لیاقت باغ…… راولپنڈی…… لوگوں کا ہجوم…… اور سٹیج سے پارٹی ترانے۔ اس وقت تک اتفاق تھا کہ یہ یقینی طور پر ایک تیسری قوت ہے۔ اور مینارِ پاکستان سے شروع ہونے والا سفر کامیابی سے جاری ہے اور جاری رہے گا۔ یہ سوچ پروان چڑھتی رہی اور ذہن کے کسی گوشے میں امید کا دیا روشن تھا کہ ایک لمحہ کے لیے مان بھی لیا جائے کہ ماضی والے ٹھیک نہیں تھے، تو یہ حال والا یقینی طور پر مستقبل ٹھیک کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ امید ہو چلی تھی کہ پاکستان میں دگرگوں سیاسی روایات کا جس طرح اخلاقی جنازہ نکل چکا تھا، اُس سے واپسی شائد ممکن ہونے کو ہے اور پرانے سیاسی کھلاڑی، جو سیاسی میدان سے اس لیے باہر جا بیٹھے تھے کہ وہ دھندا ہے پر گندا ہے کے ساتھ چلنے کو تیار نہ تھے۔ پُرامید تھے کہ ملک کے حالات بدلنے کے قریب ہیں اور وجہ ان کی امید کی یہی تھی کہ نعرہ تبدیلی کا تھا۔ ووٹ پچھلوں سے بہتر ہونے کی بنیاد پہ مانگا گیا۔ اسی جد و جہد میں پانامہ لیکس کا ہنگامہ آیا اور پھر نجانے کیا کیا آیا کہ امیدوں کے دیے کی لو پھڑپھڑانا شروع ہوگئی۔
ڈی چوک پہ جو طوفانِ بدتمیزی بپا کیا گیا اس کے بارے میں نہایت محتاط اندازوں کے مطابق قلم کار یہی لکھتے رہے کہ انقلاب آتا ہے، تو پھر کچھ ایسے مواقع بھی آتے ہیں جو سب کو پسند نہیں آتے۔ سول نافرمانی کی تحریک ہو یا بیورو کریسی کو اکسانا، ہر موقع پر شک کا فائدہ دیا جاتا رہا کہ ہو سکتا ہے جو تبدیلی لانے کا ارادہ ہے، وہ نیک ہو۔ لیکن جب انتخابات ہوئے، تو اس کے بعد پیش آنے والے واقعات نے عوام کو ایک لمحہ کے لیے حیران کر دیا کہ کیسے جہاز بھر بھر کے تبدیلی کے لیے لوگ لائے جانے لگے۔ کہیں زرعی ملک میں افسانے زبان زدِ عام ہوئے، تو کہیں پہ طیارے ٹیکسی کی طرح دوڑتے نظر آئے۔ نظریاتی کارکن پس منظر میں چلے گئے اور مفاد پرستوں کا وہی ٹولہ جو کبھی برا کہلاتا تھا، وہ سامنے آنے لگا۔ پھر وقت نے دیکھا کہ آزمائے ہوئے دوبارہ آزمائے جانے لگے۔ جب ماضی کے کرداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا، تو دائیں بائیں وہی چہرے نظر آنے لگے جو کبھی ماضی کے کرداروں کے ہر اول دستے میں شامل تھے۔ غلام سرور خان ہوں یا خسرو بختیار، حفیظ شیخ ہوں یا زبیدہ جلال، شاہ محمود قریشی ہوں یا پھر عامر لیاقت حسین، پرویز خٹک ہوں یا پھر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، فواد چوہدری ہوں یا پھرفروغ نسیم، کہاں تک سنو گے، کہاں تک سناؤں……؟ المختصر، وہی لوگ جو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے مارہ تھے،آج اشنان فرما رہے ہیں۔ جھٹکا تو اس وقت لگا جب عوام دہائیاں دینے لگے کہ اس سے تو پچھلے بہتر تھے۔
برسبیلِ تذکرہ، ایک کفن چور تھا، کفن چوری کرتا تھا، قریب المرگ ہوا، تو بیٹے سے کہا، بیٹا! کچھ ایسا کرنا کہ لوگ میری برائی بھول جائیں۔ بیٹا تھا، وعدہ کر لیا کہ ابا حضور ایسا ہی ہو گا۔کفن چور مر گیا۔ بیٹے نے باپ کا کام سنبھال لیا۔ اضافی کام یہ انجام دیا کہ لاش کی کفن چرانے کے بعد بے حرمتی بھی کرتا۔ لوگ کہنے لگے، اس سے تو اچھا وہ پچھلا کفن چور تھا۔ وہ صرف کفن چوری کرتا تھا اور یہ تو بے حرمتی بھی کرتا ہے۔ کچھ ایسا ہی آج کل کے حالات کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے۔
تازہ ترین حالات صرف جائزے کو ملاحظہ ہوں۔ تین سال کا عرصہ تو گھر کے پوت کی تربیت کے لیے بھی بہت ہیں اور اس کے اطوار کی درستی کے لیے بھی۔ لیکن یہاں حالات مختلف ثابت ہوئے۔ 90ء کی دہائی بازارِ سیاست کی بدنامِ زمانہ………… جیسی تھی۔ میوزیکل چیئر، سیاسی خرید و فروخت عروج پہ تھی۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا اس دہائی کا خاصہ تھا، لیکن آج کل کے حالات کو ایک لمحہ سامنے رکھیے، تو آپ کفن چور کے بیٹے کو سامنے پائیں گے۔ پہلے والے ہی اچھے تھے۔ ارے کیوں صاحب!ـ کم از کم وہ خود کھاتے تھے، تو لگاتے بھی تو تھے۔
قارئین، یہ ازراہِ تفنن ایک خود کلامی سی تھی، لیکن حقیقت کے عین مطابق ہے۔ اقتدار سنبھالتے ہی ایک تقریر کی گئی۔ واہ واہ، سب عش عش کر اُٹھے کہ حالات تبدیل ہونے کو ہیں۔ چند ووٹوں سے لیکن جو اقتدار پایا تھا وہ قائم رہنا مشکل ہو گیا۔ زبان میں گالم گلوچ، تندی اور تیزی نے دوبارہ جگہ پا لی۔ چن چن کر ایسے نادر ہیرے اپنے ارد گرد اکھٹے کیے جاتے رہے کہ الفاظ جن کے لبوں سے گولی بن کر نکلتے ہیں۔ اپوزیشن کا کام ہوتا ہے موقع سے فائدہ اٹھانا، عوام کو حاکمِ وقت سے بدظن کرنا، برائیاں چن چن کر بتانا، اچھائیوں پہ پردہ ڈالنا، لیکن یہ کیا……؟ یہاں تو حاکمِ وقت خود اپنا گریباں چاک کیے ہوئے ہے۔ ’’گھبرانا نہیں‘‘ کا کہا گیا، لیکن اب عوام سوال کرنے لگے ہیں کہ ’’اجازت ہو تو تھوڑا سا گھبرا لیں؟‘‘ بلدیاتی ادارے، ہنوز دلی دور اَست۔ معاشی اصلاحات،چہ معنی دارد۔ انتخابی اصلاحات، ابھی عشق کے امتحان اور ہیں۔ صوبائی ہم آہنگی، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ اداروں کا وقار، میں نا مانوں۔ ادارہ جاتی اصلاحات، گزری باتیں۔ عوام کو ریلیف، ہم کہ ٹھہرے اجنبی۔ دوسو افراد کی معاشی ٹیم ، کہاں ہو تم چلے آؤ۔ اور اب گھوم پھر کے سینیٹ انتخابات اور اپوزیشن سے محاذ آرائی۔
اس تازہ ترین سیاسی محاذ آرائی سے نجانے کیوں وہی نوے کی دہائی یاد آنے لگی ہے، جب سیاست دان ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہے۔ گالم گلوچ خاصا رہا۔ کبھی فتوے، کبھی بیانات، کبھی پریس کانفرنسوں کی مدد سے ایک دوسرے کی ذات کے بخیے ادھیڑے جاتے رہے۔ نا کام کرنے دیا گیا نہ خود کرنے کی کوشش کی گئی۔ آج بھی تین سال کے بعد حالات نوے کی دہائی کی طرف واپس جا چکے ہیں۔ مانا پچھلے سب چور تھے، لیکن موجودہ ایمان داروں نے چوروں سے واپس کتنا لیا؟ بیرونِ ملک جو دو سو ارب پڑے تھے ، وہ کیا وہاں چوہے کھا گئے؟ لیپ ٹاپ دینا شوبازی تھا، تو لنچ باکس پکڑانا کیا ہے؟ کیا انہوں نے کچھ نہیں تھا، تو کر آپ کیا رہیہیں؟ سینیٹ انتخابات میں غلط گیلانی اینڈ کمپنی نے کیا تو ٹھیک آپ نے کیا کیا؟ ہم 2021ء میں 90ء کی دہائی واپس آتی ہوئی دیکھ رہے ہیں۔ کیوں کہ ہمیں حاکمِ وقت کے ارد گرد بدزباں، بد لحاظ اور بدتمیزقسم کے ایکسپرٹ زیادہ تعداد میں نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ اعدادو شمار کے بجائے غصے اور چیخنے چنگاڑنے سے باقی وقت گزارنے کی منصوبہ بندی ہے اور بالکل درست ہے کہ کم ٹپانا ہی ہو، تو یہ بہترین منصوبہ بندی ہے۔ جو پاکستان کی سیاست کا آج حال ہے، اس پہ اتنا کہنا کافی ہے کہ ’’عوام کو 90ء کی دہائی کی واپسی مبارک ہو۔‘‘
……………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔