز خاتون ہیں۔ محترمہ کوسب کو گفٹ دینا اور ان کا خیال رکھنا پسند ہے، لیکن ان کی بہن خوش نہیں اور کہتی ہیں کہ ساس صاحبہ بہت کنٹرول کرتی ہیں اور ’’ٹاکسک‘‘ (Toxic) ہیں…… لیکن چوں کہ گفٹ اور پیسوں میں بہت طاقت ہوتی ہے اور ہمارے ’’سخی نرگسیت پسند‘‘ اس بات سے بخوبی واقف ہیں، تبھی بہن کی باتوں پر اور اُس پر ہونے والے نفسیاتی ظلم پر کوئی یقین نہیں کرتا۔ نفسیاتی درد کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ دِکھتا نہیں، تو اُس پر یقین کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ نرگسیت پسند جس لطافت سے آپ کو ’’ابیوز‘‘ کرتے ہیں، ان گتھیوں کو سلجھانے میں ہی ’’تھراپسٹ‘‘ کے چکر کاٹتے آپ کی آدھی زندگی ختم ہوجاتی ہے۔ نرگسیت پسند اور خاص کر سخی اپنا بہترین امیج بنانے میں بہت ماہر افراد ہوتے ہیں۔
چوں کہ آج کل حالات ایسے ہیں کہ لوگوں کے زیادہ تر مسائل پیسوں سے جڑے ہیں۔ ایسے میں اگر والد/ والدہ، بھائی/ بہن، چاچو/ ماموں جو بھی آپ کو مالی طور پر سپورٹ کررہے ہیں تعلیم کے لیے…… اور اگر وہ نرگسیت پسند ہیں، تو پھر یاد رکھیے کہ گفٹ اور مالی امداد کے ساتھ ملنے والا روز کا نفسیاتی ٹارچر آپ کے ساتھ ہورہے ’’ابیوز‘‘ کی بھرائی نہیں کر پائے گا۔ اگر خود ذمے داری لے سکتے ہیں، تو ایسے افراد سے گفٹ یا مالی مدد لینے سے گریز کریں اور تکالیف برداشت کرکے ذمے داری خود اُٹھائیں۔ کیوں کہ یہ لوگ آپ کو گفٹ اور مالی مدد کے ذریعے خرید لیتے ہیں۔ اور اس بات کی ضمانت مَیں آپ کو دیتی ہوں کہ مشکلات سے ملنے والی تکالیف کو آپ پھر بھی سر کرلیں گے۔ اُنھیں سر کرنے کے بعد آپ کی دماغی نشو و نَما بھی ہوگی، لیکن جو ’’ابیوز‘‘ آپ کو ان ’’سخی نرگسیت پسند‘‘ کے ہاتھوں سہنا پڑے گا، وہ زیادہ اذیت ناک ہے۔
جو نرگسیت پسند والدین اپنے بچوں کوتعلیم یا ضروریاتِ زندگی یا پھر ’’لگژری‘‘ دیتے ہیں، ایسے بچوں کو عموماً ارد گرد والے یا دوست کہتے ہیں کہ ‘’یار! تمھارے تو مزے ہیں!‘‘ البتہ والدین پَل پَل بچے کو محسوس کرواتے ہیں کہ اسے ان کا احسان مند رہنا چاہیے۔ کیوں کہ اُن کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں۔ اکثر ایسے والدین جان بوجھ کر اپنے بچوں کو کنٹرول کرنے اور خود پر منحصر رکھنے کے لیے ہر چیز تیار شدہ دیتے ہیں، تاکہ بچہ ایسے گُر نہ سیکھے، مستقبل میں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل نہ ہوسکے اور والدین کے کنٹرول میں رہے (خاص کر نرگسیت پسند والدہ ایسا کرتی ہے۔) ایسے بچوں میں احساسِ شرمندگی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اُنھیں اپنا آپ بوجھ لگتا ہے۔ اُنھیں سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیسے سب کو سمجھائیں کہ ابا/ اماں کے مالی سپورٹ اور ان لگژری چیزوں کے بوجھ تلے وہ گھٹ رہے ہیں۔
یقینا بچوں کو اگر والدین کبھی کبھار ضرورت پڑنے پر اپنی جد و جہد کے متعلق بتاتے ہیں، تو اس میں کچھ غلط نہیں۔ کیوں کہ اس سے بچوں کو سیکھنے کو ملتا ہے۔ اُنھیں رول ماڈل ملتا ہے۔ البتہ نرگسیت پسند والدین اس نیت سے یہ سب نہیں کرتے، اور بچہ روز اس لطیف اور اُلجھن کا شکار کردینے والے ابیوز کو سہنے کے بعد الجھن، شرمندگی اور خود کو دوسروں پر بوجھ سمجھنے والے احساسات سے جھونجھتا رہتا ہے۔ بچہ جب بڑا ہوتا ہے، تو اُسے سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیوں جمود کا شکار ہے، یا پھر عام اور معمولی سے کام کیوں اس سے نہیں ہوتے۔ یہ رویے اور احساسات نرگسیت پسند والدین کی دین ہوتے ہیں (اگر والدین نرگسیت پسند ہیں تو، البتہ کچھ لوگوں کی شخصیت میں بھی محنت اور ذمے داری لینے کا عنصر شامل نہیں ہوتا۔)
اگر آپ ’’سخی نرگسیت پسند‘‘ کے ساتھ رہنے اور اس کا ابیوز سہنے پر مجبور ہیں، تو دماغی اور نفسیاتی طور پر خود کو سمجھائیں اور اُن کی ڈھکی چھپی تذلیل سے بھرپور رویے کو اپنی ذات پر نہ لیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ نرگسیت پسندوں کو لوگوں کے جذبات کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ وہ کبھی نہیں بدلتے۔ اُن کے ہر گفٹ، ہر مالی امداد اور ہر وقتی سپورٹ کے پسِ پشت پوشیدہ مقاصد ہوتے ہیں، یا پھر دکھاوا، سخی اور عظیم انسان دِکھنے کی شبیہ بنانا اور پھر آپ کو ٹارچر کرنے کا حق خرید لینا۔ البتہ دماغ میں جتنی بھی دیواریں لگالیں نرگسیت پسند کے ابیوز سے متاثر نہ ہوپانا ممکن نہیں۔ اس لیے اپنی شفایابی پر کام کرنا بہت ضروری ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔