اگر آپ کسی پشتون کو کہیں کہ ’’آپ افغان نہیں ہیں!‘‘ تو وہ اِسے آپ کی غلط فہمی سمجھ کر شاید مسکرا دے اور درگزر کردے۔ لیکن اگر آپ اس کو یہ کہیں کہ ’’آپ میں تو سرے سے پشتو ہی نہیں!‘‘ تو لازم ہے کہ وہ بحث و تکرار کے علاوہ آپ سے باقاعدہ لڑائی پر اتر آئے۔ کیوں……؟ اس لیے کہ پشتو کے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ پشتون ولی سے عاری ہے۔
پشتون ولی کیا ہے؟ یہ وہ غیر تحریر شدہ آئین ہے جسے پشتون اپنے معاشرے میں صدیوں سے نسل در نسل سینہ بہ سینہ منتقل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ پشتون ولی دراصل پشتونوں کے اُس ضابطہ اور آئین کا نام ہے جس پر ان کی معاشرتی زندگی، تہذیب اور اقدار و روایات کی اساس ہے۔ پشتون ولی کے تحت پشتون مہمان نواز ہوتے ہیں۔ پشتون ولی کے تحت اگر کوئی کسی کو پناہ دے، تو سب پشتون مل کر اس کی پاس داری کرتے ہیں۔ پشتون ولی کے مطابق ہر پشتون ’’بدل‘‘ یعنی انتقام لینے میں آزاد ہوتا ہے، لیکن یہ بدل صرف انتقام کے مفہوم میں نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کے ایک اعلا معنی یہ بھی ہیں کہ ’’نیکی کا بدلہ نیکی!‘‘ اگر بوقتِ ضرورت کوئی آپ کے ساتھ نیکی کرے، تو آپ پر اس کا بدل قرض رہ جاتا ہے جیسا کہ مشہور ہے: ’’دَ فلانی پہ ما بدل پورے دے!‘‘ یعنی فُلاں کا مجھ پر بدل قرض ہے۔
پشتون ولی کا ایک دستور ’’ننواتے‘‘ (مخالف کے گھر میں جانا) ہے۔ مخالف کا اپنے کیے پر پشیمان ہو کر آپ کے گھر آنے اور معافی مانگنے کے عمل کو پشتو میں ’’ننواتے‘‘ کہتے ہیں۔ اس دستور کے مطابق ننواتے کو تسلیم کرنا اور آنے والے کو معاف کرنا لازمی ہوتا ہے، چاہے وہ قاتل ہی کیوں نہ ہو۔
پشتون ولی کے دستور میں حجرہ، جرگہ، سپرد کردہ زمین کی آخری دم تک حفاظت، عورت اور بچوں کو قتل نہ کرنا، مجرم خاندان کی کسی عورت کی درخواست پر لڑائی بند کرنا، بد کار کو سزا دینا اور جو ہتھیار ڈال دے اس کی جان بخشی کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پشتون ولی کی وہ روایت جس کی پشتون سب سے بڑھ کر پاس داری کرتے ہیں، وہ یہ کہ جب بھی کسی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں، تو پھر اس پر مکمل طور پر یقین اور اعتماد کرتے ہیں۔ لیکن پشتون ولی کی یہ روایت اکثر وقتی زوال کا سبب بھی بنتی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ایک تاریخی واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔
15ویں صدی عیسوی میں جب مرزا الغ بیگ، ماوراء النہر سے شکستہ خوردہ حالت میں کابل آیا، تواس وقت ’’ملک سلیمان شاہ یوسف زئی‘‘ سے ان کا تعلق پیدا ہوا۔ تاریخی طور پر یوسف زئی وہ قبیلہ ہے جس نے پشتونوں کی سیاسی وحدت اور حب الوطنی کا پرچار سب سے پہلے شروع کیا۔ ابتدا میں یہ قبیلہ افغانستان میں آباد تھا اور اپنے اندرونی اتفاق، مستحکم فوجی قوت اور معاشی خوشحالی کے باعث ایک ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ اسی لیے مرزا الغ بیگ نے ملک سلیمان شاہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور دونوں کے درمیان اعتماد کی فضا پیدا ہوگئی۔ ملک سلیمان شاہ نے مرزا کی پرورش بالکل اپنے بیٹوں جیسے کی اور سوچا کہ یہ تیموری شہزادہ جب بادشاہ بنے گا، تو سلطنت میں یوسف زئی جاہ و حشمت کے مالک بن جائیں گے، لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔ بادشاہ بننے کے بعد اگر چہ کابل، مرزا کے زیرِ اثر تھا لیکن عملی طور پر اس کے پختون قبائل آزاد حیثیت سے زندگی گزارتے تھے اور اپنے قبائلی نظام میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتے تھے۔ کابل میں یوسف زئیوں کی سیاسی طاقت مرزا کی حکومت کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھی۔ اسی لیے مرزا کسی بھی قیمت پر ان کی بیخ کنی کے درپے ہوگیا۔ ایک دفعہ مرزا نے گگیانیوں کے ساتھ مل کر خفیہ طریقے سے فوج منظم کی اور پوری قوت کے ساتھ غفلت میں پڑے یوسف زئیوں پر حملہ کیا لیکن یوسف زئی بھی تو بہادری میں ممتاز تھے۔ انہوں نے ایسے ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ دونوں فوجوں کو شکست سے دو چار ہونا پڑا۔ اس شکست کے بعد کابل کا مغل بادشاہ اپنی کمزور سیاسی اور فوجی حالت کو دیکھ کر سمجھ گیا کہ یوسف زئی کو میدان میں شکست دینا ناممکن ہے۔ مرزا نے پشتون ولی کے دستور کے مطابق یوسف زئی کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھایا اور اپنے کیے پر پشیمانی ظاہر کی۔ نتیجتاً یوسف زئیوں نے صلح قبول کر لی اور مرزا کے پُرزور اصرار پر یوسف زئی اس بات پر بھی راضی ہوگئے کہ کابل جا کر بادشاہ کے محل میں حاضر ہوجائیں۔ چناں چہ سات سو کے قریب یوسف زئی سرداران اور جنگجو کابل پہنچ گئے۔ منصوبہ کے تحت مرزا کے آدمیوں نے روایات کے مطابق باہر ہی اسلحہ چھوڑنے کو کہا۔ لہٰذا تمام سرداران اور جنگجوؤں نے اسلحہ وہی چھوڑا اور شہر میں داخل ہوگئے۔ محل پہنچنے پر بادشاہ نے ان کا پُرجوش استقبال کیا اور بڑے اکرام کے ساتھ ان سے پیش آیا۔ اپنے امرا میں یوسف زئیوں کو تقسیم کیا کہ ان کی اچھی مہمان نوازی کی جائے۔ جب گروہوں میں تقسیم ہو کے یوسف زئی مہمان بنے، تو منصوبے کے مطابق بادشاہ نے ان کے قتل کا حکم دیا۔ ملک سلیمان شاہ کے پاس اب اپنے باقی قبیلے کو بچانے کا صرف ایک ہی راستہ بچا تھا اور وہ تھا ملک احمد کی زندگی۔ جس کے لیے ملک سلیمان شاہ نے بادشاہ سے التجا کی کہ میری سابقہ خدمات کے عوض میری ایک درخواست قبول فرمائیں۔ ملک احمد کی جان بخش دیں اور بدلے میں میری جان لے لیں۔ بادشاہ ملک سلیمان شاہ کی جان لینے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا، لیکن وہ ملک احمد کو بھی چھوڑنے پر راضی نہ تھا۔ چناں چہ ملک سلیمان شاہ نے بادشاہ کو یہ باور کرایا کہ ملک احمد باقی قبیلے کو لے کر یہاں سے ہجرت کر لے گا۔ آپ سے اور آپ کی سلطنت سے کوئی سروکار نہیں رکھے گا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی مرزا نے یہ قبول کر لیا اور ملک احمد کو چھوڑ کر باقی تمام سرداران اور جنگجوؤں کو شہید کردیا۔
عزیزانِ من، مؤرخین لکھتے ہیں کہ اگر ملک احمد اپنے قبیلے کو لے کر پشاور کی طرف ہجرت نہ کرتے، تو آج پشتونوں کی تاریخ مختلف ہوتی۔ آج پشتونوں کے سارے قبائل خانہ بدوشوں کی طرح زندگی گزار رہے ہوتے۔ ملک احمد خان یوسف زئی ہی پشتونوں کا قومی اور سیاسی لیڈر تھا جس نے پشتونوں کے لیے ایک علاحدہ سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کی بنیاد فراہم کی۔ اس لیے ملک احمد خان کو بجا طور پر پختون خوا کا بانی کہا جاتا ہے۔ ان کی سیاسی بصیرت، بلند پایہ منصوبہ سازی اور جنگی صلاحیتوں نے اس وقت کے تمام منتشر پشتونوں قبائل کو یک جا کر کے پختون خوا کی بنیاد رکھی۔
آج چوں کہ الیکٹرونک میڈیا کا دور ہے اگر آج ملک احمد کی زندگی اور جدو جہد پر ڈراما بنایا جائے، تو مجھے یقین ہے کہ کم از کم پشتون قوم ’’ارطغرل‘‘ اور ’’عثمان‘‘ کے بجائے اپنے بزرگوں اور لیڈروں کو یاد کرے گی بلکہ فخر کرے گی اور باقی دنیا بھی ان کی سیاسی بصیرت اور جنگی صلاحیتوں کی داد دیے بغیر نہیں رہے گی، لیکن افسوس آج تو ہمارا یہ حال ہے کہ ملک احمد اور احمد شاہ تو دور ہم موجودہ دور کے اپنے پشتون بھائیوں کے کارناموں کا انکار کرتے ہیں۔ ہماری اکثریت آج بھی افغان پشتونوں کی روس کے خلاف فتح کو امریکہ کی فتح کہتے ہیں۔ میرا ان سے سوال ہے کہ اگر امریکہ ہی نے روس کو شکست دی تھی، تو آج امریکہ خود 20 سال افغانستان میں لڑنے کے بعد کیوں ذلت اور رسوائی کے ساتھ بھاگ رہا ہے؟ عجیب بات ہے کہ اس امریکہ نے تو سپر پاؤر روس کو پاؤں تلے روند ڈالا اور ان چند افغان پختونوں سے 20 سال لڑنے کے بعد بھی کچھ حاصل نہیں کر پایا۔ اس طرح یہ جو عام لوگوں کا خیال ہے کہ افغان طالبان کی مدد، پاکستان کی حکومت کرتی تھی، تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ پھر آئیں، سب مل کر حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جس طرح آپ نے افغانستان میں امریکہ کو شکست دی، اسی طرح آپ کشمیر میں انڈیا کو شکست کیوں نہیں دیتے؟ انڈیا تو امریکہ سے بڑھ کر طاقت ور نہیں۔
عزیزانِ من! یہ ہم پشتونوں کی اپنی بے وقوفی ہے۔ ہم خود اپنوں کے کارناموں پر غیروں کے لیبل چسپاں کرتے ہیں۔ اگر روس اور امریکہ کو کسی دوسری قوم نے شکست دی ہوتی، تو وہ قوم ہر سال اس دن کو مناتی اور اس پر فخر کرتی، لیکن پشتونوں کو چھوڑیں کہ چاپلوسی کرتے رہیں۔ میرا دعوا ہے کہ اگر انڈیا کے پنجابی سکھوں نے جس دن انڈیا سے الگ اپنا ملک بنالیا، تو آپ دیکھیں گے کہ پاکستانی پنجابی کیسے ان کی خوشی میں شریک ہوتے ہیں اور حکومت ان سے کیسے سفارتی اور برادرانہ تعلقات استوار کرتی ہے۔ حالاں کہ وہ سکھ ہیں اور یہ مسلمان، لیکن ان کی اس قربت کی وجہ صرف زبان ہے۔
کیا آپ نے نہیں دیکھا تھا کہ ’’نوجوت سنگھ سدھو‘‘ جب ایک لشکرِ جرار لے کر کرتار پور کے راستے پاکستان آیا تھا، تو ریاستی طور پر ان کا کیسا شان دار استقبال ہوا تھا اور ہمارے وزیرِ اعظم تک سارے لوگ ان کی پنجابی میں تقریر کو کتنے ادب واحترام کے ساتھ سن رہے تھے۔
اور روس میں بنائی گئی وہ ویڈیو تو ساری دنیا دیکھ چکی ہے جس میں انڈیا اور پاکستان کے فوجی پنجابی گانے پر ناچ رہے ہیں، یعنی ایک دوسرے کے خون کے پیاسی فوجی مل کر ناچ رہے تھے۔ کیوں……؟ اسی لیے کہ وہ ہم زبان تھے۔ اگر پاکستانی پنجابی، انڈیا کے پنجابیوں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرسکتا ہے، تو پاکستانی پشتون بھی افغانستانی پشتونوں کے لیے امن کی بات کرسکتا ہے۔ پاکستان پر جتنا حق پنجابیوں کا ہے اتنا ہی پشتونوں، سندھیوں اور بلوچوں کا بھی ہے۔ ہم پاکستانی ہیں اور رہیں گے، لیکن افسوس کہ ایک طرف تو ہمارے وزیرِ اعظم صاحب امریکہ کو اڈے نہ دینے اور افغانستان کے اندرونی معاملات میں غیر جانب دار رہنے کے بیانات دے رہے ہیں، تو دوسری طرف پختون خوا اور افغانستان میں امن اور غیروں کی مداخلت بند کرنے کی بات پر پشتون لیڈروں کو شہید کیا جارہاہے، جس کی تازہ مثال عثمان خان کاکڑ کا واقعہ ہے۔
میری ایک گذارش ’’لر و بر پشتون سیاسی رہنماؤں‘‘ سے یہ ہے کہ براہِ کرم امریکہ کی صلح پر پشتون ولی کے دستور کے مطابق اعتماد نہ کریں اور تھوڑا سا ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھا کریں۔
ایسا نہ ہو کہ کہیں دوبارہ یوسف زئیوں کے قتلِ عام کی تاریخ دہرائی جائے۔
……………………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔