قارئین کرام! اس وقت اسلام آباد کے ایوانوں میں مائی نس ون کے فارمولے پر غور ہو رہا ہے۔ یہ مائی نس ون کیا ہے؟ اس پر تھوڑی دیر بعد بات ہوگی۔ پہلے مولانا صاحب کے دھرنے اور مارچ کی بات ہوجائے۔
اس وقت مولانا فضل الرحمان صاحب اپنے حامیوں سمیت لاکھوں لوگوں کے ساتھ آزادی مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ مثل مشہور ہے: ’’چی سہ کرے ھغہ بہ ریبے!‘‘ یعنی جو بووگے وہی کاٹوگے۔ عمران خان صاحب نے دھرنوں، احتجاجوں اور گالی گلوچ کے نام جو بیج پانچ سال پہلے 2014ء میں بویا تھا، وہ ماشاء اللہ آج تناور درخت بن چکا ہے۔ اُس کا کاٹنا بھی اب مشکل ہورہا ہے، لیکن کاٹنا پڑے گا۔ کیوں کہ یہی مکافاتِ عمل ہے۔
ہمارے ہاں اچھے کاموں میں ترقی ہو نہ ہو، برے کاموں میں تو ہوتی رہتی ہے۔ 2014ء کے دھرنے میں پچاس ہزار کے لگ بھگ لوگ تھے، اب لاکھوں میں ہیں۔ پہلے سے زبان تیز اور رفتار تیز ہے۔ کوئی لچک اور رواداری نہیں۔ حکومتِ وقت کی زبان اور انداز نے معاملات مزید سخت کر دیے ہیں۔ مولانا کو گالی گلوچ کے ساتھ ساتھ اُس کی سیاست، اہمیت اور وجود کا مزاق اڑانا بلکہ سخت اور توہین آمیز جملوں کا نشانہ بنانا تحریک انصاف کے وزیروں اور مشیروں کا شیوہ رہا ہے۔ خود عمران خان کے کلام اور بیان میں بہ حیثیت اپوزیشن لیڈر اور بہ حیثیت وزیراعظم کوئی فرق نہیں۔ اُسے آج تک احتجاجی کنٹینر اور وزارتِ عظمیٰ کی کرسی میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ یہاں تک کہ اپوزیشن کے احتجاجی آزادی مارچ کو مختلف اوچھے ہتھکنڈوں سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ گرفتاریاں، ٹرانسپورٹ پر پابندیاں، پیٹرول ڈالنے پر پابندی، میڈیا کو آزادی مارچ کی کوریج دینے پر قدغن، پریس کانفرنسوں، جلسے جلوسوں اور تقاریر نشر کرنے پر پابندیوں نے موجودہ حکومت کے جمہوری لبادے کو تار تار کردیا ہے۔ دوسری جانب احتساب کے عمل نے انتقام کی شکل اختیار کرلی ہے۔ جیلوں کے اندر مسلم لیگ نواز کی قیادت کے ساتھ زور، ظلم، زیادتی کرنا اور عدل و انصاف کا گلا گھونٹنا ایک عام روایت بن چکا ہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو پھانسی گھاٹ کے ڈربے میں رکھا جارہا ہے۔ نواز شریف کے علاج معالجے میں لیت ولعل سے کام لیا جا رہا ہے۔ اُس کی صحت اور بیماری کو توہین آمیز مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گھر والوں، خاندان اور خاص کر مریم نواز کی ملاقاتوں پر پابندیاں لگا کر اُسے ذہنی صدمات سے دوچار کردیا گیا، اور اس طرح ٹارچر کرکے اُسے موت کے منھ میں دھکیل دیا گیا۔ وہ آج زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔
موجودہ حکومتی ٹولے نے ظلم، زیادتی، بے انصافی کے ساتھ ساتھ مہنگائی، بد انتظامی اور ملکی ساکھ کی بے توقیری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لہٰذا تمام اپوزیشن کا مولانا سمیت یہ مطالبہ کرنا کہ عمران خان استعفا دے کر ملک و قوم کو مزید پریشانیوں، مسئلوں میں نہ اُلجھائیں، کسی حد تک صحیح ہے۔ اگر موجودہ حکومت کا یہ سلسلۂ ظلم اس طرح چلتا رہا، تو معلوم نہیں آگے کیا ہوگا؟ حکومتی رویے، بد زبانی اور بدکلامی نے حالات مزید ابتر کر دیے ہیں۔ بات گالی گلوچ اور ایک دوسرے کو ’’یہودی ایجنٹ‘‘ اور ’’مودی ایجنٹ‘‘، غداری کے الزامات اور القابات تک پہنچ گئی ہے۔ حکومتی وزرا میں احساس ہے اور نہ صبر و برداشت۔ اُن سب کا رویہ حکومتی ذمہ داران جیسا نہیں۔ پتھر کا جواب اینٹ سے دینے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہی ان کا وتیرہ ہے اور یہی ان کا منشور ہے۔
حیرانی کی بات ہے کہ ریلوے حادثہ میں 75 قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ اتنے درد ناک اور دہشت ناک حادثے کے باوجود ایک سینئر وزیر شیخ رشید کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ ڈھیٹ بن کر ابھی تک بیٹھا ہوا ہے۔ کچھ اخلاقی جرأت ہونی چاہیے۔ شرم و حیا بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ احساسِ ذمہ داری بھی کسی شے کا نام ہے۔ پچھلی حکومتوں کو معمولی حادثوں پر برا بھلا کہنا، حلق پھاڑ پھاڑ کر چیخنا اور استعفا دینے کے مطالبے کرنے والے اب اتنے بڑے خوفناک حادثے پر انجان بن کر کمال بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کے احساسات اور ضمیر مردہ ہوچکے ہیں۔ وزارت کی معمولی کرسی ان کا ایمان اور ایقان بن چکی ہے۔ بے شرمی اور بے حیائی کی حد ہے اور حد یہ ہے کہ اسلام آباد میں لاکھوں عوام انصافی حکومت کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں، اور اس میں بھی ایک روپے فی لیٹر پٹرول مہنگا کیا گیا۔ نہ عوام سے ڈر، نہ بندگانِ خدا سے خوف، یہ یاد رکھیں کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ بے پناہ مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ عام آدمی کی کمرٹوٹ چکی ہے۔ بجلی، گیس کے ہزاروں روپوں کے بل دینے سے عوام عاجز آچکے ہیں۔ عوام کی فریادیں بلکہ چیخیں نکل گئی ہیں، لیکن افسوس اسلام آباد کے اقتدار کے ایوانوں میں یہ چیخیں سنائی نہیں دے رہیں۔ اب یہ فریادیں اور چیخیں مولانا کی شکل میں خلق زبان بن کر ان کا پیچھا کررہی ہیں۔ مولانا کی آواز ہر غریب اور دکھی پاکستانی کی آواز ہے اور یہ آواز اب للکار بن چکی ہے۔
مولانا کی سیاست اور سیاسی ساکھ اب داؤ پر لگ چکے ہیں۔ وہ کسی بھی قیمت پر پیچھے ہٹ کر اپنی سیاسی ساکھ کا جنازہ نہیں نکال سکتا۔
قارئین کرام! ’’مائی نس ون فارمولا‘‘ مشرف کے دور سے چلا آ رہا ہے۔ یہ ایک قسم کا ’’مشرف ڈاکٹرائن‘‘ ہے جس پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ چناں چہ اس فارمولے کے پہلے شکار سابق وزیراعظم جمالی تھے۔ پھر شجاعت حسین اور شوکت عزیز بھی اس فارمولے کا شکار بنے۔ بعد ازاں صدر آصف زرداری کے دور میں وزیراعظم گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بھی اس فارمولے کی لپیٹ میں آئے۔ اس کی آخری قسط نواز شریف سے گزر کر شاہد خاقان عباسی پر اختتام پذیر ہوئی۔ یعنی مطلب یہ ہوا کہ ’’ایک ناپسندیدہ شخص‘‘ کو ہٹا کر باقی نظام جوں کا توں چلنے دیا جائے۔ اسے کہتے ہیں ’’مائی نس ون فارمولا۔‘‘
سیاست میں ضد اور ہٹ دھرمی نہیں چلتی اور پاکستانی سیاست میں تو بالکل اس کی گنجائش نہیں۔ جو ضد کرتے ہیں وہ نواز شریف کے انجام سے سبق حاصل کریں۔
عمران خان نے بھی چند اہم معاملات میں ضد پکڑی ہوئی ہے، اور بعض مسائل پر بے جا طور پر ہٹ دھرمی دکھارہے ہیں۔ وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے مرد آہن بنانے پر تل گئے ہیں، جو ایک ڈیڑھ سال سے وزیراعلیٰ شپ کی ٹریننگ حاصل کررہے ہیں، لیکن ابھی تک کچھ اس کے پلے نہیں پڑا۔ مقتدر حلقے اور خود پارٹی کے اندر ایک بڑا گروپ اُس کے ہٹانے پر بار بار زور دے رہا ہے، لیکن عمران خان ٹس سے مس نہیں ہورہے۔
ڈینگی وائرس نے پنجاب کیا پورے ملک کو متاثر کیا ہوا ہے۔ سیکڑوں مرگئے ہیں، بلکہ مررہے ہیں اور ہزاروں ہسپتال میں ہیں، لیکن عثمان بزدار کو پروا ہے اور نہ عمرانی حکومت کو کوئی اندازہ۔
مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ طرزِ سلوک اور طریقۂ واردات پر بعض مقتدر حلقوں کے بھی تحفظات کیا بلکہ اختلافات ہیں۔ وزیراعظم کے بیرونی دوروں کے دوران میں بعض غیر ضروری اور غیر ذمہ دارانہ بیانات پر یہ حلقے سخت ناراض ہیں۔ لہٰذا یہ تمام باتیں ایک ہی راستے سے ہوکر تمام ہوتی ہیں کہ ’’مائی نس ون فارمولا‘‘ اپلائی کرکے عمران خان کو چلتا کیا جائے۔ آپ سب سن رہے ہوں گے کہ سب یک زبان ہوکر عمران خان سے استعفا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پوری حکومت کے خلاف بات کم سنائی دے رہی ہے۔ امکان یہی ہے کہ پارٹی کے اندر کسی اور کا بہ طورِ وزیراعظم انتخاب کیا جائے۔
بہرحال جو بھی ہورہا ہے، بس چند دن کی بات ہے۔ موجودہ دھرنے کا طویل ہونا حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ دراصل حکومت تو کیا ملکی سیاسی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ خاص کر معاشی حالتِ زار موجودہ ابتر صورت حال کی ہر گز متحمل نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا میں اپیل کروں گا کہ ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر ملکی استحکام کے لیے صبر و برداشت اور رواداری کا مظاہرہ کیا جائے۔ بقولِ ساحرؔ
مجھے معلوم ہے انجام رودادِ محبت کا
مگر کچھ اور تھوڑی دیر سعیِ رائیگاں کرلوں
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔