سنا ہے اُس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
کراکال گاؤں کے قریب ایک چلبل کیلاشی ناری چھمک چھلو چال چلتی، مٹکتی، چٹکتی حنیف زاہد کی نگاہوں میں کھٹکتی کھڑی دِکھی، تو حنیف زاہد کی ’’رگِ مردانہ‘‘ پھڑک اُٹھی۔ مرد کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ کبھی ایک پر نہیں ٹکتا۔ چاہے اُس نے کتنی ہی گنگا کیوں نہ نہائی ہوں، کتنے ہی حج کیے ہوں، کتنی بائبل پڑھی ہوں، یا چاہے وہ کتنا ہی گرنتھی کیوں نہ ہو:
رنگ و رَس کی ہوس اور بس
مسئلہ دسترس اور بس
خاص طور 23، 24 سال کی عمر میں اور یا پھر 40، 42 سال کی عمر میں اس کے ذہن میں دوسری شادی کر گزرنے کا ایک شگوفہ ضرور کھلتا ہے۔ ایک ایسی کرن ضرور پیدا ہوتی ہے کہ وہ دوسری شادی کا ضرور سوچتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ کچھ مرد ایسا کر گزرتے ہیں اور کچھ سوچتے رہ جاتے ہیں۔ حنیف زاہد بھی شاید ان دنوں 40، 42 کے نرغے میں ہے۔
دِل میں اِک لہر سی اُٹھی ہے اَبھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے اَبھی
اُس کے دل کے نہاں خانوں میں بھی اِک لہر اُٹھی تھی شاید۔ اُس کی سوچوں میں بھی شاید کوئی آس کا پنچھی اُڑنے کو بے قرار ہوا تھا۔ اُس کے جی میں بھی شاید کوئی کلی مٹکائی تھی۔ اُس کی حالتِ زار دیکھ کر مَیں نے اُسے کہا کہ کیلاشی اپنے علاوہ دوسری قومیتوں میں شادی کی اجازت نہیں دیتے۔ ہاں، مگر وہ کہتے ہیں نا کہ ’’کڑی منڈا راضی، تے کی کرے گا قاضی!‘‘
جب لڑکا اور لڑکی ایک دوجے سے شادی کرنے پر رضامند ہوں، تو ہمارا قاضی تو چھوڑو، اُن کا قاضی بھی راضی ہو جاتا ہے…… مگر اس کے لیے ایک شرط ہے کہ تم کچھ عرصہ یہاں قیام کرو۔ اُن سے راہ و رسم بڑھاؤ۔ اُن کا پانی بھرو۔ اُنھیں اپنے ’’پٹ‘‘ کی مچھلی کھلاؤ۔ تب کہیں جا کے ہو گا چمن میں دیدہ ور پیدا۔
کیلاشیوں میں شادی کرنے کے تین طریقے رائج ہیں۔
نمبر ون:۔ والدین لڑکے اور لڑکی سے پوچھ کر رشتہ طے کرتے ہیں۔
نمبر ٹو:۔ لڑکا یا لڑکی اپنے گھر والوں کو اپنی پسند کا بتا دیتے ہیں اور پھر اُن کی پسند کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان کی شادی کر دی جاتی ہے۔
نمبر تھری:۔ بڑا دل چسپ ہے، اور وہ یہ ہے کہ ان کے کسی سالانہ تہوار کے موقع پر یا عام دنوں میں لڑکا لڑکی کو اپنے ساتھ بھگاکر اپنے گھر لے جاتا ہے۔ پھر کچھ دنوں بعد لڑکے کے والدین لڑکی والوں کے گھر شادی کا پیغام بھیجتے ہیں۔ پھر باہم صلاح و مشورے کے بعد ان کی باقاعدہ شادی کر دی جاتی ہے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ قاضی(گڈیراک) یا گاؤں کا کوئی بزرگ لڑکے لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر ایک دوسرے کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ بکری یا بکریاں ذبح کی جاتی ہیں اور سب مل کر ان کا گوشت پکا کر کھاتے ہیں۔ اس طرح ان دونوں کی شادی ہوجاتی ہے۔ ہاں، مگر نوبیاہتا شادی شدہ جوڑا یہ گوشت نہیں کھاسکتا ہے۔ شادی کی بقیہ رسمیں بعد میں ادا کی جاتی ہیں۔ جن میں دھوم دھڑکا، ڈھول ڈھمکا اور ڈانس ہوتا ہے۔ انگور چوں کہ ان کے نزدیک سب سے مقدس پھل ہے۔ وہ اس مقدس پھل سے دیسی شراب تیار کرتے ہیں، اور پھر ایسے موقعوں پر باہم مل جل کر رج کے پیتے ہیں، یا پھر وہ اپنے تہواروں کے موقع پر بھی اسے جی بھر کے پیتے ہیں۔
شیخ کہتا ہے میں نہیں پیتا
ہاں وہ انگور خوب کھاتا ہے
فرق اتنا ہے اشکؔ دونوں میں
ہم تو پیتے ہیں وہ چباتا ہے
ان کے کسی تہوار پر، کسی شادی یا کسی بھی اور خوشی کے موقع پر بکریوں کا گوشت اور انگور پانی خوب کھائے پیے جاتے ہیں۔ مَیں نے حنیف سے کہا کہ اگر آپ ہماری بھابھی سے جان کی امان پا کر یہ اتنا بڑا رسک لے سکتے ہیں، تو کر گزریں۔ بس اتنا سننا تھا کہ اس کے ماتھے پر نکے نکے پسینے تریلیوں کی صورت میں آکر اس کا ماتھا بگھونے لگے، مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ سانپ مر بھی جائے، تو اس کا زہر نہیں مرتا ہے۔ وہ مر کر کافی دیر تک ’’اسل وٹے پن‘‘ کر اپنی ’’وس‘‘ گھولتا رہتا ہے۔ حنیف نے چپ کرکے کراَکال گاؤں کی راہ لی، اور مَیں کراکال گاؤں کے باہر بنی ایک جیولری کی شاپ کے اندر جا گھسا۔
یہ جیولری کی شاپ میری دیکھی بھالی تھی۔ اس شاپ کو ایک بوڑھی عورت چلاتی تھی، جسے سب دادی کَہ کر پکارا کرتے تھے…… مگر آج دادی کی بہ جائے یہاں پر ایک مرد بیٹھا دُکان چلا رہا تھا۔ یہ دُکان لکڑ سے بنے ایک کھوکھے پر مشتمل ہوا کرتی تھی، مگر اَب پہلے کی نسبت اس دُکان کی زیادہ لش پش تھی، اور یہ سامان سے بھی زیادہ بھری بھری تھی۔ اس کے علاوہ بھی کراکال کے باہر مزید دُکانیں بن چکی ہیں۔ ورنہ تو پہلے یہاں دادی کی دکان کے ساتھ ایک پکوڑا شاپ ہوا کرتی تھی، جس کے سامنے ’’بشالی‘‘ یا ’’بشالینی‘‘ کی عمارت تھی۔ عمارت تو خیر اَب بھی ہے، مگر اب ایک عارضی پکوڑا شاپ کی بہ جائے باقاعدہ مختلف قسم کی شاپس بن گئی ہیں۔
مجھے چوں کہ دادی والی دُکان سے دل چسپی زیادہ تھی۔ اس لیے میں اس دُکان کے اندر جا گھسا۔ دکان دار سمجھا کہ شاید کوئی گاہک آیا ہے۔ وہ فوراً اُٹھ کر میرے پاس آ گیا۔ اسی دوران میں ہمارے دوست ریاض شون کے علاوہ ایک دو دوسرے دوست بھی دُکان کے اندر آ گئے۔ بہ ظاہر معمولی نظر آنے والا جیولری کا سامان بھی یہاں پر بہت مہنگا تھا، جس کی قیمت ہزاروں روپے بتائی جا رہی تھی۔ دکان کے اندر داخل ہونے کا میرا مقصد شاپنگ نہیں، بل کہ اس دُکان دار سے تھوڑی گپ شپ لگانا تھا۔ باتوں باتوں میں، مَیں نے اُس سے دادی کے متعلق پوچھا، تو دُکان دار نے مجھے اپنے پاس بلا کر بیٹھ جانے کو کہا۔ خیر، مَیں اس کے قریب پڑی ایک دوسری کرسی پر بیٹھ گیا۔ دُکان دار کہنے لگا کہ جس عورت کی آپ بات کر رہے ہیں، وہ فوت ہوگئی ہے۔ بائی چانس میرے موبائل میں کراکال گاؤں کی ایک عورت کی پرانی تصویر پڑی تھی۔ مَیں نے اسے وہ تصویر دکھائی۔ تصویر دیکھتے ہی وہ چونک اُٹھا اور پھر گھور کر میری طرف دیکھنے لگا۔ کہنے لگا کہ آپ نے یہ تصویر کب کھینچی؟ مَیں نے کہا کہ سنہ تو مجھے اچھی طرح یاد نہیں، مَیں 1997-98ء سے لے کر کئی بار یہاں آ چکا ہوں۔ دُکان دار کہنے لگا کہ یہ تصویر مجھے سنہ 2007-08ء کی لگتی ہے، اور یہ تصویر ’’بادشاہ‘‘ یا ’’باشارہ خان‘‘ کی والدہ کی ہے۔ وہ ابھی زندہ ہے۔ تھوڑا اُوپر جا کر اس کا گھر ہے۔ آپ چاہیں تو جاکر اسے مل سکتے ہیں۔ باشارہ خاں یہاں کی جانی پہچانی اور خاصی اثر و رسوخ والی شخصیت ہیں۔ جنرل پرویز مشرف صاحب کے ساتھ اُن کی دوستی تھی۔
اس دُکان دار نے مجھے چائے وائے پینے کی آفر بھی کی۔ مجھے وہاں بیٹھا دیکھ کر اتنی دیر تک برادر نواز صاحب بھی میرے پاس تشریف لے آئے اور مجھے اپنے ساتھ کراکال گاؤں کے اندر جا کر گھومنے کے لیے کہا۔ نواز صاحب کے ساتھ عدنان، نومی، جہان خان اور زبیر صاحب بھی تھے۔ مَیں نے معذرت چاہی، مگر نواز صاحب میرا ہاتھ تھامے مجھے تقریباً گھسیٹ کر گاؤں کے اندر جاتی تنگ گلی میں لے گھسے۔
دوسرے کیلاشی گاؤں کی طرح کراکال گاؤں بھی پہاڑ کے ساتھ ساتھ اُوپر کی جانب اُٹھتا چلا جاتا ہے۔ نیچے والے گھر کی چھت اوپر والے گھر کے صحن کا کام دیتی ہے۔ ایک کے اوپر دوسرا، پھر دوسرے کے اوپر تیسرا گھر۔ اس طرح گھر کے اوپر گھر بنتا پہاڑ کے ساتھ اوپر کی طرف اُٹھتا چلا جاتا ہے۔ عین اسی طرح سے جس طرح وادئی کاغان میں ناران سے تھوڑا آگے جاتی سڑک کے دوسرے پار دم دمہ کا گاؤں نظر آتا ہے۔ مَیں جب بھی ناران جاتا تھا۔ ناران سے یہ گاؤں کچھ زیادہ فاصلے پر نہیں ہے۔ میری روٹین ہوتی تھی کہ مَیں صبح اُٹھ کر اس گاؤں کو دیکھنے ناران سے دم دمہ تک پیدل چل کر ضرور جایا کرتا تھا۔
کراکال گاؤں کے اندر داخل ہوتے ہی دائیں بائیں دونوں طرف کیلاشیوں کی دُکانیں ہیں، جن پر کیلاشی جیولری، انٹیکس، کیلاشیوں کے مخصوص لباس، سوشوت (سر پر پہننے والا پہناوہ) وغیرہ رکھے گئے ہیں۔ ان دُکانوں کو کیلاشی عورتیں چلا رہی ہوتی ہیں۔ دُکانوں کے اندر جانے والے گاہک دُکان کے اندر موجود سامان خریدنے کی بہ جائے زیادہ تر ان کیلاشی عورتوں کو دیکھنے جاتے ہیں۔ مرد کا کسی عورت کی طرف میلان ایک فطری سی بات ہے، مگر چوں کہ یہ عورتیں اپنا روایتی لباس پہنے دُکان کے اندر ان کے سامنے کھڑی انھیں نظر آتی ہیں۔ وہ دُکان کے اندر سجے سامان سے زیادہ ان عورتوں کو دیکھتے ہیں۔ شاید ان کے لیے یہ ایک نئی چیز ہوتی ہے۔ ان کے شوخ پیرہن، سر پہ سجا تاج، سج دھج اور ان کا بلا جھجک بے باکانہ اندازِ تخاطب انھیں اپنی طرف کھینچتا ہے۔ وہ سامان دیکھتے بھی ہیں، تو ساتھ ساتھ کن اکھیوں سے انھی کی طرف تکتے رہتے ہیں اور پھر تھوڑی دیر بعد بہ طور یادگار ہزار دو ہزار کی خریداری کرلیتے ہیں۔ اس طرح وہ بھی خوش اور دُکان دار، بل کہ دکان دارنی بھی خوش ہو جاتی ہے۔
چوں کہ یہ کلچر اور ایسی رہایش گاہیں ملک کے مختلف علاقوں سے جانے والوں کے لیے اکثر و بیشتر بالکل ایک نئی چیز ہوتی ہیں، بل کہ آپ اسے ان کے لیے ایک عجوبہ بھی کَہ سکتے ہیں، تو وہ نہ صرف انھیں گھور گھور کر دیکھتے ہیں، بل کہ وہ ان کی تصاویر یا ویڈیوز بھی بنانے کی کوشش کرتے ہیں، بل کہ کئی لوگ تو ان کے گھروں میں بھی گھس جانے کی کوشش کرتے ہیں، جس کا یہ لوگ برا مناتے ہیں۔ ایسا کرنا ان کا حق بھی ہے اور ٹورسٹس کو ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ پہلے پہل ایسے حالات نہیں ہوا کرتے تھے۔ انھی کی کمیونٹی کے کچھ لوگ گاؤں کے باہر کھڑے مل جاتے تھے، جو تھوڑے سے عوضانے کے بدلے ٹورسٹس کو گاؤں کے اندر گھما لاتے تھے۔ وہ گائیڈ انھیں ایک مخصوص حد میں رِہ کر گاؤں کے اندر بنے ایک خاص رستے سے لے کر چلتا تھا۔ وہ ہمیں لوگوں کے گھروں کے اندر تک لے جا کر سارا گھر گھما دیتا تھا۔ ہم ان کی تصاویر بھی بنا لیتے تھے اور وہ کبھی ان باتوں کا برا بھی نہیں مانتے تھے۔ اس وقت ان علاقوں کی طرف ٹورسٹ بھی کم کم جایا کرتے تھے۔ جو ٹورسٹس جاتے بھی تھے، تو وہ منجھے ہوئے ٹورسٹ ہوتے تھے۔ ٹورازم کا رجحان بڑھا، تو پھر آہستہ آہستہ یہاں پر بھی ٹورسٹوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ ان ٹورسٹس میں ہر طرح کے ٹورسٹس شامل ہوتے گئے، جن میں کچھ ایسے لوگ بھی وہاں پہنچ گئے، جو ٹورازم کی الف بے سے بھی نابلد تھے۔ انھوں نے وہاں جاکر کچھ اُلٹی سیدھی حرکتیں کرنا شروع کر دیں۔ خاص طور پر کیلاشی نوجوان لڑکیوں کو دیکھ کر آوازیں کسنا، ان سے بات کرنے کی کوشش کرنا، ان کی تصویر یا ویڈیو بنانے کی کوشش کرنا وغیرہ۔
ہمارے ہاں کیلاشیوں کے متعلق ایک غلط قسم کا تصور وجود پاگیا تھا کہ کیلاشی کھلے ڈھلے اور آزاد منش لوگ ہوتے ہیں اور وہاں پر ان کے ہاں کسی طرح کی کوئی روک ٹوک نہیں۔ کچھ شکاری لوگ وہاں آسان شکار کی آس لیے جاتے ہیں۔ حالاں کہ ایسا بالکل بھی نہیں، بل کہ حالات اس کے برعکس ہیں۔ ان کا ایک پورا کمیونٹی سسٹم اور رسم و رواج ہیں۔ ان کی لڑکیاں اور عورتیں چاہے جتنے بھی رنگ بہ رنگے کپڑے پہن لیں، وہ پورے کپڑے زیبِ تن کرتی ہیں، جس میں سے سوائے چہرے اور ہاتھوں کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہیں آتا۔ ان کے جسم شرم و حیا کا پیکر بن کے سات پردوں کے اندر بند نظر آتے ہیں۔
زمانے کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اَب یہ لوگ بھی کمرشل ہوچکے ہیں۔ ان کا چھوٹا بچہ بھی اب آپ کے ساتھ تصویر بنوانے کے پیسے طلب کرتا ہے، چہ جائیکہ ان کی جوان عورتیں۔ اول تو اب ان کی جوان لڑکیاں زیادہ تر گھر سے نہیں نکلتیں۔ خاص طور پر کراکال گاؤں کے رہنے والے لوگ تو زیادہ تر دن کے اوقات میں اپنے گھروں میں بند رہتے ہیں، یا کم از کم اس وقت تک جب یہاں ٹورسٹ کی بھرمار رہتی ہے۔ وہ اس لیے کہ باقی گاؤں کے مقابلے میں چوں کہ کراکال گاؤں عین سڑک کنارے واقع ہے۔ اس کی بشالی کی عمارت بھی برلبِ سڑک گاؤں کے دوسری جانب موجود ہے۔ ساتھ ہی دریا پار ان کا قدیم قبرستان بھی ہے، جس کے اندر اَب تک بہت سے تابوت پڑے نظر آتے ہیں، جن میں سے ان کے مردوں کی ہڈیاں بھی پڑی نظر آتی ہیں۔ پھر دوسری وادیوں کی نسبت وادئی بمبوریت میں ٹورسٹ بھی زیادہ جاتے ہیں۔ کیلاشیوں کی تینوں وادیوں میں سے یہ علاقہ سب سے زیادہ وزٹ کیا جاتا ہے۔ اس طرح کراکال کے اِرد گرد والا یہ سارا علاقہ ایک مرکز کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ یہاں اِرد گرد بہت سے نئے ہوٹل بن گئے ہیں، بل کہ اَب تو قبرستان کی طرف جاتے رستے پر دریا سے پہلے تک ہوٹل ہی ہوٹل بن چکے ہیں۔ انھی ہوٹلوں میں سے ایک ہوٹل پر ہم نے یہاں کی مشہور اخروٹی روٹی بھی بنوا کر کھائی تھی۔ ایک ایسی اور خاص روٹی بھی بنا کرتی تھی جسے ’’موساؤ‘‘ کہتے تھے، جو گوشت کو سکھا کر گندم کے آٹے میں مکس کر کے بنائی جاتی تھی، جسے وہاں کے مقامی لوگ ہی کھاتے ہیں، جو زیادہ تر ان کے مذہبی تہواروں پر بنائی جاتی ہے۔
ان کے ہاں کی جانے والی زیادہ تر شادیاں کام یاب ہوتی ہیں۔ کیوں کہ یہ شادیاں اکثر لڑکے لڑکی کی مرضی سے کی جاتی ہیں۔ اس لیے ان کے ہاں طلاق کا ریشو بہت کم ہے۔ ہاں، اگر کوئی لڑکی طلاق لینا چاہتی ہو، تو وہ اپنے خاوند کو چھوڑ کر چپ کرکے اپنی مرضی کے کسی دوسرے شخص کے ساتھ اس کے گھر چلی جاتی ہے۔ بدلے میں اس شخص کو اس عورت کے پرانے شوہر کو اس کی شادی کے وقت دیے جانے والے تحائف یا اس شادی پر آنے والے خرچ کا دوگنا ادا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے ہاں چچا زاد بھائی یا بہن، سگے بہن بھائی تصور کیے جاتے ہیں اور خاندان میں چھے پشتوں تک شادی کی اجازت بھی نہیں ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔