دولھا

’’دولھا‘‘ (ہندی، اسمِ مذکر) کا اِملا عام طور پر ’’دولہا‘‘ رقم کیا جاتا ہے۔
’’فرہنگِ اثر‘‘، ’’نور اللغات‘‘، ’’فیروز اللغات (جدید)‘‘اور جہانگیر اُردو لغت (جدید) کے مطابق صحیح اِملا ’’دولھا‘‘ ہے جب کہ اس کے معنی ’’نوشاہ‘‘، ’’شوہر‘‘، ’’لڑکا یا مرد جس کی نئی شادی ہو‘‘، ’’ہندوستان میں شادی کے زمانے میں مرد کو سرخ جوڑا پہناتے اور بدھیاں ڈالتے ہیں‘‘ وغیرہ کے ہیں۔
’’علمی اُردو لغت (جامع) میں اِملا کی دونوں صورتیں (دولھا، دولہا) درج ہیں مگر عجیب بات یہ ہے کہ تمام محاوروں میں ’’دولہا‘‘ اور ضرب الامثال میں ’’دولھا‘‘ درج ملتا ہے۔
’’آئینۂ اُردو لغت‘‘ میں بھی اِملا کی دونوں صورتیں درج ہیں، مگر درج شدہ تمام محاوروں میں اِملا ’’دولھا‘‘ ہی ملتا ہے۔
رشید حسن خان سے رجوع کریں، تو ان کی کتاب ’’اُردو اِملا‘‘ (مطبوعہ ’’زبیر بکس‘‘، اشاعت 2015ء) کے صفحہ نمبر 94 پر اِملا ’’دولھا‘‘ درج ہے۔
اس طرح صاحبِ نور ایک شعر حوالتاً درج کیا ہے حضرتِ شادؔ کا، ملاحظہ ہو:
جب تک بدن میں جان ہے، چلتے ہیں ہاتھ پاؤں
دولھا کے دَم کے ساتھ یہ ساری رات ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے