سنہ 2010ء کو جب اُس وقت کی حکومت نے درال دریا کو موڑ کر موجودہ پن بجلی گھر کا منصوبہ بنایا اور اس کو ایشین ترقیاتی بینگ سے پاس کرایا، تو یہاں بحرین میں اس کی سخت مخالفت ہوئی۔ ہم نے ڈٹ کر مزاحمت کی اور اس ڈیزائن میں تبدیلی کا مطالبہ کیا۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
جب ایشین بینک کو اپنی تحقیقی رپورٹ بھیجی، تو اُس نے منصوبے پر از سرِ نو غور کرنے کے لیے ایک اور مشن بھیجا۔ اُس مشن نے یہاں دوبارہ مطالعہ کرکے واپس جاکر اپنی رپورٹ بینک کو دے دی اور بینک نے اس کی بنیاد پر 7 ارب روپے کا فنڈ پاکستان کو دینے سے انکار کردیا۔
اس کے بعد جب حکومت نے کچھ اپنے فنڈز کی مدد سے اس منصوبے پر کام کرنے کی ٹھانی، تو مَیں 39 دیگر درخواست گزاروں کے ساتھ پشاور ہائی کورٹ چلا گیا۔ یہ مسئلہ چوں کہ ماحولیات کے محکمے سے تعلق رکھتا تھا، لہٰذا ہائی کورٹ نے اس کو متعلقہ ماحولیاتی ٹریبونل بھیجا، جو کہ اُس وقت غیر فعال تھا۔ اُس کے تین ممبران میں سے ایک موجود تھا۔ لہٰذا ہمارا کیس اُن کے پاس مہینوں لٹکا رہا۔
یوں ہم ایک بار پھر واپس ہائی کورٹ آگئے اور انھوں نے متعلقہ ماحولیاتی ٹریبونل کی فعالی کا حکم دے کر ہمارا کیس پھر وہاں بھیج دیا۔ اُس وقت اس ٹریبونل میں دو جج شامل ہوئے تھے۔ انھوں نے ہمارا کیس یوں ہی لٹکائے رکھا۔ کئی مہینوں کے بعد ہم دوبارہ ہائی کورٹ چلے گئے، مگر وہاں ایک دو پیشیوں کے بعد پتا چلا کہ ہمارے دو پٹیشنرز کے نام کچھ چیک تھے۔ وہ چیک کسی مشترکہ زمین کے تھے، تاہم اُن کے نام ہونے کی وجہ سے ہماری درخواست کی قوت کم ہوگئی۔ ہائی کورٹ نے کیس سننا چھوڑ دیا۔ یوں ہم بھی مایوس ہوگئے۔
دوسرا مقدمہ گذشتہ سال یعنی 2022ء کو نئی حلقہ بندیوں کے خلاف تھا، جو ہم نے الیکشن کمیشن میں جمع کرایا تھا۔ میرے ساتھ درخواست گزاروں میں ملک نوازش علی بھی شامل تھے۔ ایک اور پٹیشن مروان خان نے جمع کرایا تھا۔ ہماری درخواست میں صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے 3 کو صرف تحصیلِ بحرین تک محدود کرنا تھا، جس کی آبادی 2017ء کی مردم شماری میں 248000 ہزار تھی۔ اس کے ساتھ میاں دم، فتح پور، جختی اور پیا کو ملا کر ایک صوبائی نشست بنائی گئی ہے۔اس نشست کی کل آبادی 320000 بتائی گئی ہے۔
مروان خان کی درخواست میں صوبائی سیٹ کو مزید کم کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ جب سماعت شروع ہوئی، تو ہمارا موقف رقبہ تھا، جب کہ الیکشن کمیشن کا اوّلین زور آبادی پر تھا۔ اُس نے کسی صوبائی سیٹ، جو کسی ضلعے کے اندر ہو، کی آبادی 310000 تا 32000 0مقرر کی تھی۔ ہم کوئی وکیل نہیں کرسکے تھے اور پیروی خود کر رہے تھے۔ وکیل کی فیسیں زیادہ تھیں، لہٰذا خود دلائل دینے کا فیصلہ کیا۔ ایک پیشی ہوئی اور اس میں کافی بدمزگی بھی ہوئی۔ دو رکنی بینچ نے کوئی فیصلہ نہ دیا۔ دوسری پیشی براہِ راست چار رُکنی بنچ، جس کی سربراہی چیف الیکشن کمیشنر کرتے تھے، کے سامنے ہوئی۔ ہماری دلیل کے مطابق ہم اس حلقے سے 72000 کی آبادی کو نکالنا چاہتے تھے، جب کہ الیکشن کمیشن کے پاس صرف 10000 کی گنجایش تھی۔ اس لیے الیکشن کمیشن نے یہ حلقہ اپنی نئی حلقہ بندیوں کے مطابق رکھا۔
تیسرا مقدمہ نومبر 2022ء میں توروالی زبان کو مردم شماری میں شامل نہ کرنے کے خلاف فیڈریشن آف پاکستان یعنی ہم بہ مقابلہ وفاق پاکستان تھے۔ وفاق کی طرف سے ایڈوکیٹ جنرل نے کیس کی پیروی کی اور ہماری طرف سے ایک قابل وکیل نے ہماری نمایندگی کی۔ اس کیس میں گاؤری اور گوجری زبانیں بھی درخواستوں سمیت شامل ہوئیں۔ چار مہینے یہ مقدمہ چلتا رہا۔ ہر مہینے پیشی ہوتی تھی اور آخرِکار 22 مارچ کو پشاور ہائی کورٹ نے وفاق کے خلاف توروالی، گاؤری اور گوجری زبانوں کے حق میں فیصلہ دیا۔
ہم اس علاقے اور اس مٹی میں پلے بڑھے ہیں۔ یہاں کے مسائل سے آگاہ ہیں اور اپنی بساط کے مطابق ان کے حل کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمیں امید ہے اور ہمارے ارادے بھی ہیں کہ باوجود ناکامیوں کے ہم اپنی جد و جہد اس علاقے کے لیے جاری رکھیں گے۔ علاقہ پس ماندہ ہے اور یہاں غربت، بے تعلیمی اور بے روزگاری نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ اس لیے یہاں کے لوگ توروالی، پشتون، گاؤری اور گجر سبھی پس ماندگی میں جی رہے ہیں۔
ہمیں امید ہے کہ آیندہ الیکشن میں یہاں سے جو بندہ جس بھی پارٹی سے منتخب ہوتا ہے، ہم اس کے ساتھ بھی مل کر اس علاقے کے دیرینہ مسائل کو بلاتعصب حل کروانے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔
قارئین! خدا سے دعا ہے کہ رمضان کے صدقے ہمیں صحت اور زندگی دے اور ہمیں ناکامیاں اور کامیابیاں جھیلنے کی طاقت دے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔