حقیقی آزادی اور طاقت

رات کے آخری پہر جب کمپیوٹر پر کام کرتے کرتے تھک جاتا ہوں، تو کچھ دیر کے لیے آرام کرتا ہوں۔ یہ آرام بھی ہمارے اپنے محاورے میں ’’حرام‘‘ ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ ذہن مختلف سانچوں میں سوچنے لگ جاتا ہے۔ آج کی صبح کچھ خیال آیا، تاہم اس کا عنوان نہیں سوچ سکا اور یہ عنوان (حقیقی آزادی اور طاقت) دے ڈالا۔ دونوں الفاظ ’’حقیقی آزادی‘‘ اور ’’طاقت‘‘ اتنے گھسے پٹے ہیں کہ ان کا غلط مفہوم لیے جانے کا خوف ہے۔ ان دو تصورات اور عوامل کو مجرد الفاظ میں بیان کرنے سے شاید بات نہ بن جائے۔ لہٰذا مقامی سماج اور تجربات سے مثالیں دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
پہلے منظر میں آپ کے گاؤں میں ایک پنچایت یا جرگہ بیٹھا ہے۔ گاؤں کے بااثر لوگ وہاں جمع ہیں۔ کسی مسئلے پر بات ہورہی ہے۔ آپ بھی اس مجلس میں پچھلے قطاروں میں بیٹھے شریک ہیں۔ ایک بندہ کھڑا ہوتا ہے اور کچھ بات کرنا شروع کردیتا ہے۔ پھر دوسرا کوئی بندہ بات کرنا شروع کردیتا ہے۔ وہ اپنی باتوں میں گاؤں کے کسی ’’مکھیا‘‘ کی طرف داد تو کیا ہاں یا آنکھ کے اشارے کے لیے دیکھتا رہتا ہے۔ گاؤں کا جو مسئلہ ہے، اُس کا ایک حل آپ کے پاس بھی ہے۔ آپ بات کرنا چاہتے ہیں، لیکن آپ کو یہ خوف ستانے لگ جاتا ہے کہ آپ عمر میں چھوٹے ہیں، گاؤں میں کسی بڑے زمین دار یا مکھیا کے بیٹے نہیں۔ خیر، آپ جرات کرتے ہیں اور بات شروع کردیتے ہیں۔ آپ کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی کہ کوئی مداخلت کردیتا ہے کہ اس لونڈے کی بات بھی اچھی ہے، تاہم ایک دوسرے کو آنکھ مار کر آپ کو لونڈا کَہ آپکی بات کا ایک طرح سے مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ آپ بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے میں عمر میں بڑا کوئی اور شخص اُٹھتا ہے مگر اُس کی بات کو بھی مسترد کردیا جاتا ہے۔ آخری بات مکھیا صاحب کی رہ جاتی ہے۔ حالاں کہ اُس کی ذہانت کا اندازہ آپ کو ہوجاتا ہے، تاہم سارے لوگ ’’واہ واہ‘‘ کرتے ہیں۔ ایسے میں دعا ہوجاتی ہے اور جرگہ برخاست کیا جاتا ہے۔
دوسرے منظر میں آپ کے ضلعے کا ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) یا ایم پی اے آیا ہوا ہے۔ وہ ایک کرسی پر براجمان ہے اور لوگوں کو خطاب فرما رہا ہے۔ آپ بھی وہاں موجود ہیں، تاہم ڈی سی یا ایم پی اے کے سامنے کچھ بول نہیں سکتے۔ اگر ایسا کوئی آفیسر وردی میں ہو، تو پھر تو کوئی بات کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
تیسرے منظر میں آپ ایک محفل میں موجود ہیں اور وہاں مولوی صاحب درس فرما رہے ہیں۔ آپ کے ذہن میں کئی سولات اُٹھتے ہیں، تاہم آپ کچھ بھی نہیں کَہ سکتے۔ آپ خاموشی سے سنتے ہیں اور مولوی صاحب مسلسل خطاب فرما رہے ہوتے ہیں۔ آپ کے ساتھ بیٹھے دوسرے لوگ بھی سر دُھنتے ہیں۔
تیسرے منظر میں آپ ایک سیمینار یا کلاس روم میں ہیں۔ وہاں ایک شخص سامنے کھڑے ہوکر آپ کو اُردو یا انگریزی یا پھر اُن دونوں کو ملا کر کچھ بولتا ہے۔ یہ شخص چوں کہ آپ کے نزدیک تعلیم یافتہ ہے اور اُس نے ڈگریاں لی ہیں، لہٰذا آپ اُس کی ہر بات سنتے ہیں اور کوئی سوال نہیں اُٹھاتے۔
چوتھے منظر میں آپ کا سیاسی لیڈر آیا ہوا ہے۔ آپ بھی اُسی محفل میں موجود ہیں، جس کو یہ حضرت خطاب فرما رہے ہیں۔ وہ نہ صرف تاریخ کو مسخ کر رہے ہیں بلکہ اُس کی باتیں تضادات سے بھری ہیں۔ پر آپ کو ہمت نہیں ہو رہی، یا پھر آپ ایک سحر میں مبتلا ہیں…… اور ہر بات پر وجد میں آئے ہوئے مرید کی طرح ’’بے شک، بے شک‘‘ کرتے رہتے ہیں۔ ایسے میں کوئی نعرہ لگتا ہے اور آپ اُچھلتے کودتے ہیں۔
پہلے منظر میں گاؤں کا مکھیا اپنی طاقت کو گاؤں کی اقدار، روایات اور زمین داری کے پس منظر میں سے لیتا ہے۔ اُس کی طاقت اُس کی پیداوری صلاحیت، دوسرے الفاظ میں، زمین کی ملکیت اور جنگلات میں حصہ ہے۔
دوسرے منظر میں ریاست کے نمایندے کی حیثیت سے ایک بندہ آپ کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اُس کے پاس کوئی عہدہ ہے اور ریاست کا قانون اُس کے ساتھ ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ ریاست کے قانون کو بس وہی سمجھ سکتا ہے اور وہی باوقار ہے۔ لہٰذا آپ چپ سادھے اُس کی باتوں کو سنتے ہیں۔ یہ بندہ اپنے عہدے اور سرکار سے اپنی طاقت لیتا ہے اور اُس کو آپ پر جھاڑتا ہے۔
تیسرے منظر میں طاقت کو تقدیس کے لبادھے اور الفاظ میں بند کرکے تحفے کی طرح آپ کو پیش کیا جاتا ہے اور آپ اُس کے سامنے لاشعوری طور پر بے بس ہوجاتے ہیں۔
چوتھے منظر میں یہ شخص آپ کی کسی حسرت کو ہٹ کرتا ہے اور پھر اُسی نس کو بجانا شروع کردیتا ہے۔ وہ جھوٹ بولتا ہے، تاہم آپ کی حسرت اُس کی طاقت بن جاتی ہے۔ ایسے میں آپ کوئی سوال اُٹھا سکتے ہیں اور نہ اُس کی باتوں کا جواب ہی دے سکتے ہیں۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ طاقت کی اس عمل داری میں پیداوار، عہدہ، مروجہ رسمی خواندگی، تقدیس اور حسرت بنیادی کام کر جاتے ہیں۔ ان بنیادی عوامل کو ایک خاص ابلاغ کے ذریعے آگے بڑھایا جاتا ہے۔ اس کے لیے ایک خاص زبان کا ہونا لازمی ہوتا ہے، جو کوئی بھی زبان ہوسکتی ہے اور یہ زبان کون بولتا ہے…… زیادہ اہمیت وہی پہ ہوتی ہے۔
طاقت کے یہ سارے ذرائع آپ کو حقیقی غلام بناتے ہیں جب کہ نعرے حقیقی آزادی کے لگتے ہیں۔
اب حل کیا ہے……؟ اس کا کوئی حل نہیں۔ کیوں کہ اُس طاقت کو توڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ مکھیا، آفیسر، تعلیم یافتہ، مولوی اور سیاسی لیڈر سب آپس میں جال کی طرح جُڑے ہوتے ہیں۔ یہ اس جال کو مضبوط کرتے رہتے ہیں اور آپ کو لگتا ہے کہ اُن میں سے کوئی اُس جال کو توڑ رہا ہے۔
بس سوالات اُٹھائے جانے چاہئیں۔ جو سوالات اُٹھاتے ہیں، اُن کو آپس میں مربوط ہونا چاہیے اور اِسی کو سماجی، فکری اور عملی تحریک کہا جاتا ہے۔ خوف کو ایک شخص کے لیے توڑنا مشکل ہوجاتا ہے، تاہم کئی اشخاص مل کر اس کو توڑ سکتے ہیں۔ ساتھ اُن ذرائع کو سمجھنا اور اُن کا تجزیہ کرنا لازمی ہوتا ہے، جن سے یہ طبقے طاقت وصول کرتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے