سوات پولیس اور دوسرے سیکورٹی اداروں کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے کچھ روز پہلے ’’بنڑ پولیس سٹیشن، مینگورہ‘‘ پر دستی بم سے حملہ کیا گیا، جس میں ہیڈ کانسٹیبل رحمان اللہ شہید ہوا۔
قارئین، یاد رکھیے گا کہ اگر بروقت آواز نہ اٹھائی گئی، تو یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے اور نہ یہ آخری ہی ہوگا۔
اس واقعے سے ایک طرف اگر عوام میں غم و غصے اور مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے، تو دوسری طرف ڈھیر سارے ایسے سوالات جنم لے چکے ہیں، جو ذہنی خلجان کا باعث بن رہے ہیں۔
یہ سوالات کچھ یوں ہیں کہ یہ دہشت گرد کہاں سے آتے ہیں، ان کے پیچھے کون ہے، سیکورٹی ادارے کیا غفلت کی نیند سورہے ہیں، دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے سوات پولیس کا لائحۂ عمل کیا ہے اور عوام کب تک ڈر اور خوف کے ماحول میں زندگی گزاریں گے؟
یوں تو پاکستان میں دہشت گردی کی اپنی ایک لمبی تاریخ ہے، جس پر دفتر کے دفتر سیاہ کیے جاچکے ہیں، لیکن خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے جھٹکے شدت سے تب محسوس کیے گئے جب امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان میں طالبان نے حکومت سنبھالی۔ پاکستان کے سیاسی حلقوں میں اسے خوب سراہا گیا تھا۔ آج کل کورٹ مارشل کا انتظار کرنے والے جنرل فیض حمید تو باقاعدہ وہاں چائے پینے گئے تھے۔ عمران خان جنھیں کچھ حلقوں میں ’’طالبان خان‘‘ بھی کہا جاتا ہے، وہ تو طالبان کو قبائلی علاقوں میں دوبارہ آباد کرنے پر تلا ہوا تھا۔ اُس نے اپنی طرح سے کوشش بھی کی تھی، جو بری طرح ناکام ہوئی تھی۔ اُس کے ایک ’’سیاسی چیلے‘‘ نے اس ناکام کوشش کو کچھ یوں بیان کیا تھا کہ ’’طالبان تو اپنے رشتہ داروں سے ملنے آئے تھے، اب وہ واپس جارہے ہیں۔‘‘
دہشت گردی کی پچھلے اور اس موجودہ لہر میں یہ مماثلت پائی جاتی ہے کہ تب بھی خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت تھی اور اب بھی انھی کی حکومت ہے، یعنی اس جرم میں پاکستان تحریکِ انصاف کسی حد تک شریک ہے۔
اس کے علاوہ ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ پر تو آپ اور مَیں ڈیوٹی دیتے نہیں، تو جو لوگ ڈیوٹی دیتے ہیں، یہ اُنھی کی کوتاہی ہے اور اُنھی کی کوتاہیوں کی وجہ سے اکثر وہ خود بھی جان سے جاتے ہیں اور معصوم عوام بھی ان کی وجہ سے ڈر اور خوف کے ماحول میں زندگی گزارتے ہیں۔
البتہ کچھ معززین کو ڈالروں کی شکل میں عوام اور حکومتی اداروں کے جوانوں کے خون کے عوض بھرپور معاوضہ بھی ملتا ہے، جو اَب ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی "Reuters” کی ایک رپورٹ مطابق 33.4 بلین ڈالر ریاستِ پاکستان پہلے ہی امریکہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں وصول کرچکی ہے۔ اس جنگ میں کتنے گھر اُجڑ چکے ہیں اور کتنے لوگ لاپتا ہوچکے ہیں، یہ حقائق بھی اب سامنے آرہے ہیں۔ اس جنگ کے بطن سے پشتونوں کی سب سے بڑی تحریک ’’پشتون تحفظ موومنٹ‘‘ نے جنم لیا ہے، جو اَب سیسہ پلائی دیوار کی طرح اس ’’ڈالری جنگ‘‘ کے خلاف کھڑی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے سوات پولیس کے لائحۂ عمل کی بات اگر کی جائے، تو پولیس اب رواں ہفتے میں کسی حد تک متحرک ہوچکی ہے۔ دیر آید درست آید! اب راتوں کو گشت کا شروع ہوچکا ہے، لیکن پولیس کو دن کو بھی آنکھیں کھلی رکھنا پڑیں گی۔ سوات کے عوام پہلے بھی اپنی پولیس کے ساتھ تھے اور اب بھی اس کے ساتھ ہیں۔ تلیگرام، خوازہ خیلہ چوک، میاندم اور بنڑ پولیس چوکی کے ساتھ ہونے والے احتجاج اس کا بین ثبوت ہیں۔
عوام اور پولیس کو مل کر ڈر اور خوف کے اس ماحول کے خلاف کمر کسنا ہوگی اور ریاستی اداروں اور عہدے داروں کو اُن کا قبلہ درست کرنے کے لیے مجبور کرنا ہوگا۔
یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ جب تک ہم آواز نہیں اُٹھائیں گے، تب تک ہم جنازے ہی اُٹھائیں گے۔ شاید آواز اُٹھانے والوں کے جنازے بھی اُٹھائے جائیں، یا شاید آواز اُٹھانے والے ہی اُٹھائے جائیں…… مگر ہمیں امن کی خاطر یہ پُرامن لڑائی لڑنا ہی ہوگی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔