کاش، ہم اس چائے والے جیسے نہ ہوتے!

کاش، ہم اس چائے والے جیسے نہ ہوتے

سردست ہندوستان کے ایک صوفی بابا کے انگریزی زبان میں دئیے گئے پیغام کا ترجمہ ملاحظہ ہو، جو وہ ایک پروگرام کے ذریعے گفتگو کی شکل میں دیتے ہیں: ’’ہندوستان میں ایک بات مشہور ہے کہ آپ پر وہ لوگ حکمرانی کرتے ہیں، جن کے آپ لائق ہوتے ہیں۔‘‘

پیغام کو آگے بڑھاتے ہوئے بابا جی کہتے ہیں کہ آپ ہندوستان میں کسی بھی چائے کے کھوکھے پر چلے جائیں۔ وہاں چائے تیار کرنے والا جو روزانہ بمشکل سو ڈیڑھ سو کپ چائے ہی تیار کرتا ہوگا، آپ کو بلاجھجھک بتائے گا کہ وزیر اعظم کو ملک کس طرح چلانا چاہئے؟ اس کے علاوہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، اس پر بحث کرنا اس کے لئے مشکل نہیں ہوگا، یہاں تک کہ کرکٹ کے کھیل پر تبصرہ فرماتے ہوئے چائے والا کہے گا کہ ٹنڈولکر اچھا نہیں کھیلتا، اسے دھیرج رکھ کر کھیلنا چاہئے۔ اگر وہ تھوڑا اور ٹیکنکل انداز سے بیٹنگ شروع کرے، تو زیادہ مقبولیت حاصل کرسکے گا۔ مذکورہ چائے والے کے پاس اپنے تمام کسٹمرز کو نصیحت کرنے اور سب کی زندگی سنوارنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ ضرور ہوگا۔ اس کے پاس اگر کوئی گُر نہیں ہے، تو صرف یہ کہ وہ اچھی چائے بنانا نہیں جانتا۔
پیغام کو آگے بڑھاتے ہوئے بابا جی کہتے ہیں کہ آپ ہندوستان میں کسی بھی چائے کے کھوکھے پر چلے جائیں۔ وہاں چائے تیار کرنے والا جو روزانہ بمشکل سو ڈیڑھ سو کپ چائے ہی تیار کرتا ہوگا، آپ کو بلاجھجھک بتائے گا کہ وزیر اعظم کو ملک کس طرح چلانا چاہئے؟ اس کے علاوہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، اس پر بحث کرنا اس کے لئے مشکل نہیں ہوگا، یہاں تک کہ کرکٹ کے کھیل پر تبصرہ فرماتے ہوئے چائے والا کہے گا کہ ٹنڈولکر اچھا نہیں کھیلتا، اسے دھیرج رکھ کر کھیلنا چاہئے۔ اگر وہ تھوڑا اور ٹیکنکل انداز سے بیٹنگ شروع کرے، تو زیادہ مقبولیت حاصل کرسکے گا۔ مذکورہ چائے والے کے پاس اپنے تمام کسٹمرز کو نصیحت کرنے اور سب کی زندگی سنوارنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ ضرور ہوگا۔ اس کے پاس اگر کوئی گُر نہیں ہے، تو صرف یہ کہ وہ اچھی چائے بنانا نہیں جانتا۔

پیغام کو آگے بڑھاتے ہوئے بابا جی کہتے ہیں کہ آپ ہندوستان میں کسی بھی چائے کے کھوکھے پر چلے جائیں۔ وہاں چائے تیار کرنے والا جو روزانہ بمشکل سو ڈیڑھ سو کپ چائے ہی تیار کرتا ہوگا، آپ کو بلاجھجھک بتائے گا کہ وزیر اعظم کو ملک کس طرح چلانا چاہئے؟ اس کے علاوہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، اس پر بحث کرنا اس کے لئے مشکل نہیں ہوگا، یہاں تک کہ کرکٹ کے کھیل پر تبصرہ فرماتے ہوئے چائے والا کہے گا کہ ٹنڈولکر اچھا نہیں کھیلتا، اسے دھیرج رکھ کر کھیلنا چاہئے۔ اگر وہ تھوڑا اور ٹیکنکل انداز سے بیٹنگ شروع کرے، تو زیادہ مقبولیت حاصل کرسکے گا۔ مذکورہ چائے والے کے پاس اپنے تمام کسٹمرز کو نصیحت کرنے اور سب کی زندگی سنوارنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ ضرور ہوگا۔ اس کے پاس اگر کوئی گُر نہیں ہے، تو صرف یہ کہ وہ اچھی چائے بنانا نہیں جانتا۔ ہمارا بھی سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ دوسرے کو کام کیسے کرنا چاہئے؟ اگر کوئی نہیں جانتا، تو صرف یہ کہ اپنا کام کیسے کرنا ہے؟
سوشل میڈیا جہاں بدقسمتی سے سوشل لوگوں کی کمی ہے، پر اکثر مختلف موضوعات پر گرما گرم بحث و مباحثہ روزانہ کے حساب سے ہوتا ہے۔ آپ کو اس ’’روحانی دنیا‘‘ میں ایسے ایسے ’’پیر‘‘ ملیں گے، جن کی ابھی مسیں بھی پوری طرح بھیگی نہ ہوں گی، مگر بحث میں آپ کو چت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا وہ زور لگائیں گے کہ الامان و الحفیظ۔ شروع شروع میں، راقم بھی اس حوالہ سے کافی سرگرم تھا، مگر اب ایسا نہیں ہے۔ کیوں کہ
کچھ عمر کا سورج بھی میرے سر پہ آگیا
کچھ تجربے بھی سوچ کی گہرائی دے گئے

 مہذب اقوام میں بحث کسی نئی چیز کو سیکھنے کے لئے کی جاتی ہے جبکہ ہم جیسی تیسری دنیا کے باسی ایک دوسرے کو ہرانے کے لئے بحث کو خوب طول دیتے ہیں۔ جہاں مدمقابل ہار جاتا ہے، وہاں ایک عجیب سی سرخوشی کا احساس ہوتا ہے۔
مہذب اقوام میں بحث کسی نئی چیز کو سیکھنے کے لئے کی جاتی ہے جبکہ ہم جیسی تیسری دنیا کے باسی ایک دوسرے کو ہرانے کے لئے بحث کو خوب طول دیتے ہیں۔ جہاں مدمقابل ہار جاتا ہے، وہاں ایک عجیب سی سرخوشی کا احساس ہوتا ہے۔

سوشل میڈیائی بحث کا مطلب کچھ اور نہیں ہوتا، بس یہی کہ حضرتِ سحابؔجیت جائے، چاہے اس کی قیمت اُسے اپنے کسی محترم، کسی عزیز یا پھر کسی دیرینہ دوست کی بلی چڑھانے کی شکل میں ہی کیوں ادا نہ کرنا پڑے۔ مہذب اقوام میں بحث کسی نئی چیز کو سیکھنے کے لئے کی جاتی ہے جبکہ ہم جیسی تیسری دنیا کے باسی ایک دوسرے کو ہرانے کے لئے بحث کو خوب طول دیتے ہیں۔ جہاں مدمقابل ہار جاتا ہے، وہاں ایک عجیب سی سرخوشی کا احساس ہوتا ہے۔ میں اول تو کسی بحث کا حصہ بنتا ہی نہیں، لیکن اگر کوئی چیز ناگوار گزرے، تو وہاں اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے میں دیر نہیں لگاتا۔ ورنہ حضرتِ لقمان حکیم کے بقول ’’میں کبھی خاموش رہ کر نہیں پچھتایا، جب بھی پچھتایا، بول کر پچھتایا‘‘ کے مصداق خاموشی میں ہی عافیت جانتا ہوں۔

 پروردگار اس دنیا کو چلانا چاہتا ہے، اس لئے خود اس نے ہر انسان کو دوسرے سے یک سر مختلف پیدا کیا ہے۔ میرے فنگر پرنٹس کروڑوں لوگوں میں سے کسی سے نہیں ملتے۔ میری آنکھوں کا رنگ اربوں کی اس آبادی میں سب سے مختلف ہے۔ اسی طرح اُس خدائے بزرگ و برتر نے مجھے سوچنے کا الگ انداز دیا ہے اور آپ کو الگ۔ اب اگر آپ مجھ سے صرف اس لئے نفرت کرتے ہیں کہ میں آپ جیسا نہیں سوچتا، تو آپ اپنے رویے پر نظر ثانی کیجیے۔
پروردگار اس دنیا کو چلانا چاہتا ہے، اس لئے خود اس نے ہر انسان کو دوسرے سے یک سر مختلف پیدا کیا ہے۔ میرے فنگر پرنٹس کروڑوں لوگوں میں سے کسی سے نہیں ملتے۔ میری آنکھوں کا رنگ اربوں کی اس آبادی میں سب سے مختلف ہے۔ اسی طرح اُس خدائے بزرگ و برتر نے مجھے سوچنے کا الگ انداز دیا ہے اور آپ کو الگ۔ اب اگر آپ مجھ سے صرف اس لئے نفرت کرتے ہیں کہ میں آپ جیسا نہیں سوچتا، تو آپ اپنے رویے پر نظر ثانی کیجیے۔

ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ اختلاف کا حق سب کو ہے کہ یہی قانونِ فطرت ہے۔ پروردگار اس دنیا کو چلانا چاہتا ہے، اس لئے خود اس نے ہر انسان کو دوسرے سے یک سر مختلف پیدا کیا ہے۔ میرے فنگر پرنٹس کروڑوں لوگوں میں سے کسی سے نہیں ملتے۔ میری آنکھوں کا رنگ اربوں کی اس آبادی میں سب سے مختلف ہے۔ اسی طرح اُس خدائے بزرگ و برتر نے مجھے سوچنے کا الگ انداز دیا ہے اور آپ کو الگ۔ اب اگر آپ مجھ سے صرف اس لئے نفرت کرتے ہیں کہ میں آپ جیسا نہیں سوچتا، تو آپ اپنے رویے پر نظر ثانی کیجیے۔ یہ قانونِ فطرت ہے کہ آپ مجھ جیسا بن سکتے ہیں، نہ میں آپ جیسا۔ اگر ہم ایسا کرنے کی کوشش کریں گے، تو ہم اپنی اپنی شخصیت کا جنازہ نکال دیں گے۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ ہم ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا فن سیکھ لیں۔ جب آپ کے ذرا چھوٹے ناپ کے جوتے مجھے پورے نہیں آسکتے، آپ کے ناپ کے کپڑے مجھ پر نہیں جچ سکتے، جب ہماری شکل مختلف، آواز مختلف، بولنے کا فن مختلف، پسند و ناپسند مختلف، محسوس کرنے کا انداز مختلف، چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، جاگنا سونا یہاں تک کہ کھانے پینے کا انداز تک ایک دوسرے سے مختلف ہے، تو پھر ہماری سوچ کس طرح ایک ہوسکتی ہے؟
کاش، ہم اس چائے والے جیسے نہ ہوتے جو سب کچھ جانتا ہے، سوائے اچھی چائے بنانے کے۔