ترجمہ: رضوان الدین فاروقی 
ضیا فاروقی کا شمار اُردو اَدب کے اُن قلم کاروں میں ہوتا ہے، جن کی پشت پر تقریباً نصف صدی کے تجربات کے نقوش کو آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں تک اُن کے ادبی سروکار کا معاملہ ہے، تو یہ اُردو زبان و ادب کے اُن شہ سواروں میں ہیں جنھوں نے چاروں دھام کی یاترا کی ہے۔ یہاں میری مراد اُن کی شاعری اور افسانوں سے بھی ہے اور تحقیقی اور تنقیدی شعور سے بھی۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے اپنے ابتدائی ادبی سفر سے ہی اُن کی سرپرستی اور رہنمائی حاصل رہی ہے۔ اُنھوں نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی ہے۔ اب جب میری پہلی کتاب منظرِ عام پر آئی ہے تو سب سے پہلا تبصرہ انھیں کا آیا ہے جو میرے لیے باعثِ افتخار ہے۔ آپ سبھی باذوق احباب کے ساتھ وہ تبصرہ شیئر کررہا ہوں:
’’فکشن نگار کا سفر‘‘ کہنے کو تو ایک طویل انٹرویو ہے جو ہندی کی ہمہ جہت شخصیت ڈاکٹر ادین واجپئی اور اُردو کے گراں قدر ادیب شمس الرحمان کے درمیاں ایک بے تکلف مکالمہ ہے، مگر یہ ایک ایسا بیانیہ بھی ہے جس میں شمس الرحمان فاروقی کی زندگی سے وابستہ کتنی ہی کھٹی میٹھی یادیں اور باتیں ہم تک پہنچتی ہیں۔ اِس میں فاروقی صاحب کی عائلی زندگی کی جھلکیاں بھی ہیں اور ادبی اقدار حاصل کرنے کے لیے کی گئی اُن کی جد و جہد کا منظر نامہ بھی ۔
زندگی کا ابتدائی زمانہ، 11 بھائی بہنوں کے درمیان خود ان کی اہمیت، والد کے خواب اور مجبوریاں، اُن کا گھریلو مذہبی ماحول، خود اُن کی مذہبی فکر، اُن کے تعلیمی مشاغل، اساتذہ کا تعصب…… خصوصاً اپنے بنگالی پروفیسر دیب جو عالمی ادب کی گویا انسائیکلوپیڈیا تھے، اُن کی تنگ نظری کا احوال وغیرہ سب پر مکالمہ نگار نے روشنی ڈالی ہے۔
فاروقی صاحب نے 20 سال کی عمر میں نہ صرف ایم اے کرلیا تھا بلکہ دنیا کی کئی بڑی زبانوں کے ادب کو کہیں براہِ راست اور کہیں تراجم کے ذریعے پڑھ چکے تھے اور اُن سب کو اپنی فکر کے نہاں خانوں میں محفوظ بھی کرچکے تھے۔
اس دلچسپ انٹرویو میں فاروقی صاحب نے انگریزی اور فرانسیسی کے علاوہ اُردو کے معاصر ادب ،ادبی شخصیات اور ادب میں بُت شکنی کی روایت پر بھی کھل کر گفت گو کی ہے۔ اُنھوں نے ترقی پسند تحریک، جدیدیت کا رجحان، شب خون، مابعد جدیدیت، گوپی چند نارنگ جیسے بہت سے سوالات پر اپنے موقف کا واضع طور پر اظہار کیا ہے۔
فاروقی صاحب نے اپنے ناولوں اور افسانوں کے لیے پلاٹ سازی اور اُن کے حقیقی اور فرضی کرداروں کی فراہمی کے متعلق بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ مثلاً: غالبؔ افسانہ میں بینی مادھو رسوا کا کردار کہاں سے تخلیق کیا اور کس طرح اس کا تانا بانا بُنا، یا ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ میں وزیر خانم کے پس منظر میں کن کن شہروں کی اس زمانے کی تہذیبی خصوصیات کو نظر میں رکھا اور پھر ایک نسب نامہ تیار کیا وغیرہ۔ اُن سب پر فاروقی صاحب نے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ غرض کہ 136 صفحات کی اس کتاب میں تقریباً وہ سب کچھ ہے جس کے سہارے ہم اپنے عہد کے اِس عظیم نظریہ ساز ادیب و ناقد کی ایک مکمل، ذہنی، علمی اور ادبی تصویر بنا سکتے ہیں۔
فاروقی صاحب کے انتقال سے تقریباً دو سال قبل ادین واجپئی کے ذریعہ لیا گیا یہ انٹرویو خود واجپئی جی کے ہندی رسالے ’’سماس‘‘ کی زینت بھی بن چکا ہے اور کتابی شکل میں بھی ’’اپنیاس کار کا سفر نامہ‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے، مگر مَیں سمجھتا ہوں کہ بہت کم اُردو والوں تک اس کی رسائی ہوسکی ہوگی۔ اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے راقم نے اُس کو اُردو کے جامے میں پیش کر دیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ راقم تازہ دم ہیں، حوصلہ مند ہیں، اور اس کا حوصلہ یہ ہے کہ اس نے تنقیدی اصطلاحات کو بخوبی اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔ اس سے فاروقی صاحب کے اندازِ گفت گو کا رنگ پوری طرح نمایاں ہوجاتا ہے، ورنہ ہندی ادیب نے ظاہر ہے کہ وہ لفظ یا وہی اصطلاحات اپنی کتاب میں لکھی ہوں گی جو ہندی زبان میں عام طور پر رائج ہیں۔
اس سلسلے میں راقم کا کہنا ہے کہ اس نے فاروقی صاحب کے اُن تمام انٹرویوز کا بغور مطالعہ کیا جو رحیل صدیقی کی کتاب ’’شمس الرحمن فاروقی محوِ گفتگو‘‘ میں شائع ہو چکے ہیں۔ اس مطالعہ سے یقینا راقم کو کافی فائدہ پہنچا ہے اور وہ یہ کَہ سکتا ہے کہ اُن تمام انٹرویوز میں ادین باجپئی کے یہاں انفرادیت ہے۔
متذکرہ کتاب میں پہلا مضمون عہدِ حاضر کے قد آور ادیب اور ناول نگار پروفیسر خالد جاوید نے لکھا ہے۔ اپنے مضمون میں انھوں نے جہاں کتاب کے مشمولات پر سیر حاصل گفت گو کی ہے، وہیں ادین واجپئی کے تفصیلی تعارف سے بھی روشناس کرایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’اُدین واجپئی کی شخصیت بہت اعلا پائے کے علمی، ثقافتی، تہذیبی اور تخلیقی عناصر کے ذریعے تشکیل ہوئی ہے۔ تھیٹر، فلم، ڈراما شاعری، مصوری، موسیقی، ناول اور افسانہ گویا آرٹ یا فنون لطیفہ کی ہر شق اُدین واجپئی کی دبیز اور گھنی شخصیت میں رچی بسی ہے بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ میڈیکل سائنس کے پروفیسر ہونے کے باوصف اُنھوں نے میڈیکل سائنس میں آرٹ یا کلا کے تمام امکانات کو دریافت کر لیا ہے۔‘‘
مَیں سمجھتا ہوں کہ اس طویل انٹرویو میں کئی ایسے مقامات آتے ہیں جن کے حوالے سے ادب گاہ میں بات آگے بڑھائی جاسکتی ہے۔
بہرحال یہ انٹر ویو ’’فاروقی شناسی‘‘ کے باب میں اہمیت تو رکھتا ہی ہے، اُن نوجوان طالب علموں کے لیے بھی انتہائی سود مند ہے، جو زندگی کے بازار میں اقدار اور علم کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔
(نوٹ:۔ یہ مضمون ہندی زبان سے ترجمہ کیا گیا ہے، بہ شکریہ فیس بُک صفحہ ’’عالمی ادب کے اُردو تراجم‘‘، مدیر)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔