گذشتہ دنوں دو خبریں ملکی اخبارات میں شائع ہوئیں جن میں سے ایک پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی شہر اور معاشی حب کراچی کے حوالے سے تھی۔ خبر کے مطابق محکمۂ موسمیات کے مطابق پاکستان دنیا کا آٹھواں ملک ہے جسے موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کا سب سے زیادہ سامنا ہے۔ 2060ء تک کراچی مکمل طور پر زیرِ آب آ سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق رواں سال کراچی کا درجۂ حرارت 74 سال میں سب سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔ 2030ء تک ساحلی طوفانوں اور سطحِ سمندر بلند ہونے کی وجہ سے عمارتوں کو پہنچنے والے نقصان میں دس گنا اضافہ ہو جائے گا۔
صحتِ عامہ کے حوالے سے کام کرنے والے عالمی اداروں نے خطرناک گیسوں کے اخراج کے خلاف اقدامات ناکافی قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مسلسل بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کی وجہ سے 2100ء تک ہندوکش اور ہمالیہ کے گلیشرز 36 فیصد پگھل جائیں گے۔ برطانوی ہائی کمیشن کا کہنا ہے کہ 26 پاکستانی کمپنیوں کو اپنی فضائی آلودگی 2030ء تک نصف کرنے پر آمادہ کیا ہے، جب کہ 28 پاکستانی کمپنیوں نے اپنی فضائی آلودگی زمین کا درجۂ حرارت مزید 4 ڈگری سینٹی بھی بڑھایا، تو کراچی سمیت نیویارک، شنگھائی، ممبئی اور دیگر ساحلی شہر ڈوب جائیں گے۔
دوسری خبربنگلہ دیش کے حوالے سے ہے جس میں گلاسکو ماحولیاتی معاہدے کو بنگلہ دیش نے مایوس کن قرار دے دیا۔ گلاسکو میں گفتگو کرتے ہوئے بنگلہ دیشی وفد کے سربراہ سلیم الحق نے کہا کہ انہیں ’’گلاسکو معاہدے‘‘ سے شدید مایوسی ہوئی۔ معاہدے میں اچھی چیزیں ہوں گی…… لیکن ہمارے لیے نہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث 2050 ء تک بنگلہ دیش کا 11 فیصد رقبہ سمندر میں ڈوبنے کا خدشہ ہے۔ ساحلی علاقے سمندر برد ہونے سے ایک کروڑ 50 لاکھ افراد متاثر ہوں گے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ زمین کے سمندر برد ہونے کا سلسلہ ابھی سے شروع ہو چکا ہے۔ دنیا میں ہونے والی موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلوں کی بڑی وجہ زمین پربڑھتی گرمی ہے۔
اقوامِ متحدہ نے ایک ماحولیاتی ادارے کی رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ 2016ء گرم ترین سال تھا اور یہ متواتر تیسرا گرم ترین سال تھا۔اس دوران میں بھارت اور ایران کے درجۂ حرارت میں اضافہ ہوا جب کہ ماہرِ ارضیات کے مطابق 2015ء میں 1.1 سے لے کر 1.98 ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق 2015ء میں ایک درجہ عبور ہونے کی وجہ وہ اثرات تھے جو کاربن کے اخراج اور عالمی موسم میں تبدیلی سے مرتب ہو رہے تھے۔
زمین کا درجۂ حرارت بڑھنے سے صرف کراچی یا بنگلہ دیش کو ہی خطرہ نہیں بلکہ ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے اگر زمین کے مسلسل بڑھتے درجۂ حرارت میں صرف 4 ڈگری سینٹی اضافہ بھی ہوگیا، تو گلیشیر پگھلنے سے سمندر میں پانی کی سطح بلند ہوجائے گی جس کے باعث سمندر کنارے آباد شہروں سڈنی، نیویارک، شنگھائی اور ممبئی کے ڈوبنے کا خدشہ ہے جس سے دنیا بھر کے ساحلی شہرو ں میں 60 کروڑ نفوس پر مشتمل آبادی متاثر ہوگی ۔
دنیا کا درجۂ حرارت معتدل اور انسان دوست رکھنے کے لیے سب سے اہم ہرقسم کی صنعتی، فضلاتی اورفضائی آلودگی سے پاک درختوں اور جنگلات سے بھرپور صاف ستھرا ماحول ہے۔ میٹرو پولیٹن سٹی کراچی، صوبۂ سندھ کی اس ساحلی پٹی پر آباد ہے جو سونامی زون میں بھی آتی ہے۔ اس ساحلی پٹی کی ڈیفنس لائین مینگروز کے جنگلات ہیں جن کی پیدائش اور نشو و نما کا ذریعہ ہمالیہ سے شروع ہو کر پورے پاکستان سے بہتا ہوا زریں سندھ میں بحیرۂ عرب میں گرنے والے دریائے سندھ کے سمندر میں گرنے سے پہلے مختلف شاخوں میں بٹنے سے وجود میں آنے والے کریک ہیں۔ اس مقام پر دریائے سندھ کا ڈیلٹا بنتا ہے جسے انڈس ڈیلٹا بھی کہا جاتا ہے جو 60 لاکھ ہیکٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس میں سے 1 لاکھ ہیکٹر سے زائد پر تمر (مینگروز) کے جنگلات ہیں جب کہ کراچی سے لے کر سر کریک تک یہ تمر 6 لاکھ ہیکٹر پر پھیلے ہوئے ہیں جو سمندری حیات کا اہم مسکن اور سیلاب اور طوفان کو روکنے کااہم ذریعہ ہیں۔
پاکستان میں پانی کی قلت کے باعث انڈس ڈیلٹا بری طرح متاثر ہواہے اور دریائی پانی مطلوبہ مقدار میں سمندر میں نہ جانے سے تمر کی نشو و نما میں کمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے کراچی موسمی تبدیلی کی وجہ سے بھی تیزی سے متاثر ہو رہا ہے اور گرمی کی شدت کی وجہ سے لوگ ہیٹ اسٹروک جیسی صورتِ حال کا سامنا کرتے ہیں۔
زمین پر بڑھتی ہوئی گرمی سے اگر دنیا کو محفوظ اور انسان دوست رکھنا ہے، تو عالمی ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ زمین پر زیادہ سے زیادہ شجر کاری کی جائے اور کراچی شہر کو موسمیاتی تبدیلیوں سے اور ڈوبنے سے بچانا ہے، تو اس کا واحد حل شہر کے اندر ہنگامی بنیادوں پر شجر کاری اور ساحلی علاقے میں مینگروز کے جنگلات کی پیدا وار ہے۔ اس حوالے سے پاکستان نیوی نے گذشتہ 3 سال میں سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی پر 40 لاکھ سے زائد تمر کے پودے اگائے جب کہ صوبائی وزیرِ جنگلات، اطلاعات و بلدیات سندھ سید ناصر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ کے مختلف ساحلی علاقوں میں 2 ارب سے زائد تمر کے پودے لگائے جاچکے ہیں جنہیں ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ کمپیوٹرائزڈ کیا گیا ہے۔ اس اقدام سے 10 ارب روپے سے زائد آمدنی ہوگی اور کراچی سمیت سندھ کے ساحلوں کو محفوظ بنایا جاسکے گا۔
قارئین، زمین کو گرمی کی شدت سے محفوظ رکھنے کے لیے جہاں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے، وہیں عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت زیادہ سے زیادہ شجر کاری کریں۔
…………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔