خیبر پختون خواہ کے محکمۂ تعلیم نے سکول سے باہر بچوں کے متعلق ایک سروے رپورٹ شائع کی ہے۔ سروے میں تریالیس لاکھ تیئس ہزار گھرانوں کا سروے کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تیئس فیصد بچے سکول سے باہر ہیں۔ اس وقت اٹھتر لاکھ اکتیس ہزار بچے سکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں جب کہ اٹھارہ لاکھ بچے کسی نہ کسی وجہ سے سکول چھوڑ گئے ہیں۔ ان میں سے گیارہ لاکھ اٹھاسی ہزار لڑکیاں اور چھے لاکھ بارہ ہزار لڑکے شامل ہیں۔ گیارہ لاکھ باون ہزار بچے کبھی سکول ہی نہیں گئے۔ مجموعی طور پر صوبے کا ہر چوتھا بچہ سکول سے باہر ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پانچ سے سترہ سال تک کے بچے سکول سے باہر ہیں۔
اس رپورٹ کی تیاری پر بائیس کروڑ ستر لاکھ روپے کی لاگت آئی ہے۔ سروے رپورٹ کافی تشویشناک ہے۔ اس کی ایک وجہ تعلیم میں عدم دلچسپی ہے۔ تعلیمی معیار کو اس حد تک لے جایا گیا ہے کہ بچے اس کو تسلیم کرنے سے کتراتے ہیں۔ سرکاری سکولوں کے طلبہ پر بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ انہیں آٹھ مضامین کے بجائے گیارہ مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ پہلے سے ہی سرکاری سکولوں کے طلبہ کا تعلیمی معیار کمزور تھا۔ اب مزید بوجھ برداشت کرنے سے وہ قاصر ہیں۔ اس طرح بچوں میں دلچسپی کافی حد تک کم ہوگئی ہے۔والدین کی طرف سے رہنمائی بھی فراہم نہیں ہوتی۔ سالہا سال بچے کی کارکردگی دیکھنا تو دور کی بات، سکول آنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ بچوں میں تعلیمی دلچسپی پیدا کرنے کے لیے جس طرح اساتذہ کا کردار ہے، بالکل اسی طرح والدین کا بھی ہے۔

صوبائی محکمۂ تعلیم کے مطابق اس وقت دس ہزار سکول مزید تعمیر کرنے ہوں گے۔ (Photo: Dawn)

دوسری اہم وجہ غربت ہے۔ غریب گھرانوں کا چولہا جلنے کے لیے بچوں کو کام پر بھیج دیا جاتا ہے۔ اکثر بچے سکول کے بعد ورکشاپوں میں کام کرتے ہیں۔ بعد میں سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ چھٹیوں میں اکثریت بچے کام کھاج میں مصروف ہوتے ہیں۔ آئی ایم یو کے مطابق مارچ دو ہزار اٹھارہ میں سرکاری سکولوں میں طلبہ کی حاضری ستاسی فیصد تھی۔ جب کہ اپریل میں یہ تعداد کم ہوکر ستتر فیصد ہوگئی ہے۔ دیہاتوں میں پچاس فیصد تک طلبہ سکولوں سے غیر حاضر ہوتے ہیں۔ اس وقت گندم کی کٹائی کا موسم ہے۔ مزدوروں میں زیادہ تر تعداد سترہ سال کم بچوں کی ہے۔ زیادہ تر بچے والدین کے ساتھ سال کے اس موسم میں گندم کی کٹائی میں مصروف ہوتے ہیں۔ والدین کو ذمہ دار ٹھہرایا بھی نہیں جا سکتا، کیوں کہ غربت میں گھرے خاندانوں کی امید یہی بچے ہوتے ہیں۔
سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد میں زیادہ لڑکیاں ہیں۔ بعض جگہوں پر سکول آبادی سے دور ہوتے ہیں۔ وہاں تک لڑکیوں کا آنا جانا مشکل ہوتا ہے۔ پرائمری سکول ہر یونین کونسل میں آٹھ سے دس تک ہوتے ہیں، لیکن ایک یونین کونسل میں مڈل اور ہائی سکول اکثر ایک ہوتے ہیں، جس وجہ سے طلبہ کو کافی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
صوبائی محکمۂ تعلیم کے مطابق اس وقت دس ہزار سکول مزید تعمیر کرنے ہوں گے، جس کے لیے چار سو چوالیس ارب روپے درکار ہیں، لیکن خیبر پختونخواہ حکومت نے ٹیکسٹ بک بورڈ فنڈ، تعلیمی ترقیاتی فنڈ اور تعلیمی اداروں کے ملازمین کے بینولنٹ فنڈ کو ’’بس ریپڈ ٹرانزٹ‘‘ پر خرچ کر دیا ہے۔ مزید سرکاری طور پر مفت کتب کی فراہمی میں ایک طالب علم پر چھے ہزار روپے کا خرچہ آتا ہے۔ جب کہ فی طالب علم کتب کی قیمت زیادہ سے زیادہ دوہزار روپے ہے۔ باقی چار ہزار روپے ٹھیکیدار اور ٹینڈر مافیا کی نذر ہوجاتے ہیں۔ یہ عمل تعلیمی بجٹ پر کافی اثرانداز ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں مزید تعلیمی اداروں کی تعمیر ناممکن ہے۔ موجودہ حکومت نے سب سے زیادہ سکول بند کر دیے ہیں، جس میں طلبہ کی تعداد کم تھی۔ ان طلبہ کو دوسرے سکول میں منتقل کردیا گیا ہے، جو کہ ان کے گھروں سے کافی دور ہیں۔ کم طلبہ والے سکولوں کو بند کرنا ٹھیک ہے، لیکن ان سکولوں سے منتقل تمام طلبہ کیا واقعی دوسرے سکول جاتے ہیں؟ یہ رپورٹ ابھی تک منظر عام پر نہیں لائی جا سکی۔
اگر تعلیم کو عام کرنا ہے، تو بچوں میں عموماً اور والدین میں خصوصاً تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنا ہوگا۔ غربت، عدم دلچسپی اور سکولوں کے دور ہونے جیسے مسائل کو حل کرنا ہوگا۔

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔