بل گیٹس سے پوچھا گیا کہ اپنے علاوہ کسی اور کو بھی دولت مند سمجھتے ہو؟ انہوں نے جواباً کہا کہ ’’ہاں! بہت سالوں پہلے نیویارک کے ہوائی اڈے میں ایک مجلہ میری نظروں سے گزرا۔ اُس کے تحریری مواد اور مضامین ہر لحاظ سے میرے دل کو اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔ مَیں نے چاہا کہ یہ مجلہ خریدوں۔ جیب میں ہاتھ ڈالا لیکن ریزگاری (ٹوٹے پیسے) میرے پاس نہیں تھے۔ اس لیے خرید نہ سکا اورجانے لگا۔ سیاہ فام لڑکے نے کہا کہ ’’یہ لے لو!‘‘ (وہ مجلہ تھما رہا تھا) مَیں نے جواباً کہا: ’’میرے پاس ٹوٹے پیسے نہیں ہیں۔‘‘ لڑکے نے کہا: ’’بلا معاوضہ لے لو۔ یہ میری طرف سے ہے۔‘‘
اس کے تین ماہ بعد عین اُسی ہوائی اڈے میں ایک روزنامہ میری نظروں سے گزرا۔ دل کو بھاگیا۔ جیب میں ہاتھ ڈالا لیکن خریدنے کے لیے ایک بار پھر کھلا نہیں تھا۔ لڑکے نے کہا: ’’یہ روزنامہ میری طرف سے آپ کا ہوا۔ یہ آپ رکھ لیں۔‘‘ مَیں نے کہا: ’’لڑکے جب کسی کے پاس ٹوٹے پیسے نہیں ہوتے، تو تم اسے بلامعاوضہ یوں ہی ہر کسی کو دے دیتے ہو۔‘‘ لڑکے نے کہا کہ ’’جب میرا دل چاہے، تو میں اُسے مفت دے دیتا ہوں اور اپنی جیب سے اس کے لیے پیسے رکھ دیتا ہوں۔‘‘
بل گیٹس کہتے ہیں، سال ہا سال سے یہ بات میرے ذہن میں تھی کہ یہ لڑکا کس احساس کے تحت یہ کام کررہا ہے؟ پورے 19سال بعد جب ’’مائیکرو سافٹ‘‘ بامِ عروج پر پہنچ گیا، تو مَیں نے تہیہ کرلیا کہ میں اُس لڑکے کی نیکی کا بدلہ چکاؤں گا۔ مَیں نے حکم دیا کہ جیسا بھی ہو اُس لڑکے کو ڈھونڈ کر میرے پاس لایا جائے۔ تقریباً 45 دن بعد اُس لڑکے کو ڈھونڈ کر لایا گیا، جو اُس وقت 32 سال کا نوجوان تھا۔ جو سنیما کی ایک دکان میں سالوں سے کام کررہا تھا۔ مَیں نے لڑکے سے پوچھا کہ ’’مجھے جانتے ہو۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا: ’’ہاں! آپ کو تو پوری دنیا جانتی ہے۔ بل گیٹس کو کون نہیں جانتا۔‘‘
بل گیٹس نے لڑکے کو مجلے اور روزنامے کا قصہ سنایا اور کہا:’’کیا تمہیں وہ یاد ہے۔‘‘ لڑکے نے کہا کہ ’’ہاں، بالکل یاد ہے!‘‘ بل گیٹس نے پھر کہا: ’’مَیں چاہتا ہوں کہ آپ کی اس نیکی اور محبت کا بدلہ چکادوں جو آپ نے میرے ساتھ اپنے طریقے سے کی ہے۔ لڑکے نے پوچھا: ’’آپ بدلہ کس طرح چکائیں گے؟‘‘
بل گیٹس اس موقعہ پر جواباً کہتا ہے: ’’مانگو جو مانگتے ہو! مَیں دینے کے لیے تیار ہوں۔ مَیں نے پورے 50 افریقی ممالک کو جتنا قرض دیا ہے، لڑکے! اگر تو چاہے، تو اُس کے برابر یا اُس سے بھی زیادہ دینے کے لیے میں تجھے تیار ہوں۔‘‘ لڑکا جواباً کہتا ہے: ’’جناب، بل گیٹس! یقین مانیے آپ میرے احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتے۔‘‘ بل گیٹس کہتے ہیں: ’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘ لڑکا جواباً وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’وہ ایسے کہ مَیں نے مذکورہ مجلے آپ کو اپنی غربت اور لاچاری میں دیے تھے اور آپ اُس کا بدلہ ایک ایسے وقت چکا رہے ہیں جب آپ حد سے زیادہ امیر بن چکے ہیں۔ غربت کی حالت میں کسی پر احسان کرنا اور مفت چیز دینا اور اپنی جیب سے اُس کی قیمت ادا کرنا، وہ اور آپ کا بدلہ کیسے برابر ہوسکتے ہیں؟‘‘ بل گیٹس کہتے ہیں: ’’مَیں اب تک سوچتا ہوں کہ وہ سیاہ فام 32 سالہ لڑکا مجھ سے زیادہ مال دار اور دولت مند ہے، جو خود ضرورت مند تھا لیکن اُسے دوسروں کی ضرورت کا بھی خیال تھا۔اس نے اپنے منھ کا نوالہ مجھے اس وقت دیا جب اسے زیادہ ضرورت تھی۔
واللہ اعلم بالصواب!
………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔