بحیثیتِ پاکستانی ہم عجیب و غریب عادات کے مرتکب لوگ ہیں۔ بالکل انوکھے اور غیر ذمے دار۔ جلد باز اتنے کہ بغیر سوچے سمجھے کسی انڈر پراسس معاملے کا نتیجہ خود سے ہی اخذ کرلیتے ہیں۔ اخذ ہی نہیں کرتے، بلکہ باقاعدہ نتیجے کا اعلان بھی کر دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح کوئی بھی واردات ہونے سے پہلے ہماری پولیس کو واردات کے وقوع پذیر ہونے کے درست وقت، طریقۂ واردات اور واردات میں ملوث افراد کا بھی پتا ہوتا ہے۔
انتخابات کا پراسس تو ابھی شروع بھی نہیں ہوا، لیکن ہمارے مہا تجزیہ کار حضرات پورے وثوق کے ساتھ ابھی سے ہمیں انتخابی نتائج سے آگاہ کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ’’سیانی خواتین‘‘ کسی حاملہ عورت کو چلتا پھرتا دیکھ کر آنے والے مہمان کی جنس کا تعین کرکے پاس بیٹھی کسی خاتون کے کان میں فوراً بتا دیتی ہیں کہ اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوگا۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
اگر بات ہمارے عمومی رویوں کی کریں، تو یہاں بھی ہمیں مایوسی نہیں ہوگی۔ ہم نے اپنے رویوں میں بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھی ہوئی ہے۔ ہم قانون کی خلاف ورزی پر فخر کرتے ہیں۔ اگر کہیں قانون کی عمل داری پر سختی سے عمل ہوتا دیکھیں، تو اُس قانون کو توڑنے کی باقاعدہ سفارش کرواتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں بینک کے باہر قطار میں کھڑا ہونا پڑ جائے، تو فوراً بینک سٹاف کے کسی شخص کو فون کروانے کی کوشش کریں گے کہ ہمارا کام بغیر قطار میں لگے ہو جائے۔ کام ہو جانے کے بعد یہ بات واقف کاروں کو فخریہ بتاتے ہیں کہ کس طرح ہم نے قانون کی خلاف ورزی کرکے کام نکالا۔ یہ بھی ہماری تربیت کا حصہ ہے کہ سننے والے قانون کی خلاف ورزی پر اسے لعن طعن کرنے کی بجائے رشک نما حسد میں مبتلا ہوکر اس سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔
ہمارا یہ رویہ بھی منفرد ہے کہ کسی پٹواری، پولیس مین یا سرکاری دفتر میں جب تک رشوت نہ دیں، ہمیں اپنے جائز کام کے ہونے کا بھی یقین نہیں ہوتا۔ ہمارے اس رویے نے ہی رشوت کے چلن کو عام کیا ہے۔ اب جو سرکاری اہل کار رشوت نہیں لیتا، وہ سائل کی نظر میں ناقابلِ اعتبار جب کہ رشوت لینے والا قابلِ اعتبار اور معزز ہوتا ہے۔
ہمارا ایک اور عمومی رویہ ڈاکٹروں کے بارے میں بنا دیا گیا ہے۔ ہم ہر ڈاکٹر کو قسائی سمجھنے لگے ہیں۔ اپنے بیمار یا زخموں سے چور مریض سے جان چھڑا کر اُسے جس ڈاکٹر کے حوالے کرتے ہیں، وہ جی جان سے اُس کا علاج کرتا ہے۔ اُس کے زخموں کی مرہم پٹی کرتا ہے۔ پیچیدہ آپریشن کر کے اعضا کی پیوند کاری کرکے مریض کو نئی زندگی دینے کا سبب بنتا ہے مگر وہ پھر بھی ’’قسائی‘‘ ہے۔
ڈاکٹر تو ہوتے ہی قسائی ہیں، اللہ بچائے ان سے…… مگر ذرا ٹھہریے۔
قسائی لقب کا اعزاز ڈاکٹروں کے ساتھ جوڑنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنی خدمات کا معاوضہ طلب کرتے ہیں، لیکن ان قسائیوں کی کچھ اور بھی خصوصیات ہیں، جو کوئی بتاتا ہی نہیں۔
آئیے! ان قسائیوں کی چند ’’قصابانہ‘‘ خصوصیات سے ہم آپ کو آگاہ کرتے ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
ڈاکٹر رتھ فاؤ کی یاد میں
ڈاکٹر مخصوص سفید کوٹ کیوں پہنتے ہیں؟
کون سا ملک ڈاکٹر کو سب سے زیادہ تنخواہ دیتا ہے؟
یہ قسائی اپنے دوست احباب، رشتے دار، جونیئر، سینئر حتٰی کہ وارڈ کی آپا تک کے خاندان کا مفت معائنہ کرتے ہیں۔ اُن کے دل میں اُن سے فیس لینے کی خواہش پیدا ہی نہیں ہوتی۔ ذرا آپ کسی سے ایک کلو چینی مفت لے کر دکھا دیں۔ اس کے علاوہ یہ قسائی زیادہ کوئی بھاو تاو کیے بغیر ہی فیس میں کمی یا مکمل معافی کر دیتے ہیں، اور اس پر انھیں پچھتاوا بھی نہیں ہوتا۔
ایک اور بات بھی سنتے جائیے، جو آپ کے گمان میں بھی نہ ہوگی۔ وہ یہ کہ مختلف ڈیپارٹمنٹ میں قسائی ڈاکٹر اپنی جیب سے فنڈز اکٹھے کر کے مریضوں کے لیے ادویہ کا انتظام کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ تقریباً ہر قسائی ڈاکٹر اپنی زندگی میں اپنے مریضوں کو خون کا عطیہ ضرور دیتا ہے، وہ بھی بلا معاوضہ۔ اور ہاں! ایسا کوئی قسائی ڈاکٹر آپ نہیں دیکھا ہوگا جو پوشیدہ طریقے سے کسی نہ کسی غریب خاندان کی امداد نہ کررہا ہو۔ صدقے، خیرات اور فلاحی کاموں میں آپ ہمیشہ ان کو سب سے آگے دیکھتے ہیں۔ جگہ جگہ اور شہروں کے علاوہ قصبات میں بھی فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد ان قسائی ڈاکٹروں ہی کا مرہونِ منت ہے، جہاں یہ اپنی خدمات بلامعاوضہ انجام دیتے ہیں۔
ہمارے سینئر قسائی ڈاکٹر بنا پوچھے ہی غریب سٹاف کی وقفے وقفے سے مدد کرتے رہتے ہیں۔ ڈیوٹی کے دوران میں ان کی چائے پانی کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ قسائی ڈاکٹر وہ واحد مخلوق ہے جو رات کے 3 بجے بھی نیند سے اُٹھ کر اس لیے کال ریسیو کرتا ہے کہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ فون کرنے والا کسی مشکل میں ہوگا۔ ان قسائیوں کا فون آپ کو کبھی آف نہ ملے گا کہ یہ اس شعبے میں آتے ہی خدمتِ خلق کے جذبے کے تحت ہیں۔
ڈھیر سارے قسائی ڈاکٹر اپنے ہاتھوں پر کینولا لگا کر بھی ایمرجنسی میں مریضوں کا علاج کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہی ہو گا کہ ڈینگی اور کرونا کے دنوں میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ جانیں ان قسائی ڈاکٹروں ہی کی قربان ہوئی تھیں۔ جب مریضوں کے لواحقین بھی انھیں بے یارومددگار چھوڑ کر ان ’’قسائیوں‘‘ کے حوالے کرگئے تھے۔ ان قسائیوں نے اپنی جانیں دے کر بھی اپنے مریضوں کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔ فرنٹ لائن پر لڑنے والے ان مجاہد قسائیوں نے قربانی کی لازوال داستانیں رقم کی تھیں۔ ڈھیر ساری لیڈی ڈاکٹر حمل کے دوران میں اپنی صحت کی پروا کیے بغیر مریضوں کی فکر میں بغیر کچھ کھائے پیے ڈیوٹی کرتی ہیں۔ ڈھیر سارے قسائی ڈاکٹروں کو عید کا دن بھی گھر والوں کے ساتھ گزارنا نصیب نہیں ہوتا۔ ذہنی تناو سے بھی سب سے زیادہ یہی قسائی گزرتے ہیں۔
مَیں نے اپنی آنکھوں سے ایسے قسائی ڈاکٹر دیکھے ہیں جو مریضوں کے مفت معائنے کے بعد پوچھتے ہیں کہ دوا لینے کے پیسے ہیں یا نہیں…… اور چپکے سے ہاتھ میں پیسے پکڑا کر اُنھیں روانہ کردیتے ہیں۔
عزیزانِ من! ڈاکٹر کی خدمات کا معاوضہ کبھی رقم ادا کرنے سے پورا نہیں ہوسکتا۔ ڈھیر سارے ڈاکٹر مریضوں کی دعا کو اپنی کُل جمع پونجی سمجھتے ہوئے زندگی گزار دیتے ہیں۔ آیندہ ایک ڈاکٹر کے چائے پینے یا ہنس کر اپنے کولیگز سے بات کرنے یا آپ کی مرضی کے مطابق کا علاج نہ کرنے کی صورت میں اس پر قسائی کا لیبل چسپاں کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ پاکستان کے کرپٹ ترین نظام میں اب بھی کوئی درد مند شعبہ موجود ہے، تو وہ ڈاکٹری ہی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔