آغاز ہی سے جہانزیب کالج کو بہترین اساتذہ کی خدمات حاصل رہی ہیں۔ کالج کے پہلے پرنسپل حافظ محمد عثمان مشہور ریاضی دان تھے۔ زیادہ تر اکیڈیمک سٹاف غیر مقامی افراد پر مشتمل تھا،مگر وہ بہت تن دہی اور جذباتی انداز سے اس نئے ادارے کو علم کا گہوارا بنانے کے لیے کوشاں تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ادارے کو ریاست سے باہر بھی شہرت ملنے لگی اور اسے خطے کا علی گڑھ قرار دیا گیا۔ نہ صرف موجودہ پختونخوا، بل کہ پنجاب سے بھی علم کے متلاشی یہاں آکر پڑھتے تھے۔
جب میں نے 1958ء میں جہانزیب کا لج میں داخلہ لیا، تو انگریزی کے دو پروفیسر ہمیں پڑھاتے تھے۔ ایک عبدالسلام صاحب اور دوسرے عبدالحلیم صدیقی صاحب۔ اُس وقت ہماری کلاس میں چارسدہ، مردان، دیر، چترال اور تھانہ کے کئی لڑکوں کے علاوہ دو طلبہ لاہور اور سیالکوٹ سے آئے تھے۔ دونوں نے یہاں سے ایف اے کیا تھا۔ ایک شیخ وسیم احمد تھا، اور دوسرا سیالکوٹ کا مسعود تھا۔
سر عبدالسلام سول سروس میں چلے گئے، تو والئی سوات کو دوسرے لکچرر کی فکر لگ گئی۔ جلد ہی ایک جواں سال اور خوش شکل صاحب کا تقرر بہ طور انگلش لکچرر ہوگیا۔ اُن کا نام اشرف الطاف تھا۔ اُن کا تعلق یو پی (اُتر پردیش) سے تھا اور لکھنوی تہذیب کا مکمل نمونہ تھے۔ لڑکے فوراً اُن سے مانوس ہوگئے۔ ابھی وہ غیر شادی شدہ تھے اور کالج کالونی کے ایک خوب صورت کشادہ بنگلے میں رہتے تھے۔ مَیں اُن کا لاڈلا شاگرد تھا، جب کہ اُس وقت میری عمر صرف 15 سال تھی۔ وہ میرے ٹیوٹر بھی تھے۔ اُن دِنوں کالج میں ہر پروفیسر کی نگرانی میں ٹیوٹوریل گروپ ہوا کرتے تھے۔ جن کی میٹنگ ہفتہ میں ایک بار ہوا کرتی تھی، جس میں ہر کلاس کے لڑکے مل بیٹھ کر تبادلۂ خیال کرتے تھے۔
گرمیوں کی تعطیلات سے واپسی پر اشرف الطاف آئے، تو وہ اکیلے نہیں تھے۔ اُن کے ساتھ اُن کی والدہ اور بیگم بھی تھیں۔اُن کی نئی نویلی دلھن بہت خوب صورت اور باوقار خاتون تھیں۔ کبھی کبھی وہ شام کو کالونی کی سڑکوں پر واک کے لیے نکلتے، تو لوگ اُن کی قسمت پر رشک کرتے تھے۔ہفتہ میں ایک دو بار سوات ہوٹل میں ڈنر کے لیے آتے، تو محترمہ سفید غرارہ میں ملبوس بالکل شہزادی لگ رہی تھی۔
پروفیسر صاحب نے طلبہ کے لیے ایک کتاب لکھی تھی: "Correct your English”، جس پر اُن کو صدرِ پاکستان نے انعام بھی دیا تھا اور تعریفی سند بھی عطا کی تھی۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے محمد آصف خان کی تصنیف ’’سوات کی تاریخ و سوانح عمری میاں گل عبدالودود حکم رانِ سوات‘‘ کا انگریزی میں ترجمہ کرکے چھپوا دیا: "The story of Swat as told by its Founder Miangul Abdul Wadud Bacha Sahib to Muhammad Asif Khan.”
جناب اشرف الطاف کو انگلستان میں اعلس تعلیم کے لیے وظیفہ مل گیا، تو وہ ہم سے رخصت ہونے لگے۔ والئی سوات نے اُن کو رُکنے پر آمادہ کیا،مگر کچھ عرصے بعد جب اُن کو دوبارہ پیش کش ہوئی، تو وہ ہم سب سے رخصت لے کر اور والئی سوات کے بادلِ نہ خواستہ اجازت دینے کے بعد انگلینڈ چلے گئے۔ اُن کے شاگرد اگر زندہ ہوں، تو آج بھی اُن کو یاد کرتے ہوں گے۔
(’’انسائیکلو پیڈیا سوات‘‘ نامی ویب سائٹ پر 22 فروری 2019ء کو میرے انگریزی زبان میں شائع ہونے والے آرٹیکل کا ترجمہ۔ واضح رہے کہ یہ مضمون بھی میرا ہی ترجمہ کیا ہوا ہے، راقم۔)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔