تکلیف سے نمٹنے کے طریقے

تکلیف سے نمٹنے کے میرے طریقے بظاہر بہت سادہ لیکن درحقیقت بہت پیچیدہ ہیں…… اور ضروری نہیں کہ جو میرے لیے بہتر ہے، وہ آپ کے لیے بھی کارآمد ہوں…… لیکن چوں کہ مجھے درخواست کی گئی ہے۔ اس لیے لکھنا پڑ رہا ہے۔ آپ اسے تحریر ’’دوسرا تیر‘‘ کا تسلسل سمجھ لیجیے۔
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
٭ خود آگاہی (Know Thyself):۔ یہ آسمان سے ٹپک کر جھولی میں نہیں گرتی۔ خود کو جاننے کے لیے مختلف چیزوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے، اور یہ لوگوں سے بھاگ کر نہیں، بلکہ ان کے ساتھ رہ کر آتی ہے۔ آپ خود کو دوسروں کے ذریعے جانتے ہیں۔ کیوں کہ آپ ایک سماجی مخلوق ہیں۔
٭ موجودہ حقیقت کو قبول کرنا (Acceptance):۔ یہ ہنر سیکھ لیں، یاد رکھیے آپ کی اَنا سیکھنے نہیں دے گی۔ بار بار کہے گی کہ ہم غلط نہیں۔ کسی کے آگے جھکنا نہیں، بلکہ سیسہ پلائی دیوار بن جاؤ۔ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ یہ ہمارے ساتھ نہیں ہونا چاہیے تھا وغیرہ وغیرہ…… سائیکو تھراپی پڑھانے والی میری استاد کا ایک جملہ مجھے بہت پسند ہے اور اس کا ٹیٹو اپنے دماغ پر بنوانے کا کام جاری ہے، وہ اکثر پڑھاتے وقت حقیقت سے اختلاف برتنے پر ہمیشہ کہتی "It is what it is!” یعنی ’’یہی ہے جو ہے۔‘‘
٭ درد/ خوف کا سامنا کرنا:۔ درد کے ساتھ بیٹھنا سیکھیں، درد کو محسوس کرنا سیکھیں، محسوس کریں کہ جسم کے کس حصے میں احساسات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ’’چکرا‘‘ (Chakra) کے متعلق نہیں پڑھا (آنے والی تحریر میں چکرا پر تفصیلاً لکھوں گی) تو پڑھیں، ’’سات چکرا‘‘ (Seven Chakras – Seven Energy Points)ہوتے ہیں۔ درد اور پریشانی میں جس جگہ زیادہ احساسات یا تکلیف محسوس ہو، تو سمجھ جائیں کہ وہ چکرا بہت برے سے متاثر ہوا ہے بچپن میں۔ اس چکرا کے متعلق معلومات اکھٹی کرکے اس کو ٹھیک (Heal) کریں۔ اس میں وقت لگتا ہے، لیکن آپ بہتر ہونے لگتے ہیں۔ آہستہ آہستہ اس چکرا پوائنٹ میں احساسات کی شدت میں کمی آنے لگتی ہے۔
٭ تھراپی لیں:۔ اگر مالی طور پر برداشت کرسکتے ہیں، تو تھراپی لیں۔ کسی ماہر تھراپسٹ سے جڑ سکتے ہیں، تو جڑ جائیں اور اس سے بات کریں۔ اپنے ماضی، تکلیف اور ٹروما کے متعلق بار بار بات کرنا آپ کے ٹروما اور جذبات کے اثر کو کم کرتا ہے اور تھراپسٹ اس کام میں ماہر ہوتا ہے۔ اگر کوئی ایسا قابلِ بھروسا اور صبر کرنے والا دوست یا شریکِ حیات ہے، تو اس کی مدد لے لیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ اپنے دکھ اور درد کی بات کرنا ہمارے درد کو کم کرتا ہے (لیکن اگر دوست اور شریکِ حیات جذباتی طور پر نا پختہ ہو، تو مسائل جنم لے سکتے ہیں۔)
٭ احساست کو لکھیں:۔ احساسات کو لکھنا، ان کو نام دینا آپ کو تکلیف، دکھ اور ٹروما کو ’’پراسس‘‘ (Process) کرنے میں مدد دیتا ہے، لیکن ایمان داری سے لکھنا۔
٭ کمیونٹی کا حصہ بننا:۔ کسی ایسی کمیونٹی کا حصہ بننا اور اس میں اپنے جذبات، تکلیف یا درد کا اظہار کرنا آپ کو دوسروں سے جذباتی طور پر جوڑتا ہے اور جب سب ایک گروپ میں اپنے جذبات شیئر کرتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ صرف ہم نہیں بلکہ ہر انسان اپنی زندگی میں مختلف تکالیف سے گزرا ہے یا گزر رہا ہے۔
* ٭ عمل کرنا:۔جس چیز سے دور بھاگتے ہیں، جس کا خوف ہے، اسے کرنے کی ہمت اکھٹی کرنا چھوٹے چھوٹے قدم لے کر۔ آپ کو کبھی کبھار اپنی تکالیف کو کم کرنے کے لیے اپنے خول (Comfort Zone) سے باہر نکلنا ہوتا ہے۔ آپ کو جذبات نے جکڑا ہوتا ہے، جب آپ انھیں پراسس (Process) کرنے لگتے ہیں، تب خول سے آہستہ آہستہ باہر نکلنے لگتے ہیں۔
٭ غیر جذباتی عمل:۔ بھگود گیتا میں کرشنا کہتا ہے کہ تمھارا عمل اگر غیر جذباتی ہوگا، تو تمھیں ’’کرما‘‘ (karma) چھو کر بھی نہیں گزرے گا (یہاں آپ کرما سے مراد تکلیف لے لیں۔) کیوں کہ جذبات اور مطلوبہ نتیجے کی خواہش تکلیف دیتی ہے، اگر خواہش پوری نہ ہو، تو! یہ والی حالت حاصل کرنا یقینا آسان نہیں۔ بہت نظم و ضبط اور ’’میڈی ٹیشن‘‘ چاہیے۔ بہت زیادہ مستقل مزاجی اور مبصری (Observation) چاہیے، لیکن یہ مبصری دوسروں سے زیادہ اپنی ذات کی ہونی چاہیے۔ جی ہاں! دوسروں کی رپورٹ نہیں تیار کرنی۔ کیوں کہ دوسروں کی رپورٹ تیار کرنا آسان کام ہے۔ اپنی رپورٹ بنانی ہے اور دنیا کا سب سے مشکل کام اپنی رپورٹ بنانا ہے، کیوں کہ جیسا کہ مَیں نے پہلے ہی کَہ دیا کہ اَنا نہیں کرنے دے گی یہ سب…… اَنا صرف اپنا حکم چلاتی ہے۔ یہ سب سالوں کی پریکٹس سے آتا ہے، جب آپ اپنی انا کا مشاہدہ کرتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ یہ آپ کی دوست (کبھی کبھار دوست بھی ہوتی ہے) کم اور دشمن زیادہ ہے اور یہ ضدی، محدود سوچ اور محدود تجربوں کی حامل ہے، یا پھر یہ ٹروما سے گزری ہے یا مختلف ابیوز سہنے پڑے ہیں اسے، تب آپ اسے یہ کَہ کر چپ کرانا سیکھ لیتے ہیں کہ ’’تم چپ کرو، تمھیں نہیں معلوم!‘‘
لیکن یہ پھر بھی چپ نہیں ہوتی، یہ کبھی چپ ہوگی بھی نہیں، بار بار آپ کو پریشان کرتی ہے اپنا حکم چلانا چاہتی ہے۔ پھر ایسے میں ’’اسٹائک فلسفہ‘‘ (Stoicism) کا اصول ’’لاتعلقی‘‘ (Indifference) کام آتا ہے۔ یہ بولتی رہتی ہے کہ تم ایسے ہو، تم ویسے ہو، تم یہ کرو، تم وہ کرو، تم سے یہ نہیں ہوگا، تم سے وہ نہیں ہوگا وغیرہ وغیرہ…… لیکن آپ کاندھے اُچکا کر کہتے ہیں……کچھ کہا تم نے؟ لیکن کرتے آپ وہی ہیں جو آپ نے کرنا ہے!
محدود اور ٹروما (trauma) سے گزری انا کا توڑ وہ عمل ہے جو وہ آپ کو کرنے سے روک رہی ہے۔
قارئین! یہ صرف چند حل ہیں۔ یوں تو کئی طریقے ہیں تکلیف کو کم کرنے کے، اگر لکھنے بیٹھوں اور مزید گہرائی میں جاؤں، تو شاید کتاب تک بات چلی جائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے