سپریم کورٹ آف پاکستان نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے بارے میں پائی جانے والی بحث کو سترہ جنوری کو اپنے تاریخی فیصلے کے ذریعے ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا۔ تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ نے لکھا:
1:۔ گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔
2:۔ گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر کی آئینی حیثیت استصوابِ رائے سے طے کی جائے گی۔
3:۔ استصوابِ رائے کے انعقاد تک حکومتِ پاکستان گلگت بلتستان کو حقوق دینے کی پابند ہے ۔
4:۔ گلگت بلتستان کی عدالتوں کو پاکستان میں آئینی اختیارات حاصل نہیں، تاہم گلگت بلتستان کے عوام سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپنی اعلیٰ عدالتوں (سپریم ایپلٹ کورٹ) کے فیصلوں کے خلاف رجوع کرسکتے ہیں، تاہم گلگت بلتستان کی عدالت وہاں ہونے والی قانون سازی کے حوالے سے نظرِثانی درخواستیں سن سکتی ہے۔
جسٹس ثاقب نثار جاتے جاتے ایک تاریخی دوررس نتائج کا حامل فیصلہ کرگئے۔ خاص طور پر اس فیصلے نے گلگت بلتستان کو آزادکشمیر کے طرز پر سیٹ اَپ دینے کی راہ ہموار کردی۔ علاوہ ازیں اس فیصلے نے ایک بار پھر ریاست جموں و کشمیر کی وحدت اور خاص کر تنازعہ کے حل تک اس کے حصے بکھرے کرنے کی سازشوں یا خواہشات کے غبارے سے بھی ہوا نکال دی۔ گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بنانے کی تحریک بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی۔
اب گلگت بلتستان کو ایک بااختیار حکومت اور اسمبلی ملنے کے نہ صرف امکانات روشن ہوگئے، بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور رضا مندی سے وفاقی وزارت قانون ایک مسودہ بھی تیار کررہی ہے، جسے گلگت بلتستان کی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا، جہاں منتخب ارکانِ اسمبلی اس کی منظوری دیں گے ۔
چند ایک امور چھوڑ کر انہیں ہر مسئلہ پر قانون سازی کا اختیار بھی حاصل ہوگا۔ اس طرح گلگت بلتستان کو بااختیار بنانے کا موجودہ مرحلے نہ صرف مکمل ہوجائے گا، بلکہ ان کا احساسِ محرومی بھی ختم ہوجائے گا۔ وفاقی حکومت نے نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی لیڈرشپ سے بھی مشاورت کی اور ان کی بھی رضامندی حاصل کرنے بعد گلگت بلتستان کو آزادکشمیر کے طرز پر سیٹ اَپ دینے کا فیصلہ کیا۔
چناں چہ آزادکشمیر اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے پہلی بار پھرپور طریقے سے گلگت بلتستان کو بااختیار بنانے اور حقوق دینے کے عمل کی حمایت کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسمبلی نے قرارداد میں گلگت بلتستان کی محرومیوں اور اپنی لیڈر شپ کی طرف سے انہیں حقوق دلانے میں قابلِ ذکر کردار ادا نہ کرسکنے پر شرمندگی کا اظہار کیا۔
آزاد کشمیر سے اس طرح کے ردِ عمل نے عمومی طور پر گلگت بلتستان کو ایک مثبت پیغام دیا۔ وفاقی حکومت میں ایسے عناصر کی کمی نہیں جو گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے نہ صرف پرچارک ہیں بلکہ اگر انہیں موقع ملے، تو آزادکشمیر کو بھی قومی اسمبلی میں تین یاچار نشستیں دے کر کشمیریوں اور اہلِ پاکستان کی 70 برسوں کی قربانیوں پر پانی پھیر دیا۔
مک مکاؤ کے علمبردار تھک چکے ہیں، یاکشمیر میں جاری مزاحمتی کی گہرائی اور رائے عامہ کے جذبات سے آشنا نہیں۔ کارگل کی جنگ کے بعد گلگت بلتستان کو بھارت کے ادارے بھی خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔ انہیں بخوبی احساس ہے کہ گلگت بلتستان کے داخلی معاملات کو اچھالنا اسلام آباد کو کس قدر ناگوار گزرتا ہے۔
عالمی فورمز پر ان علاقوں کے عوام کے حقوق اور محرمیوں کا اکثرذکرکیا جاتا ہے، تاکہ پاکستانی سفارتکاروں کو زچ کیا جاسکے۔ دہلی میں ایسے افراد کی کمی نہیں جن کا خیال ہے کہ اگر ضروری لاجسٹکس سہولیات فراہم کی جائیں، تو گلگت بلتستان میں اسلام آباد کے خلاف طوفان اٹھایا جاسکتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری پر کام کیا شروع ہوا کہ پاکستان مخالف ممالک اور ان کے اداروں کی آشیر باد سے دہلی، برلن، جینوا، واشنگٹن اور برسلزمیں گلگت بلتستان پر اکثر سیمیناز ہوتے ہیں۔
گلگت بلتستان کی چند ایک منحرف شخصیات بھی ان سیمینارز میں نہ صرف شریک ہوتی ہیں، بلکہ خوب ہرزہ سرائی کرتی ہیں۔
سیاسی، سفارتی اور ذرائع ابلاغ کی سطح پر ان علاقوں پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ اب عالمی سطح پر بھی اس خطے کے بارے میں معلومات جمع کرنے اور علمی اور ذرائع ابلاغ کی سطح پر متحرک لوگوں کے ساتھ رابطے استوار کرنے کی غرض سے جموں یونیورسٹی کے سنٹر فار سٹرٹیجک اینڈ ریجنل اسٹیڈیز نے کافی عرصہ سے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر ایک پروجیکٹ شروع کر رکھا ہے جو Across LoC کے عنوان سے ایک پندرہ روزہ ڈائجسٹ تیار کرکے تقسیم کرتا ہے۔
دہلی میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اسٹیڈیز اینڈ اینالیسیز بھی ایک الیکٹرانک نیوز لیٹر نکالتا ہے جس میں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان بارے چھپنے والے مضامین، اخباری تراشوں کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان دونوں خطوں میں جمہوریت ہے، اورنہ عوام کو بنیادی انسانی حقوق تک رسائی حاصل ہے ۔
واشنگٹن اور اب فرانس کے دارالحکومت پیرس میں کچھ افراد کو استعمال کیا جا رہا ہے جو ان دونوں خطوں کے اداروں، سیاست دانوں، میڈیا اور دیگراداروں کو کٹھ پتلی کے طورپر پروجیکٹ کرتے ہیں، تاکہ رائے عامہ کے دل ودماغ میں نفرت کا زہر گھولا جاسکے ۔یہ خواتین وحضرات مہاراجہ ہری سنگھ کے دورِ حکومت کو سنہری عہد قراردیتے ہیں اور عوام کو باور کراتے ہیں کہ اس وقت جموں وکشمیر کے دونوں حصوں اور گلگت بلتستان میں دودھ وشہد کی نہریں بہتی تھیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ آزادی کے بعد ہماری شناخت بھی متاثر ہوئی اور ترقی کا پہیہ جام ہو گیا۔
اگلے چند ماہ میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ایک اعلیٰ سطحی وفد کی آمد متوقع ہے۔ حکومتِ پاکستان نے انہیں غیر مشروط طور پر خطے کا دورہ کر کے انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ لینے کی اجازت دی۔ اس پس منظر میں پاکستان مخالف علاقائی طاقتیں خطے میں کشیدہ ماحول پیدا کرنے کی غرض سے بھاری سرمایاکاری کررہی ہیں، تاکہ انسانی حقوق کونسل کے وفد کے سامنے شکایات کا انبار لگایاجاسکے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ تیزی کے ساتھ گلگت بلتستان کو بااختیاربنانے کا عمل مکمل کرے۔ اقوامِ متحدہ کی کشمیر پر آنے والی حالیہ رپورٹ میں آزاد کشمیر کے جو آئینی سقم بیان کیے گئے تھے، ان میں زیادہ ترکا تیرہویں ترمیم کے ذریعے ازالہ کر دیا گیا۔ اب رہ گیا مسئلہ گلگت بلتستان کا، ایک بار اسے بااختیار قانون ساز اسمبلی اور آئین مل گیا، تو وہاں کے لوگوں کی شکایات اور محرومیوں کا بھی ازالہ ہوجائیگا، ان شاء اللہ!

……………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔