مزدورو، اٹھو! اپنا حق چھین لو، کوئی ظالم سامراج آپ کا حق آپ کی جھولی میں نہیں ڈالے گا۔ اس کیلئے جد جہد فرض ہے۔ یہ مانگنے سے نہیں ملے گا۔ اپنی آنے والی نسلوں پر رحم کرنا ہوگا۔ یہ نظام مزدورکے کندھوں پر کھڑا ہے۔ عددی لحاظ سے سرمایہ دار اشرافیہ صرف پانچ فیصد ہے۔ دراصل سرمایہ دار ہی سیم و زر کا مالک ہے۔ پارلیمنٹ میں مزدور کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔

مزدور کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے۔ رہنے کیلے چھت، علاج معالجہ کی خاطر خواہ سہولت، بچوں کی تعلیم کیلئے پیسے، شادی بیاہ کیلئے جہیز، نوکری اور مزدوری بھی نہیں ملتی، اگر مل بھی جائے، تو اجرت کم۔ بندہ کہاں جائے؟

مزدور کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے۔ رہنے کیلئے چھت، علاج معالجہ کی خاطر خواہ سہولت، بچوں کی تعلیم کیلئے پیسے، شادی بیاہ کیلئے جہیز، نوکری اور مزدوری بھی نہیں ملتی، اگر مل بھی جائے، تو اجرت کم۔ بندہ کہاں جائے؟

نظامِ زر اور ظلم، مزدور اور غریب کے کندھوں پر کتنی دیر تک کھڑے رہ سکتے ہیں؟ مزدور کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے۔ رہنے کیلے چھت، علاج معالجہ کی خاطر خواہ سہولت، بچوں کی تعلیم کیلئے پیسے، شادی بیاہ کیلئے جہیز، نوکری اور مزدوری بھی نہیں ملتی، اگر مل بھی جائے، تو اجرت کم۔ بندہ کہاں جائے؟ زمین تنگ اور آسمان دورہے۔ جب کہ زمینی خدا اپنے مفادات کے علاوہ کسی طور راضی نہیں ہوتا۔ کفن دفن کیلئے پیسے نہیں، مر بھی نہیں سکتا۔ رشتہ داروں اور بچوں کو جاگیردار کو قرض اور سود کے پیسے دینے پڑیں گے۔ اُف خدایا، کیا مصیبت ہے! بچوں کو بھوک تنگ کرتی ہے۔ اپنا گزارہ تو بہرحال فقر و فاقہ سے ہوجاتا ہے۔ ایسے حالات میں مطمئن اور فارغ البال لوگ برے لگنے لگتے ہیں، لیکن نہ مجموعی نظام ٹھیک کرسکتے ہیں اور نہ ہی انقلاب کی آبیاری کرسکتے ہیں۔ نسل در نسل یہی اطمینان اور طمانیت جبکہ دوسری طرف بھوک اور فقر و فاقہ۔ انقلاب تو دور کی بات ہے، الیکشن میں بھی اچھی پارٹی اور شخصیات کا انتخاب نہیں ہوسکتا۔ ذات برادری، نسل پرستی، قومیت پسندی، اصلاح اور مذہب کی بنا پر ووٹ دھوکے سے لیا جاتا ہے۔ سسٹم میں بنیادی تبدیلی کے دعویدار کوئی تبدیلی نہیں لاتے۔ الٹا نئے قوانین لاکر غریبوں کیلئے نئے پھندے بنائے جاتے ہیں اور رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔تبدیلی تو درکنار بنیادی حقوق تک معطل ہو جاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں اشراف اورخواص اسلئے بھی انقلاب کی حمایت نہیں کرتے، کیونکہ سرمایہ داروں کی بے حدو بے حساب مال ودولت اور جائیدا د کو تحفظ دیا گیا ہے۔ وہ کسی طور راضی نہیں ہوں گے کہ اس سے ان کی سہولیات چھین جائیں گی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ داروں کو درج ذیل مراعات حاصل ہیں:
1:۔ قانونی اور غیر قانونی طریقے سے بے حد و حساب مال اور جائیداد جمع کرنا جائز قرار دیا گیا ہے۔
2:۔ صنعتی مزدوروں کا استحصال، دہقان اور کسان کی وسائل سے محرومی، سرمایہ دارانہ نظام کا اصل بھیانک چہرہ ہے۔
3:۔ سرمایہ دارقانونی پابندی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ حکومت کرنا، الیکشن لڑناصرف اشرافیہ کا حق ٹھہرا ہے۔
4:۔ سرمایہ دارانہ نظام میں الیکشن اور پارٹی نمائندگی غریب مزدور کے بس کی بات نہیں رہی۔
5:۔ سرمایہ دارانہ نظام میں عزت اور شرف کا معیار دولت قرار پاگیا ہے۔
6:۔ مروجہ نظام میں قانون اور عدالت طاقتور اور دولتمند کو تحفظ دیتے ہیں۔
7:۔ روٹی کے چور کو سزا جبکہ اربوں کے کرپشن میں ملوث کو با عزت بری کروایا جاتا ہے۔
9:۔ جاگیردار اور سرمایہ دار کے تحفظ کیلئے عملاً پورا نظام کھڑا کیا گیا ہے۔
10:۔ تمام بڑے نجی ادارے صنعت کار، جاگیر دار و سرمایہ داراور زمیندارکے تسلط میں ہیں۔
11:۔ چھوٹے بڑے طبقات وجود میں آچکے ہیں۔ متوسط بڑے اور چھوٹے درمیانے درجے کے انسانوں کی دھڑا بندیاں وجود میں آچکی ہیں۔ اس کے علاوہ رینکنگ کے طبقات علیحدہ ہیں۔ اثر و رسوخ کی خاطر کسی پارٹی یا کسی مضبوط گروہ، انجمن، تنظیم یا مسلکی فرقہ بندی میں حصہ لیا جاتا ہے۔

مالک سرمایہ دار صرف پیسہ لگاتا ہے اور قدر زائد، فاضل منافع بھی اس کی جیب میں جاتا ہے۔ آرام دہ موٹرکاریں، ہوائی جہاز، بلٹ پروف گاڑیاں، بیسوں کنال زمین، کوٹھیاں، نوکر چاکر، عبادات کیلئے الگ مزین مساجد، سرکاری پروٹوکول، سیکورٹی، سرکاری مراعات، بہترین تعلیم، بہترین طعام، بہترین آرام گاہیں، اکانومی کلاس میں سفر، ٹیکسوں سے چھوٹ وغیرہ سب صرف سرمایہ کیلئے ہے۔ دوسری طرف فقر و فاقے، نیستی، تنگ دستی اور خودکشیاں وغیرہ ہیں

مالک سرمایہ دار صرف پیسہ لگاتا ہے اور قدر زائد، فاضل منافع بھی اس کی جیب میں جاتا ہے۔دوسری طرف مزدور کے ہاں صرف فقر و فاقے، نیستی، تنگ دستی اور خودکشیاں وغیرہ ہی ہیں

قارئین، یہ گھن چکر اس لئے رچایا گیا ہے، تاکہ کسی کو شبہ نہ ہو کہ کسی کو مذہبی یا سیاسی آزادی نہیں دی گئی ہے۔ اتنے گروہ بنائے گئے ہیں کہ اصل گروہ پر ملک دشمن کا گمان ہونے لگتا ہے۔ اصل گروہ یہی مزدوروں، غریب کسانوں کاگروہ ہے جس کی وجہ سے یہ تمام نظامِ زر کھڑا کیا گیا ہے۔ جہاں صرف ان کو کوئی حقوق نہیں ملتے۔ باقی سرمایہ داروں کی چاروں گھی میں ہیں۔ مزدور جو کسی فیکٹری کا کام کرتا ہے، اس کے پروڈکٹ لینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ دوسرا مالک سرمایہ دار صرف پیسہ لگاتا ہے اور قدر زائد، فاضل منافع بھی اس کی جیب میں جاتا ہے۔ آرام دہ موٹرکاریں، ہوائی جہاز، بلٹ پروف گاڑیاں، بیسوں کنال زمین، کوٹھیاں، نوکر چاکر، عبادات کیلئے الگ مزین مساجد، سرکاری پروٹوکول، سیکورٹی، سرکاری مراعات، بہترین تعلیم، بہترین طعام، بہترین آرام گاہیں، اکانومی کلاس میں سفر، ٹیکسوں سے چھوٹ وغیرہ سب صرف سرمایہ کیلئے ہے۔ دوسری طرف فقر و فاقے، نیستی، تنگ دستی اور خودکشیاں وغیرہ ہیں۔

مروجہ سیاست لڑائی جھگڑے، لوٹ کھسوٹ، فریب کاری، چالبازی اور وسائل لوٹنے کی نفسیاتی جنگ ہے۔ اس جنگ میں قومیں خونخوار دروندوں کی طرح ایک دوسرے کے برخلاف صف آرا ہیں۔ دست بدست لڑائی کا زمانہ گزر گیا۔ اب سائنسی، سیاسی اور عدالتی طور پر مخالف کو زچ کیا جاتا ہے۔ سرمایہ داری، قبائلی عصبیت، مذہب اور قومی تفاخر اس کا ہتھیار ہیں۔ ہنر مندی، شرافت اور ایمان داری جیسی اصطلاحات صرف اپنی قوم کے تحفظ کے طور پر مانی جاتی ہیں۔ عصبیت، نفرت کی علامت بن چکی ہے۔ نسلی اور قومی سیاست درحقیقت امتیازات کا وہ سلسلہ ہے جس سے کشت و خون اور قتل مقاتلے کی سڑاند اٹھانے لگی ہے۔

سیاست جو مجموعی اقوام کے مفادات کا تحفظ کرتی تھی، آج کل کرپشن، نفرت، امتیاز، قتل و غارت، لوٹ کھسوٹ، فریب اور چالبازی کے نام ٹھہرائی جاچکی ہے۔

سیاست جو مجموعی اقوام کے مفادات کا تحفظ کرتی تھی، آج کل کرپشن، نفرت، امتیاز، قتل و غارت، لوٹ کھسوٹ، فریب اور چالبازی کے نام ٹھہرائی جاچکی ہے

سیاست جو مجموعی اقوام کے مفادات کا تحفظ کرتی تھی، آج کل کرپشن، نفرت، امتیاز، قتل و غارت، لوٹ کھسوٹ، فریب اور چالبازی کے نام ٹھہرائی جاچکی ہے۔اقوام پر معاشی پابندیاں، نفسیاتی حربے اور دھونس دباؤ کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔ ٹیکنالوجیکل ترقی اور کاغذی پیسے کے زور پر اقوام یرغمال بنالی گئی ہیں۔ اقوام کے مفادات کے تحفظ کیلئے گھٹ جوڑ کرکے وسائل لوٹنے کے نئے پیمانے مقرر کئے گئے ہیں۔ خام مال اور انسانی مزدور اس مرحلے کو سر انجام دینے کیلئے کام آتے ہیں۔ مفلوک الحال انسانوں کو مختلف طریقے سے غلام بنایا جاتا ہے۔ سیاست اشرافیہ کا مقدر ٹھہر چکی ہے۔ غریب کو مشقت کی بھٹی میں جھونکا جا چکا ہے۔ دراصل مذہبی ٹھیکیداروں، سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے مفادات تمام کے تمام ایک جیسے ہیں۔ ان کو قانونی تحفظ ملتا ہے۔ دوسری طرف تمام حاجتمندوں، سائلین، محرومین، طوائف اور غربا وغیرہ کے مفادات یکساں ہوتے ہیں۔ مذہبی خود ساختہ پیمانے اوّل الذکر کو تقویت دینے کا باعث بنتے ہیں۔ مستقل آہنی شکنجے بنائے گئے ہیں، جس کی مثال سرمایہ داری تعلیم اور صحت ہے۔ اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ، ہوائی جہاز، چارٹرڈ طیارے اورملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں۔

نظریات کو بالا ئے طاق رکھنے کا پروگرام ہوچکا ہے۔ مذہب کو مفادات کے تحفظ کیلئے آلہ کے طور پر آزمودہ نسخہ گرد انا گیا ہے۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ماسکہ ہے جس پر قوموں کو رام کیا جاتا ہے۔ طبقات کو جائز اور نچلے طبقات کے لئے غلامی کا طوق پہنایا گیا ہے۔ جمہوری نظام کے ذریعے اشرافیہ مال و زر اور جدید سہولیات کی مستحق قرار پائی ہے۔ نا اہل اور کرپٹ حکمران مافیا سائنسی اور جھوٹی طریقے سے الیکشن میں کامیاب ہوا۔ اب تو ہمیں ہوش میں آنا چاہئے کہ قیامت موجود وقت میں حشر بپا ہے، لوگ چیختے چلا رہے ہیں۔ کسی مسیحا کا انتظار ہے۔ کوئی مہد ی آئے گا جو اِن بے کسوں کو گلو خلاصی دے گا۔
خدارا، ان لوگوں سے یہ دھوکا بازی چھوڑ دیں کہ آئندہ ان کی باری ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ قدرت ہر زمانے میں فرعون کی تباہی کے لئے موسیٰ جیسے نجات دہندہ کو اس کے گھر میں پالتا ہے۔ اس لئے ہمیں بھی انتظار ہے ایسے کسی نجات دہندہ کا۔