مولانا عبدالمالک کی کتاب ’’شاہانِ گجر‘‘ کے مطابق جن لوگوں نے گجر کے معنی ’’گاؤ چر‘‘ کیا ہے، وہ کسی صورت میں مستند نہیں ہے۔ (کتاب کا صفحہ نمبر 48)
وہ مزید کہتے ہیں: ’’اگر جانوروں کی پرورش کے لحاظ سے گجر کا نام ہندوستان میں وضع ہوتا، تو چرواہا، گوالا اور گڈریا ہوتا۔ کیوں کہ ہندوستان میں یہ الفاظ قدیم سے موجود تھے۔ (صفحہ نمبر، 48)
مگر یہاں سوال پیشے کا ہے کہ یہ لوگ کیا کرتے آئے ہیں، یعنی ان کی اکثریت کا پیشہ کیا رہا ہے؟ کتاب ’’سوات سماجی جغرافیہ‘‘ کے مصنفین لکھتے ہیں: ’’گجر زیادہ تر گائے اور بھینس پالتے ہیں۔ ڈھلوانوں پر رہتے ہیں۔ گزارے کے لیے مویشیوں کی فروخت پر انحصار کرتے ہیں اور جب مستقل رہائش اختیار کرتے ہیں، تو بھینسوں کا دودھ بیچنے پر انحصار کرتے ہیں۔ (صفحہ نمبر 54)
تو پھر، کیا گجر کا شت کار ہیں؟ اس بارے میں مولوی عبدالمالک کا دعوا ہے: ’’انتظامی آبادی و کاشت تو گجروں کا خاصہ طبعی ہے۔ پہاڑوں کے ڈھلوانوں میں چھوٹے چھوٹے کھیت بنا کر کاشت کرنا گجروں کی ایجاد ہے۔‘‘
لیکن دوسری طرف چودھری اکبر خان لکھتے ہیں:گجر زراعت میں جاٹوں جیسی شہرت نہیں رکھتے۔
دوسری طرف گوگل مزید یہ فرق اس طرح واضح کرتا ہے:A Gujjar or Gujar is one who keeps tends, rears sheep, cows and buffalo for milk. They are located in along the Shavaliks and parts of Haryana up and in Rajasthan. A Jatt especially in Punjab one who owns a little land and is engaged with agriculture.”
یعنی گجر وہ شخص ہوتا ہے جو بھیڑ بکریاں چراتے ہیں، اور دودھ کی خاطر گائے بھینسوں کی نگرانی اور دیکھ بھال کرتے ہیں۔ جب کہ ایک جاٹ زمین کاشت کرتے ہیں اور زراعت میں مصروف رہتے ہیں۔
جانور پالنا اگر گجروں کا پیشہ نہیں، تو کیا تجارت ان کا پیشہ ہے؟ اس بابت مولوی عبدالمالک لکھتے ہیں: ’’تاریخ کے ابتدائی زمانے میں گجرو کے بعض گروہوں کا تجارت پیشہ ہونا ثابت ہوتا ہے، مگر بہت ہی کم۔ عام طور پر اس قوم میں یہ بہت کمی ہے کہ تجارت سے بے بہرہ ہیں۔ کچھ لوگ تجارت کرتے ہیں لیکن وہ اس قدر قلیل ہیں کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس میں مسلمان، سکھ اور ہندو گجر سب برابر ہیں۔‘‘(شاہانِ گجر صفحہ نمبر 108)
لیکن ہم دیکھتے آئے ہیں کہ گجر اونچے پربتوں سے نباتاتی جڑی بوٹیاں، قدرتی میوہ جات، سوختنی لکڑیاں، کھالیں، اون اور برف وغیرہ میدانوں میں فروخت کرنے کی خاطر لاتے تھے۔ جو ان کی ضرورت کی وجہ سے تھا، معمول نہ تھا۔ اس لیے اس عمل کو ان کی محنت مزدوری گردانا جاسکتا ہے مگر باقاعدہ تجارت نہیں۔ ان کی روزانہ کی بنیاد پر بیچنے والی چیز دودھ ہے۔ جس کے لیے گائے اور بھینس وغیرہ پالے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں گائے اور بھینس کثیر تعداد میں پانے والے گجر کو ’’باندر‘‘ کہتے ہیں۔ اجڑ ان کے برعکس ہیں۔
بقولِ ڈاکٹر سلطان روم: ’’اجڑ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ پالنے والے کوچی ہوتے ہیں۔ وہ بھیڑ بکریوں کو ان پہاڑوں کی طرف منتقل کرتے ہیں جہاں گھاس اگتی ہے۔ (ریاستِ سوات، صفحہ نمبر 54)
لفظ ’’اجڑ‘‘، گڈریا، چرواہا اور گلہ بان کا مترادف بھی ہے۔ یہاں ’’اجڑ‘‘، ’’شپونکے‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ جب کہ فارسی میں اسے ’’چوہان‘‘ کہتے ہیں۔ اسی نام کی بابت محمد الدین فوق، کشمیر کی ادنا اقوام کے تذکرہ میں کہتے ہیں:’’کشمیر میں گڈریا کو چوہان یا پوہل کہتے ہیں۔ رنگت کے لحاظ سے یہ زمین داروں سے الگ نہیں ہے، مگر قومیت اور پیشہ کے لحاظ سے یہ بالکل الگ قوم ہے۔ ان کی شادی بالعموم آپس میں ہوتی ہے، مگر کبھی کبھی دیگر گلہ بانوں سے بھی تعلقات پیدا کرتے ہیں۔ چوہان عموماً خوش طبیعت اور پھرتیلے جوان ہوتے ہیں۔ سیٹی بجانے میں باکمال ہیں۔ سیٹی کی آواز سے اپنے ریوڑ کو جدھر چاہتے ہیں، موڑ لیتے ہیں۔ ان کا پیشہ بھیڑ بکریوں کو چرانا ہے۔ جن کو وہ اونچے اونچے پہاڑوں اور جنگلوں میں لے جاتے ہیں۔ ہمیشہ چلنے پھرنے کی وجہ سے یہ لوگ بڑے مضبوط اور طاقتور ہوتے ہیں۔ (تاریخ اقوامِ کشمیر، 366)
ایک اور جگہ گجر سے متعلق کہتے ہیں: ’’یہ قوم خاص کشمیر کے رہنے والی نہیں ہے۔ اپنے پیشے کے لحاظ سے یہ لوگ ہمالیہ اور کوہ شوالک کے دامن میں بھیڑ، بکریاں اور بھینس چراتے پھرتے ہیں۔ ان کو بھینسوں کی پرورش کا خاص شوق ہے۔ کبھی کبھی زمینداری بھی کرتے ہیں، مگر سوائے مکئی با فراط پیدا کرنے کے اور کسی اناج کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ( ایضاً، صفحہ نمبر 355)
دودھ اپنی بھینسوں کا ہو یا ٹھیکے داری کا، بڑے پیمانے پر اس کی فروخت گجروں کے ہاتھ ہی ہوتی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں، گجروں میں یہ ایک رسم ہے کہ جمعہ کے دن ان کے ہاں جس قدر دودھ ہوتا ہے، وہ سب خیرات میں دے دیتے ہیں۔ ان کی عورتوں میں مکھن کی فروخت کا حساب رکھنے کا یہ دستور ہے کہ جس قدر مکھن فروخت ہوا، اسی قدر گرہیں اپنے دوپٹہ میں ڈال لیتی ہیں۔ (ایضاً، صفحہ نمبر 356)
گاؤچر نہ سہی، گوالا سہی، پھر بھی مسلمان، سکھ اور ہندو سب گجروں کے ساتھ یہ پیشہ منسوب ہے۔ بلکہ مسلمان گوالے کو ہندی زبان میں گھوسی کہا جاتا ہے۔ جانور پالنا معیوب نہیں۔ بر صغیر کی اکثر اقوام جانور پالنے والی ہیں۔ اب جب کہ گجر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں آرہے ہیں، زمین داری، باغبانی اور تجارت وغیرہ ہر شعبہ میں طبع آزما ہیں۔ اس لیے دولت کماتے ہیں، تعلیم حاصل کرتے ہیں اور جدیدیت کی طرف تیزی سے گامزن ہیں۔
مولوی عبدالمالک پرانے زمانے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ بعض چودھری گوجر بیل، بھینس اور ایک بھینسا جہیز میں دیتے ہیں۔ پر اب جو یہ لوگ بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں، کاروبار اور تجارتی فرموں کی ملکیت حاصل کر رہے ہیں اور عالی شان عمارتوں کو منتقل ہو رہے ہیں، اس کی بنیاد مویشی بانی ہی ہے۔ یقینا آج وہ جانوروں کی جگہ کوئی اور مہنگی چیز جہیز میں دیں گے، جو ان کے تہذیبی، ثقافتی اور تمدنی خدوخال کی آئینہ دار ہوگی۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔