500 سال قبل یوسف زئی قبیلہ ملک احمد خان، شیخ ملیؒ اور دیگر اکابرین کی سرکردگی میں افغانستان سے ہجرت کرکے پہلے پشاور اور بعد ازاں 17 سال کی جد و جہد کے بعد مردان ڈویژن، ملاکنڈ ڈویژن، چارسدہ اور باجوڑ کو فتح کرتے ہوئے موجودہ علاقوں میں حکومت کرنے لگا۔ بعض علاقے مثلاً چارسدہ اور باجوڑ کو اپنے حمایتوں کے سپرد کیا۔ کیوں کہ وہ بھی ان علاقوں کو فتح کرنے میں یوسف زئیوں کے حمایتی اور ان کے ساتھ شانہ بشانہ تھے۔ جب یہ سارے علاقے یکے بعد دیگرے فتح ہوئے، تو شیخ ملیؒ نے اپنے قبیلے میں مفتوحہ علاقے مختلف خیلوں اور پتوں میں تقسیم کیے۔ یہ تقسیم ہر خاندان کے لڑکوں اور مَردوں کے نام کی گئی اور اُنہیں اختیار مند بنایا گیا۔ شیخ ملیؒ اپنے کام میں اتنے ماہر تھے کہ دیگر پشتون اقوام بھی اُنہیں اپنے علاقوں میں تقسیم کے لیے لے جانے لگیں اور آپؒ کی تقسیم کے طریقہ کو قبول کرنے لگیں۔
شیخ ملیؒ ایک عالم فاضل شخصیت تھے۔ ان کی لکھی ہوئی کتاب کو ’’دفترِ شیخ ملیؒ ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کتاب کی تلاش میں میجر راورٹی 1858ء میں سوات آئے تھے اور انہوں نے مذکورہ کتاب حصول کے لیے سوات کا کونا کونا چھان مارا تھا، لیکن یہ اُنہیں نہیں ملی تھی۔ آج بھی نام تو موجود ہے، لیکن کتاب کسی کے پاس نہیں۔
بلاشبہ پشتو ادب و تاریخ میں میجر راورٹی بڑا نام ہے۔ انہوں نے پشتو گرائمر بھی لکھا ہے۔ پشتو زبان پر انہیں عبور حاصل تھا۔ سوات آنے کے لیے انہوں نے موجودہ موٹر وے کا رستہ چنا تھا۔ یعنی پلئی شیر خانئی بازدرہ، مور پہاڑ، تانڑہ، موجودہ سوات جی ٹی روڈ کے راستے یہ صاحب امانکوٹ سے ہوتے ہوئے سیدو شریف گئے تھے، جہاں انہوں نے سیدو باباؒ سے بھی ملاقات کی تھی۔ وہ اپنی ملاقات کا ذکر یوں کرتے ہیں: ’’جب ہم سیدوگان گاؤں پہنچے، تو ہم سیدوباباؒ کے سلام کے لیے حاضر ہوگئے۔ یہ معزز مشر ہیں۔ قد درمیانہ، سفید داڑھی، عمر تقریباً 60 سال، خوش اطوار، خوش اخلاق اور ملاقات کرنے والوں سے نہایت محبت، خندہ پیشانی اور با وقار انداز سے پیش آتے ہیں۔ انہیں اسلامی علوم پر دسترس حاصل ہے۔ پنجاب اور پشاور میں ان کے نام سے مطلبی لوگ اپنا کام چلاتے ہیں۔ انگریز سرکار کے علاقوں سے مجرم لوگ بھاگ کر سوات آتے ہیں، تو سیدوبابا اُنہیں تین دن مہمان کی حیثیت سے اپنے پاس رکھتے ہیں۔ بعد ازاں انہیں سوات سے چلے جانے کا کہتے ہیں۔ غلط لوگ اور مجرموں کو دائمی پناہ نہیں دیتے۔ یہ عملاً بادشاہ نہیں، لیکن بادشاہ سے کسی طور کم نہیں ہیں۔
سیدو باباؒ کی خوراک کے بارے میں کہتے ہیں کہ دن رات میں ایک شموخہ کی روٹی کھاتے ہیں (شموخہ ایک خود رو پودا ہے جو دھان کے فصل میں خود اُگتا ہے) سارا سال دن کو روزہ رکھتے ہیں۔ گھر کے ساتھ ان کا ایک باغ ہے، جس میں میوہ دار درخت مثلاً انار، آڑو، انجیر، ناشپاتی (ٹانگوان)، اخروٹ، انگور ملتے ہیں۔ ان میں ایک چشمہ بھی سارا سال بہتا رہتا ہے۔ ایک پانی کا تالاب بھی ہے۔ اس باغ کے میوے یہ مہمانوں کو کھلاتے ہیں۔
میجر راورٹی سیدوباباؒ کے گھر کا جو نقشہ کھینچتے ہیں۔ وہ ہوبہو میرے خیال میں سیدو باباؒ کی موجودہ مسجد اور چشمہ ہے۔ ان کے بقول چشمے کے تالاب میں مچھلی بھی ہے اور چناروں کے سایہ دار درخت بھی۔
میجر راورٹی نے مدین تک علاقے کو چھان مارا تھا اور پھر دریا پار کرکے کالاکوٹ کی جانب چل کر مختلف گاوؤں (کوزہ درشخیلہ اور برہ درشخیلہ) بھی گئے تھے۔ درشخیلہ میں یہ صاحب ایک خان اور ملا سے سخت نالاں لگتے ہیں۔ شکر درہ نامی گاؤں میں واپسی کے دوران میں انہوں نے رات گزاری تھی۔ کبل، سویگلئی اور شموزو کے راستے چکدرہ سے ہوتے ہوئے ملاکنڈ پاس، درگئی کے راستے پشاور چلے گئے تھے۔
میجر راورٹی سوات میں نام کو تو سیدوباباؒ سے ملاقات کے لیے آئے تھے، لیکن جب انہیں مطلوبہ کتاب (دفترِ شیخ ملیؒ) نہیں ملی، تو آئندہ کے لیے انہوں نے خان کجو کی اولاد سے ملنے کے لیے ایک سوداگر کے لباس میں جانے کا پروگرام بنایا۔ کیوں کہ لوگوں نے انہیں کہا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ مذکورہ کتاب خان کجو کے خاندان میں کسی کے پاس ہو۔ میجر راورٹی سوات کے لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ پرانے قبرستانوں میں ہل چلا کر ان کا نام و نشان مٹادیتے ہیں، لیکن شہیدوں کی قبروں کو سلامت رہنے دیتے ہیں۔ ہل چلانے سے پہلے یہ مُردوں کو مخاطب کرکے کہتے کہ ’’پخی راغونڈی کڑئی، در ئی وڑو‘‘ یعنی پاؤں لپیٹ لیں، ہم آرہے ہیں۔ ان کے بقول جب میں نے لوگوں سے کہا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں، تو وہ جواباً کہنے لگے:’’دوی دی مکی تہ لاڑ شی‘‘ یعنی یہ مکہ چلے جائیں، تو بہتر ہوگا۔ (نوٹ: قبرستان کا حوالہ شہباز محمد کی ترجمہ شدہ کتاب "سوات 1858ء از میجر راورٹی” صفحہ نمبر 53 سے لیا گیا ہے)

……………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔