پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کسی شہر، گاؤں یا دیہات میں کوئی اچھا سکول، کالج اور ہسپتال ہو یا نہ ہو، مگر دربار اور مزار ضرور ہوں گے۔ یہ آج کل ایک سدا بہار کاروبار ہے۔ سٹیل مِل سے لے کر پی آئی اے تک، ریلوے سے لے کر پی ٹی وی تک ہر ادارہ خسارے میں رہا، مگر مجال ہے جو کبھی مزار یا دربار کا کاروبار ماند پڑا ہو۔ اس بزنس کو زوال نہیں۔
ایک سروے کے مطابق پنجاب کے بعد سب سے زیادہ مزارات آزاد کشمیر میں ہیں۔ صرف کشمیر کے درباروں اور مزارات کی سالانہ آمدنی 159.8 ملین روپے ہے۔ لاہور کے ایک معروف دربار میں صرف جوتے رکھنے کا ٹھیکا 2 کروڑ روپے کے عوض ملتا ہے، جب کہ اِسی مزار کی سال 2018ء میں 25 کروڑ 90 لاکھ روپے کی ریکارڈ آمدنی ہوئی۔ مزار پیر مکی کی سالانہ انکم 48 لاکھ روپے، بی بی پاک دامن 31 لاکھ روپے، دربار شاہ رکن 21 لاکھ روپے، میاں میر 10 لاکھ روپے اور مادھو لال 6 لاکھ روپے ہے۔
ان درباروں اور مزارات میں سے جو محکمۂ اوقاف کے تحت ہیں، وہاں کرپشن کے قصے زبان زدِ عام ہیں۔ مگر ہزاروں دربار اور مزارات ایسے بھی ہیں جو محکمۂ اوقاف کے تحت نہیں ہیں، ان کی انکم "مجاور” (جنہیں پشتو میں منجور کہتے ہیں) اور "مزار مافیا یا دربار مافیا‘‘ کھاتے ہیں۔
گذشتہ سال راولپنڈی کے ایک پیر صاحب کے بیٹے کی شادی میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 1 ارب روپے کی فضول خرچی کی گئی۔ غریب مریدوں کے چندے سے منعقد مہنگے ہوٹل کی تقریب میں سیاست دان، بیوروکریٹ اور صحافی تو تھے ہی، مگر شائد ہی کسی غریب مرید کو وہاں مدعو کیا گیا ہو۔ اس ھوالہ سے وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دِیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
موصوف کی اسلام آباد کے پوش علاقے میں کئی بنگلے، کئی پیٹرول پمپ اور کئی شادی ہال ہیں۔ یہ اثاثے گدی نشینی کی دَین ہیں۔ مریدوں کی خون پسینے کی کمائی سے کھڑا کیا گیا یہ بزنس بھی خوب ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ ان درباروں میں وہ شرمناک کام ہوتے ریکارڈ ہوئے ہیں جن سے انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ان درباروں میں بیٹھے جعلی پیر مذہب کی بدنامی اور شرمندگی کا باعث بن جاتے ہیں۔
قارئین، ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے ایک نجی ٹی وی (نیو ٹی وی) کے ایک پروگرام "پکار” میں ان جیسے درباروں میں سے ایک کے مجاور "کرنٹ بابا” نے انکشاف کیا کہ وہ اب تک 700 سے زائد بے اولاد خواتین کے ساتھ جبراً بدفعلی کرچکا ہے۔ انہی میں ایک دس سالہ بچی بھی شامل تھی، جس کو دو بار اس وحشی درندے نے اپنے ہوس کا نشانہ بنایا تھا۔
"کرنٹ بابا” اپنے استاد کا نام "سرکٹ بابا” بتاتا ہے۔ جب شاگرد کا یہ حال ہو، تو استاد کس درجہ پر فائز ہوگا؟ یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ مذکورہ سادہ لوح خواتین ان جاہل پیروں اور عاملوں کے پاس بے اولادی کا علاج کرانے جاتی تھیں۔ اور کرنٹ بابا ان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا تھا۔ بعد میں ڈرا دھمکا کر خاموش کراتا تھا کہ اگر کسی کو بتایا، تو میرا مؤکل تمہیں جلا کر بھسم کر دے گا۔
اس طرح کے واقعات درباروں اور مزاروں میں تواتر کے ساتھ پیش آتے رہتے ہیں۔ یہ معمولی نوعیت کے جرائم نہیں۔ حکومت کو اس حوالہ سے سنجیدہ اقدام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ مزید عزتیں پامال ہونے سے بچ جائیں۔ ان درباروں میں ڈیرا ڈالے ہوئے پیروں کا بھی احتساب ہونا چاہیے کہ وہ غریبوں سے پیسے بٹور کر کہاں اور کیسے خرچ کرتے ہیں؟

……………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔