آئینِ پاکستان کے تحت ریاست کی کل طاقت کا محور پارلیمنٹ ہی ہے، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے حکمران خود اس کو اتنا کمزور گردانتے ہیں کہ اس پر لعنت بھیجنے تک کی نوبت آجاتی ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ جو پارلیمان کی کرسی پر براجمان ہوں، ان کے لیے یہ سپریم پاور لیکن حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو یہ فکر کھانے لگتی ہے کہ قانون سازی میں پارلیمنٹ کا کردار تماشائیوں جیسا ہے اور اصل ڈور کسی اور جانب سے ہلائی جارہی ہے۔
حالاں کہ یہ گنی چنی سیاسی پارٹیاں اس پارلیمنٹ کی کئی باریاں خود کو مختارِ کل سمجھتے ہوئے بڑے مزے سے مکمل کرچکی ہوتی ہیں، لیکن باہر کی ڈور توڑنے کی ہمت کسی کو نہیں ہوتی۔
مضحکہ خیز بات یہ بھی ہے کہ جب احتسابی اداروں یا اپوزیشن کی تلوار سر پر لٹکنے لگتی ہے، تو پھر حکومتی پارٹی کو بھی فکر پڑجاتی ہے کہ آزاد پارلیمنٹ میں کوئی غیر جمہوری عنصر دخل در معقولات کر رہا ہے، اور الزام پھر اداروں اور اپوزیشن کے سر ڈال دیا جاتا ہے کہ یہی کسی اور کے آلۂ کار بن کر غیرجمہوری عناصر کی انگلیوں پر ناچ رہے ہیں، لیکن یہ ’’غیر جمہوری عناصر‘‘ کون ہیں اور ان کی پارلیمنٹ میں مداخلت کا سدِباب کیسے ممکن ہے؟ یہ کوئی بھی واضح طور پر جمہور کو نہیں بتاتا۔
یہاں پر کسی دانشور کا یہ قول ذہن میں مچل رہا ہے:’’مَیں جھوٹ اس لیے نہیں بولتا، کیوں کہ مجھے اپنی زبان سے نکلی ہر بات کو یاد رکھنا پڑتا ہے، لیکن میرا حافظہ اتنا مضبوط نہیں جو میرا ساتھ دے سکے۔‘‘
آپ کو یاد ہو کہ نہ ہو، ہمیں یاد ہے ذرا ذرا! عمران خان صاحب کے پرانے ٹاک شوز اُٹھا کر دیکھ لیجیے، شاید انہیں یاد نہیں ہوگا کہ ان کی سیاست کا خاصا ہی یہ رہا تھا کہ خالص آئینی اور خود مختار پارلیمان تشکیل دے کر انصاف کو عوام کی دہلیز تک پہنچایا جائے۔ ان باتوں کے سبب میڈیا نے ان کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا، لیکن جب نواز حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا، تو تب شاید ان کا حافظہ کمزور پڑگیا کہ خالص جمہوری پارلیمانی نظام کے لیے جمہور ہی اصل طاقت ہے، یا ’’امپائر کی انگلی؟‘‘
ان کی جانب سے جب پارلیمنٹ کو چلتا کرنے کے لیے دھمکی آمیز تقاریر سننے کو ملیں، تو پارلیمنٹ میں بہت سے ’’طبقاتِ نواز‘‘ جمہوریت پسند بن کر ابھرے جنہیں آئین کو لاحق خطرات کی شدید فکر پڑگئی؛ اور یوں باقاعدہ انتخابات کے باوجود بھی ان کی نظر میں ووٹ کی عزت سرِ عام نیلام ہوگئی اور جمہوریت بوریا بستر گول کرکے پارلیمنٹ کو کسی ’’غیر جمہوری عنصر‘‘ کے حوالے کرکے رُخصت ہوگئی۔
اب ایک عام پارٹی کی حیثیت سے حکومت بنانے والی پارٹی پر نہ صرف اپوزیشن بلکہ میڈیا اور وکلا سے لے کر ہر طبقہ فکر کے لوگ انگلیاں اٹھا رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کے پاس رتی بھر اختیار بھی نہیں اور آئین و جمہوریت اپنا وجود کھو بیٹھے ہیں۔
اس سے اختلاف ممکن نہیں کہ آئین و جمہوریت کے ساتھ مخلص لیڈرشپ پر جتنی زیادہ تنقید ہوتی ہے، اتنی ہی زیادہ اصلاح کا موقع بھی ملتا ہے۔ تو کیا یہ موجودہ حکومت کے پاس بہترین موقع نہیں کہ اعلا عہدوں پر فائز جن ریٹائرڈ افسران کو دلیل کے طور پر لے کر پارلیمنٹ کو ’’قبضہ گروپ‘‘ اور وزیراعظم کو ’’کٹھ پتلی‘‘ کا خطاب دیا جارہا ہے؟ انہیں پارلیمنٹ کی سپریم طاقت کے ذریعے آئینی و قانونی دروازے سے نکال باہر کیا جائے؟
اس طرح ’’کہیں اور سے ڈور ہلانے والوں‘‘ کی کھل کر نشان دہی کی جائے۔ اداروں کو پارلیمنٹ کے ماتحت بنایا جائے۔ سابقہ حکمرانوں کی اسٹیبلشمنٹ نواز پالیسیوں کا قلمع قمع کیا جائے اور پارلیمنٹ سے بلا امتیاز احتساب کا ایسا قانون پاس کیا جائے کہ کوئی ایسا سوال باقی نہ رہ جائے کہ احتساب کا عمل ’’ج‘‘ سے شروع ہونا چاہیے یا ’’پ‘‘ سے۔
مگر شومئی قسمت کہ بلا خوف حکومت پر براجمان رہنا ہے، تو ایسی باتوں کو چھیڑنا پارلیمنٹ کے لیے خطرے کی گھنٹی بن سکتا ہے؛ اور اگر آئین پر عمل درآمد اور جمہوریت کو بچانا ہے، تو پھر واضح تبدیلی لانا پڑتی ہے۔ ہم عوام تو بس یہ جانتے ہیں کہ کوئی احمق ہی ہوگا جو کرسی کے بجائے نظام کو بچائے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔