ہر عمل کا ایک ردِ عمل ہوتا ہے۔ یہ قانونِ قدرت ہے۔ جتنا شدید عمل ہوگا، اُسی قدر شدید ردِعمل بھی آئے گا۔ دیوار پر گیند جتنی طاقت سے ماریں گے، اُسی رفتار سے وہ آپ کی طرف واپس آئے گی۔ پریشر جتنا زیادہ ہوگا، دھماکا بھی اسی قدر شدید ہوگا اور اس کے نتیجے میں ہونے والا نقصان بھی اسی حساب سے بڑھ جائے گا۔
بنگلہ دیش میں یہی تو ہوا ہے۔ حسینہ واجد شیخ نے ظلم و جبر کی تمام حدود پار کرلی تھیں۔ وہ سول ڈکٹیٹر کا بدترین روپ بن گئی تھیں۔ مخالفین کو چن چن کر قتل کرنے اور جیلوں میں ڈالنے والی 16 سال سے زائد عرصہ سے برسرِ اقتدار اس خاتون نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ اس قدر بے آبرو اور رُسوا ہوکر اپنے وطن سے جب بے وطن ہوگی، تو پھر دنیا بھر میں اس کے رہنے کو جگہ تنگ پڑجائے گی۔ امریکہ جیسی سوپر پاؤر بھی عوامی دباو کے آگے جھکتے ہوئے اس کا ویزہ کینسل کر دے گی۔ جَلا وطن سیاست دانوں کی مرغوب پناہ گاہ انگلینڈ بھی اس سے آنکھیں پھیر لے گی۔ اور تو اور اس کا حقیقی گاڈ فادر ’’بھارت‘‘ بھی اسے چند گھنٹے سے زائد برداشت نہیں کر پائے گا۔ یہ مقامِ عبرت بھی ہے اور اس میں دنیا بھر کے تمام حکم رانوں کے لیے سبق بھی ہے۔
حافظ نعیم الرحمان کی قیادت میں جماعت اسلامی کا دھرنا کام یابی سے جاری ہے۔ حکم رانوں نے اُن کے تجویز کردہ وفد سے مذاکرات بھی کیے ہیں، لیکن یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکے۔ ایسا لگتا ہے جیسے حکومت خود بھی یہی چاہتی ہے کہ یہ دھرنا طویل عرصے تک جاری رہے۔ عوام کی توجہ حکومت کے اصل حریف سے ہٹی رہے اور حکومت اپنی حریف سیاسی پارٹی کو سبق سکھانے کا عمل اطمینان سے پایۂ تکمیل کو پہنچاتی رہے۔
گذشتہ روز قومی اسمبلی اور سینٹ سے الیکشن ایکٹ 2017ء ترمیمی بل کثرتِ رائے سے منظور کروا کر حکومت نے سپریم کورٹ کے پی ٹی آئی کے حق میں دیے جانے والے فیصلے کے آگے بند باندھ دیا ہے۔ وزیرِ قانون جناب اعظم نذیر تارڑ نے فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے اسمبلی کے فلور پر ارشاد فرمایا کہ قانون سازی کا اختیار عوام کو ہے، اسے 17 لوگوں کو نہیں دیا جاسکتا۔
حکومت، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ بدقسمتی سے ایک صفحے پر نہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ صاحب کی مجوزہ ایکسٹینشن، قاضی صاحب کا انکار اور پھر ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کرکے قاضی فائز عیسیٰ صاحب کو نوازنے کے لیے قانون سازی کی تجویز نے سپریم کورٹ کے دیگر کئی ججوں کو حکومت سے ناراض کر دیا ہے۔ حکومت نے قبل از وقت اپنے پتے دکھا کر اپنا پاؤں کلھاڑے پر دے مارا ہے۔ اس کے نتائج اب اسے بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ جج، اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اپنے گھروں میں خفیہ کیمروں کی تنصیب سے پہلے ہی نالاں اور غصے میں تھے۔ مسائل اپنی حدود سے تجاوز کرکے دوسرے کی حدود میں مداخلت کرنے سے پیدا ہوئے ہیں۔ اگر سب اپنی اپنی حدود کے اندر رہیں، تو مسائل جنم ہی نہ لیں۔
حکومتی زعما کا کہنا ہے کہ بجلی کی مہنگائی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہے۔
حضور! یہ بھی فرما دیجیے کہ سیاسی عدم استحکام کا ذمے دار کون ہے؟ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے علاوہ ایم کیو ایم نے بھی سیاسی عدم استحکام میں پورا پورا حصہ ڈالا ہے۔ سیاست دانوں کی عاقبت نااندیشیوں اور ذاتی انتقام کی بھینٹ عوام کو کیوں چڑھایا جا رہا ہے؟
حکومت اور جماعتِ اسلامی کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور بھی بے نتیجہ ختم ہوگیا۔ لیاقت بلوچ کا کہنا ہے کہ ہمارا دوٹوک موقف ہے کہ ہم عوام کے لیے ریلیف چاہتے ہیں۔ باتیں سب اچھی کرتے ہیں۔ لالی پاپ دینا حکم رانوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم عوام کو ریلیف دلوا کر ہی یہاں سے جائیں گے۔ اسلام آباد میں 26 جولائی سے جاری دھرنے کو دو ہفتے گزر چکے ہیں، جب کہ گورنر ہاؤس کراچی میں بھی جماعتِ اسلامی کی طرف سے ایک ہفتے سے دھرنا جاری ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ عوام اس وقت بجلی کے بلوں کی وجہ سے سخت تنگ ہیں۔ اب اُنھیں سمجھ نہیں آ رہی کہ بچیوں کے زیور اور گھر کی دوسری قیمتی اشیا بیچنے کے بعد مزید کیا فروخت کریں کہ اگلا بجلی کا بِل ادا کیا جاسکے؟ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ عوام جتنی مرضی بجلی خرچ کرنے میں بچت کرلیں، بِل کم ہونے میں نہیں آ رہے۔ قیمت بجلی 250 روپے پر 2500 روپے ٹیکس لگا دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف سیکریٹری پاور ڈویژن نے انکشاف کیا ہے کہ بجلی کمپنیوں کے 1 لاکھ 90 ہزار ملازمین کو سالانہ 15 ارب روپے کی مفت بجلی دی جاتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاؤر پلانٹ اس لیے نہیں چلاتے کہ وہ وارے نہیں آتے۔ لہٰذا پاؤر پلانٹس کو بند رکھ کر صرف کیپیسٹی چارجز کی مد میں بھاری رقم ادا کی جا رہی ہے۔
آئی پی پی اژدھا بن کر قوم کی آمدن کو نگل رہا ہے۔ حکم ران اپنی شہنشاہی مراعات ختم کرنے کو تیار ہیں، نہ عوام کو ریلیف دینے پر آمادہ۔ حکومتی وزرا کی جانب سے یہ اعلانات اور دعوے کہ ’’دھرنوں سے بجلی کے بل کم نہیں ہوں گے‘‘ عوام کو اشتعال دلانے کے مترادف ہے۔ حافظ نعیم الرحمان نے دھرنوں کا دائرہ وسیع کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ یہ ایک انتہائی خطرناک صورتِ حال ہے، جس کا ادراک حکم ران نہیں کر پا رہے۔ اگر دھرنوں کا دائرہ پھیل گیا، تو پھر عوام کو کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔ بنگلہ دیش میں صرف 4 لاکھ افراد نکلے تھے، لیکن ہمارے ہاں اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے کے علاوہ ہر کوئی حکومت سے تنگ ہے۔ کروڑوں لوگ سڑکوں پر آگئے، تو حکومت چند گھنٹے بھی نہیں نکال پائے گی۔ عوامی طاقت کے آگے کوئی بھی نہیں ٹھہر پاتا۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لب ریز ہوچکا ہے۔ حکومتی اقدامات کی وجہ سے خودکُشیاں کرنے والے کسی وقت بھی حکومت کے لیے خودکُش بمبار ثابت ہوسکتے ہیں۔ وفاقی وزیرِ خواجہ آصف نے فرمایا ہے کہ ’’عمران کو کوئی بتائے مکافاتِ عمل بے رحم ہوتا ہے۔‘‘
دوسروں کو یہ نصیحت کرنے والے محترم وزیر کو خود بھی یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ’’مکافاتِ عمل بے رحم ہوتا ہے!‘‘ عوام کی زندگی جس قدر آپ لوگوں نے اجیرن کر دی ہے، اس کے مکافات کو بھگتنے کے لیے بھی تیار رہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔