پورے ملک میں آج کل نہ تو کسی کو فلسطین میں ہونے والے خون خرابے کی کوئی خاص پروا ہے، نہ آیندہ ممکنہ انتخابات بارے دلچسپی ہی ہے۔ نہ تحریک انصاف پر حکومتی شکنجہ جو بڑی حد تک ناجائز ہے، پر اظہارِ رائے اور نہ نواز شریف کو چوتھی بار وزیرِ اعظم بنانے کی سازش پر کوئی تبصرہ ہے۔ بس ایک بات پر صفِ ماتم بچھی ہے کہ پاکستان ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ سے باہر ہوگیا۔ حالاں کہ ویسٹ انڈیز اور سری لنکا حتی کہ نیوزی لینڈ اور گذشتہ ورلڈ چمپئن برطانیہ جیسی ٹیموں کو بھی واپسی کا پروانہ تھما دیا گیا ہے۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
مَیں ذاتی طور پر کرکٹ سے نہ تو کوئی خاص اُلفت رکھتا ہوں اور نہ نفرت…… البتہ یہ ضرور ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں اس کی اتنی مقبولیت بہرحال مناسب نہیں۔ ضیاء الحق کی آمریت میں اس مہنگے اور نوابی کھیل کو ایک سیاسی حکمت عملی کے تحت پروان چڑھایا گیا۔ اس کو بہت زیادہ گلیمرائز کیا گیا، جس کے نتیجے میں اوّل اس کھیل نے ہمارے روایتی ثقافتی کھیلوں جیسے کبڈی، گلی ڈنڈا، کشتی، باکسنگ، نیزہ بازی، لمبی دوڑ، جمناسکٹ اور کشتی رانی کا خون کیا بلکہ اس کے بعد ہم اپنے قومی کھیل ہاکی سمیت فٹ بال، والی بال، ٹینس اور بالخصوص ہمارا ہمیشہ کا فخر سکواش بھی بھلا بیٹھے۔
ہم تو آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کرکٹ کے بجائے اتنی توجہ کی ضرورت آج بھی ہمیں قومی کھیل ہاکی اور سکواش پر دینی چاہیے۔ سب سے زیادہ فوقیت فٹ بال کو دی جائے۔ کیوں کہ فٹ بال صحیح معنوں میں ایک بین الاقوامی کھیل ہے کہ جو دنیا کے ہر ملک، ہر شہر، ہر گلی اور محلہ میں ہے۔ فٹ بال معاشی طور پر بھی نہایت ہی سستا ہے۔ بہت کم وقت لیتا ہے اور یہ فقط دو گھنٹے دلچسپی اور لطف سے بھرپور وقت اپنے شایقین کو دیتا ہے۔ دُنیا میں اِس کھیل اور کھیل سے وابستہ کھلاڑیوں کی پہچان اور قیمت کرکٹ کے مقابل کئی درجہ زیادہ ہے۔
بہرحال یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے کرکٹ جیسے مہنگے، وقت طلب اور جدید کھیل کو فٹ بال جیسے قدیم اوربین الاقوامی سستے کھیل پر ترجیح دی۔ کاش! آج بھی ہم اگر کرکٹ سے آدھی توجہ فٹ بال پر دے دیں، تو کہیں بہتر کامیابی اور پہچان دنیا بھر میں بنا سکتے ہیں۔ بہرحال ہمارا آج کا موضوع ورلڈ کپ میں پاکستان کی ناکامی ہے، تو اس نکتے پر فوکسڈ رہتے ہیں۔
ہم فطرتاً ایک جذباتی قوم ہیں اور کھیل کو کھیل کے بجائے قومی غیرت و حمیت بنا لیتے ہیں۔ برطانیہ جو اس کھیل کا بانی ہے، سابقہ چمپئن ہے اور اس کی ٹیم افغان سے اور نیدرلینڈ سے بھی نیچے ہے پوائنٹ ٹیبل پر، مگر گوروں کو پروا نہیں۔ بس اُن کے کرکٹ بورڈ پر رسمی اور ہلکی پھلکی تنقید ہوجاتی ہے۔
اب ہمارے فیس بک پر بنے بیٹھے ’’ظہیر عباس‘‘ اور ’’رمیز راجہ‘‘، ٹوئٹر پر ’’سکندر بخت‘‘ اور ’’منیر حسین‘‘ بنے کرکٹ ایکسپرٹ ہر لمحہ کپتان بابر اعظم ہو، یا چیف سلیکٹر انضمام الحق، ان کو پھانسی پر چڑھانے کا مطالبہ فرما رہے ہیں۔ ارے اُو خدا کے بندو! کپتان خود کچھ نہیں ہوتا، ٹیم ہوتی ہے اور جو دستیاب ٹیم ہوگی کپتان وہی کھلا سکتا ہے۔ انگلینڈ اور افغانستان کے خلاف آپ کی بولنگ ناکام ہوئی۔ اب موجودہ صورتِ حال میں آپ کے پاس اُن کا متبادل کیا ہے؟ یعنی یہی پیس بیٹری موجود ہے کہ جو بالنگ کا مرکز ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا کھیل
کرکٹ کا سب سے بوڑھا کھلاڑی
صفر پر آؤٹ ہونے والا کرکٹ کا اولین کھلاڑی
دنیائے کرکٹ میں انڈیا کا انوکھا اعزاز
عاقب جاوید کا ریکارڈ
ٹھیک اسی طرح سلیکٹرز نے بھی موجودہ لاٹ سے ہی ٹیم تشکیل دینا ہوتی ہے۔ وہ آسٹریلیا یا جنوبی افریقہ سے تو کھلاڑی درآمد نہیں کرسکتے۔ سو اُن کو کیوں لعن طعن کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟ ویسے آپ کے لعن طعن کی وجہ سے چیف سلیکٹر انضمام الحق اور کپتان بابر اعظم تو مستعفی ہوگئے۔ اب آپ اُن کا متبادل تلاش کرلیں۔
اصل میں آپ کو کوئی اتنی بڑی ناکامی بھی نہیں ہوئی۔ کیوں کہ دنیا کی دس ٹاپ کی ٹیموں میں آپ کا نمبر پانچواں آیا، جب کہ سری لنکا، برطانیہ، ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش آپ سے بھی نیچے ہیں۔ خیر، ہم کَہ رہے تھے کہ اس ناکامی کا ذمے دار آپ کا کپتان ہے اور نہ چیف سلیکٹر بلکہ کسی حد تک کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بھی نہیں…… بلکہ اس کا ذمے دار آپ کا مجموعی نظام ہے۔
کرکٹ میں تو پھر بھی کسی نہ کسی حد تک آپ کی پہچان ہے۔ دوسرے کھیلوں میں آپ کا کیا مقام ہے؟ آپ کا مجموعی طور پر انتظامی ڈھانچا مکمل طور پر زمیں بوس ہے۔ ہر ادارے کی صفر سے ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کی ضرورت ہے۔ اس طرح دوسرے اداروں کی طرح آپ کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی بھی نئے سرے سے تشکیل کی ضرورت ہے۔ اس میں بھرتی، خاص کر چیئرمین کا تعین، خالصتاً پروفیشنل بنیادوں پر کی جائے۔
جب سے ہمیں کرکٹ کی تھوڑی سی سمجھ آئی ہے، تب سے ہم نے دیکھا کہ ما سوائے پیپلز پارٹی کے جن پر ’’مس گورننس‘‘ اور کرپشن کے سب سے زیادہ الزامات لگائے جاتے ہیں، کے ادوار کے علاوہ کسی نے چیئرمین کا انتخاب میرٹ پر نہیں کیا۔ گو کہ آخرِکار پیپلز پارٹی بھی اسی خرابی کا شکار ہوئی، وگرنہ پی پی پی نے ذوالفقار علی بھٹو کے دورد میں عبدالحفیظ کاردار، محترمہ نے ماجد خان اور زرداری صاحب نے اعجاز بٹ کو لگایا تھا، بہرحال عمران خان صاحب نے بھی رمیز راجہ کو لگایا کہ جن کے پاس نہ صرف ٹیسٹ لیول کی کرکٹ کھیلنے کا تجربہ تھا، بلکہ وہ ملک میں گراس روٹ لیول سے اوپر آئے تھے۔ ورگرنہ ضیاء الحق نے ایک ائیر فورس افسر نور خان، میاں صاحب کبھی ایک اپنے سیاسی کارکن اور کاروباری حلیف سیف الرحمان کے بھائی مجیب الرحمان، کبھی صحافی نجم سیٹھی کو بناتے رہے۔ پھر جنرل مشرف نے تو حد کر دی اور ایک حاضرِ سروس جنرل توقیر ضیا کو بنا دیا۔
پھر اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے آصف زرداری نے ایک بیورو کریٹ ذکا اشرف کو بنا دیا۔ اب بھی ذکا اشرف پی پی پی کے کوٹے ہی سے چیئرمین بنے بیٹھے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کرکٹ بورڈ میں اربوں کا پیسا ہوتا ہے اور یہ مال بنانے کا ایک بہترین ادارہ ہے۔
آپ کو بورڈ کا چیئرمین ایک ایسے شخص کو بنانا چاہیے کہ جو کرکٹ کو نہ صرف خود سمجھتا ہو، بلکہ ایک بہتر ایڈمینسٹریٹر بھی ہو۔ وہ سب سے پہلے آپ کا بنیادی ڈھانچا درست کرے۔
آج سے چند سال قبل تقریباً 80ء کی دہائی تک سکول لیول پر بے شمار کرکٹ ہوتی تھی۔ سکول کی سطح اور کالج لیول پر ہر سال ٹورنامنٹ ہوتے تھے، جس سے بچوں کی گرومنگ ہوتی اور مستقبل کے لیے کئی اچھے کھلاڑی ملتے تھے۔ پھر ڈیپارٹمنٹل کرکٹ ہوتی رہی۔ کئی اچھے کھلاڑیوں کو اس سے بہتر ملازمتیں ملتیں اور ملک کو نئے کرکٹر ملتے۔ آپ دیکھ لیں، آپ کو ماجد خان، عمران خان، ظہیر عباس اور آصف اقبال جیسے کھلاڑی تعلیمی اداروں نے دیے، جب کہ دوسری بڑی لاٹ رمیز راجہ، سعید انور، وسیم اکرم، شعیب اختر، وقار یونس وغیرہ ڈیپارٹمنٹس نے ہی دیے۔
پھر عمران خان نے ایک نئی تجویز دی کہ آپ بجائے اداروں یا محکموں میں ٹیمیں بنائیں، آپ برطانیہ اور آسٹریلیا کی طرز پر علاقائی ٹیمیں تشکیل دیں۔ اس کو جزوی طور پر اپنایا تو گیا، لیکن اس طرح کرکٹ مزید تباہ ہوگئی۔ اس سلسلے میں مقبول پاکستان کرکٹ لیگ (پی سی ایل)ہے۔ یہ پروفیشنل سے زیادہ کمرشل ہے۔ اس میں کیا ہے کہ آپ نے بس نام لاہور، کراچی اور پشاور رکھ دیے، باقی میدان میں کھیلنے والے تو سب بین الاقوامی سٹار ہیں کہ جن کو لاکھوں ڈالر دے کر خریدا گیا، بلکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ڈسٹرک لیول کی ٹیمیں بنتیں اور وہاں سے کوالیفائی کیا جاتا۔ تاکہ چند کھلاڑی اُبھر کر سامنے آتے۔ آج جو بھارتی کرکٹ کا عروج ہے، اس کی ابتدا گنگولی نے اِنھیں خطوط پر کی۔
بہرحال ہم اپنی طرف سے کوئی مشورہ نہیں دینا چاہتے۔ ہم تو بس یہ التماس کرتے ہیں کہ اول کرکٹ بورڈ کی تطہیر کی جائے اور کسی ایسے شخص کو بورڈ کا سربراہ بنایا جائے کہ جس کو یہ تمام باتیں معلوم ہوں۔ پھر اُس کو کہا جائے کہ وہ اپنی ٹیم مطلب انتظامی ٹیم بھی بِنا سفارش کے خالصتاً ’’پروفیشل اپروچ‘‘ کے ساتھ تشکیل دے۔اگر ہم کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتا نجم سیٹھی جیسے صحافی، سیف الرحمان جیسے کرپٹ تاجر اور ذکا اشرف جیسے بیورو کریٹ بنانا بند کر دیں، تو پھر نیچے نظام خود بخود درست ہو جائے گا۔ بقولِ عمران خان، ہمارے ہاں کرکٹ کا ٹیلنٹ گلی محلوں میں اَن گنت ہے۔ ویسے بھی یہ عام فہم بات ہے کہ بغیر کسی پروفیشنل نظام کے ہم نے یہی سے ظہیر عباس سے لے کر وقار یونس تک جیسے کھلاڑی پیدا کیے، تو پھر اگر نظام بہتر کرلیں، تو ہم سیکڑوں کے حساب سے ظہیر عباس اور وقار یونس دریافت کرسکتے ہیں۔
دوسرا نکتہ یہ کہ ہماری قوم کو ایک سادہ سی بات سمجھنے کی ضرورت ہے، اور وہ یہ کہ کھیل کو کھیل ہی سمجھا جائے۔ اسے قومی حمیت، جہاد اور ملکی عزت نہ سمجھا جائے۔ کھیل میں ہار جیت ہوتی ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ کرکٹ میں جس طرح پاکستان ہندوستان میچ میں ایک خاص ٹسل اور جذباتی رویہ ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح آسٹریلیا اور برطانیہ سیریز میں ہوتا ہے۔ مَیں ٹی وی پر دیکھ رہا ہوتا ہوں کہ میچ لارڈز کرکٹ گراؤنڈ لندن ہو، یا سڈنی دوبئی ہو، یا ایڈن گارڈن کلکتہ، دونوں طرف کے عوام اپنی ٹیم کی جیت کی تمنا تو کرتی ہے، لیکن جس ٹیم کے کھلاڑی کی جانب سے اچھی پرفارمس ہو، وہ خوش اسلوبی سے کھلاڑی کو داد دیتے ہیں۔ جب برطانیہ کا باؤلر وکٹ لے، تو آسٹریلین تماشائی ذور دار تالی بجاتے ہیں۔اس طرح اگر آسٹریلیا کا بلے باز چھکا مارے، تو برطانوی گورے کھڑے ہوکر اُس کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں، لیکن ہم لوگوں نے کھیل کو بھی جنگ کا میدان بنایا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے کھلاڑیوں پر کسی اہم میچ یا کسی مخصوص ٹیم کے خلاف میچ کے وقت خاص قسم کا نفسیاتی اور ذہنی دباو ہوتا ہے، جو میدان میں اُن کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ہم توقع کرتے ہیں کہ ہمارے کھیلوں سے وابستہ اربابِ اختیار ہماری ان گزارشات پر غور کریں گے۔ ساتھ عوام سے بھی اپیل ہے کہ وہ اَب اپنا رویہ بالغ کرلیں اور محض کرکٹ کی فتح کو سب کچھ سمجھنا چھوڑ دیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔