ایک پاگل کا ساتھی ہونا کتنا مشکل ہوتا ہے۔
مہر فاؤنڈیشن کا چیئرمین محمد عالم میرا دوست ہے۔ آپ اِس دوستی کو بلیک میلنگ، ہائی جیکنگ، دھونس دھاندلی یا غنڈا گردی بھی کَہ سکتے ہیں۔ محمد عالم مجھ سے عمر میں کافی کم ہے، مگر مجھے یرغمال بنائے ہوئے ہے اور خود ہر لمحہ سولی پر چڑھا رہتا ہے۔ یہ خود کُش بمبار زندگی میں انسانی خدمت کے علاوہ کوئی مقصد نہیں رکھتا۔
محمد عالم کی شریکِ حیات آٹو ایمیون سسٹم کی بیماری کی شکار ہے، جس میں جوڑوں کا درد اور بخار رہتا ہے۔ یہ بیماری لاکھوں میں کچھ لوگوں کو ہوتی ہے۔ علاج بہت پیچیدہ اور طویل ہے۔ علاج کیا، بس ایک مینجمنٹ ہے ۔
محمد عالم ایک سکول اُستاد ہے، جس میں وہ پاگل پن کی سطح تک مخلص ہے۔ لٹریچر کے طالب علم کے طور پر اُس کی حساسیت اور بڑھ جاتی ہے ۔ پورا سال ایک کلینڈر پر کام کرنا اور اُس کام میں اُس کے شاگردوں، دوستوں اور رشتے داروں کو ’’کونکٹ‘‘ (Connect) رکھنا، ہر لمحہ درد اور تکلیف کے فون سننا اور پھر بھی بے وقوفوں کی طرح خوش اخلاق رہنا صرف محمد عالم ہی کر سکتا ہے۔
کسی سے مانگنا، خواہ کسی بھی مقصد کے لیے ہو، انتہائی مشکل کام ہے اور وہ ایسا روز کرتا ہے۔ سال کے 365 دن کرتا ہے۔ اُس کی اپنی مالی حالت یہ ہے کہ تنخواہ مہینے کے ابتدائی دنوں میں خرچ ہوجاتی ہے۔ کمبائنڈ فیملی نے بھرم رکھا ہوا ہے۔ کچن ، بیوی کے علاج، سکول کی فیس اور یوٹیلیٹی بل دے کر آدمی کے پاس کیا رہ جاتا ہے…… جب واحد ذریعۂ آمدنی تنخواہ ہو؟ سو اگلا مہینا قرض سے شروع ہوجاتا ہے۔ آمدن اور خرچ میں عدم توازن سے پہلے ہی معاشرے کی اکثریت نفسیاتی عوارض اور معاشی دباو میں ہے۔ پھر 4 کروڑ سے اُوپر رقم جمع کرنا اور اُس کو بہ طریقِ احسن ضرورت مندوں تک پہنچانا، خود ایک مشکل کام ہے۔
محمد عالم نے پورے مینگورہ شہر کو مختلف وارڈوں میں تقسیم کیا ہے، جو بلدیاتی وارڈوں سے کہیں گنا مختصر ہیں۔ انھیں وارڈوں میں سکول، کالج، یونیورسٹی اور تعلیم سے اب فارغ شاگرد دو دو تین تین گلیوں کے ذمے دار ہیں، یا چھوٹے محلے میں ایک ایک گلی کے۔ وہ یہاں سے ڈیٹا جمع کرتے ہیں۔ بیواؤں، یتیموں، غریبوں اور سفید پوشوں کی یہ فہرست ’’کراس چیک‘‘ ہوتی ہے اور پھر اُن کی مدد اُن کے گھر کی دہلیز پر ہوتی ہے، جن میں سے آدھے سے زیادہ لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ مدد کون کر رہا ہے؟
رمضان المبارک اور عیدین پر امداد جمع کرنے اور تقسیم کرنے کا دباو کہیں گنا بڑھ جاتا ہے۔ رضاکارانہ کام کرنے والے بچے کئی کئی راتیں بغیر سوئے راشن کی پیکنگ کرتے ہیں۔ جمع شدہ کپڑوں اور جوتوں کو کھول کر چیک کرتے ہیں۔ کہیں مرمت کی ضرورت ہو، تو ماہر رضاکار نقص دور کرتے ہیں اور ایسے کہ نقص کا پتا تک نہیں چلتا۔
ہسپتال میں خون کے ضرورت مندوں کی مدد الگ سے محمد عالم اور ذکر شدہ وارڈ ارکان کی طرف سے ہو رہی ہوتی ہے۔
غریب ضرورت مند مریضوں کو ڈاکٹروں کو دِکھانے، آپریشن، ادویہ اور ہسپتالوں کے خرچے الگ پورا سال چلتے ہیں، جن میں ڈاکٹر اور ہسپتال مالکان علاج میں مدد کرنے کے ساتھ چندہ بھی دے دیتے ہیں۔
سکول کے بچوں کے لیے کتابوں اور اسٹیشنری فراہم کرنے کی مہم سال میں ایک دفعہ بڑے زور و شور سے چلتی ہے۔ مخیر حضرات مدد تو کرتے ہیں، مگر غریب اور متوسط طبقے کی امداد سب سے زیادہ ہے۔ ہر مہینا سو روپے دینے والوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ قدرتی آفات میں مدد کے وقت تمام رضاکار موجود ہوتے ہیں۔
غریب بچیوں کی شادی اور جہیز کا سامان مہیا کرنے کا عمل چلتا رہتا ہے۔ صرف اس گزرے ہوئے رمضان اور اُس سے پہلے والے مہینے میں 11 بچیوں کو اوسطاً 170 ہزار روپے فی سیٹ جہیز دیا گیا۔
ہم جیسے لولے لنگڑے لوگ مہر فاؤنڈیشن میں ’’شریک چیئرمین‘‘ کا عہدہ رکھتے ہوئے بھی پیچھے رہ جاتے ہیں، مگر فنڈ ریزنگ میں محمد عالم کا شدید دباو اور اُس کی حساسیت دیکھ کر اچھے اچھوں کا پِتّا پانی ہوجاتا ہے۔ سو ہم بھی جیسے تیسے ہمت جوڑ کر یار دوستوں اور جاننے والوں کی کنپٹی پر بندوق رکھ کر امداد وصول کرنے کے عمل میں جت جاتے ہیں۔
پچھلے سیلاب، ملک میں معاشی بدحالی اور کساد بازاری نے امداد دینے والوں کو بھی متاثر کیا ہوا ہے، جس سے عطیات میں کمی آئی ہے۔ اس کے مقابلے میں ضرورت مندوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ نتیجتاً چیلنج بہت بڑھ گیا ہے، مگر شکریہ ہر عطیہ دینے والے کا کہ انسانیت کا بھرم اب تک قائم ہے۔
ڈھیر سارے لوگ ضرورت مند ہیں، مگر امداد لیتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ ان کے لیے با عزت روزگار بہت چھوٹے پیمانے پر شروع کرنے کا سلسلہ بھی مہر فاؤنڈیشن کی طرف سے جاری رہتا ہے۔
ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو ان کی دہلیز پر جاکر امداد، ان کی ضروریات پوچھنا اور مدد کرنا آسان کام نہیں۔ یہ سلسلہ بھی پورا سال جاری رہتا ہے۔
منشیات کے عادی افراد کی بہ حالی کے مراکز اور ان افراد کو اعتماد دلانے اور مفید شہری بنانے کا کٹھن کام، کام کا حصہ ہے۔
جیل میں قید ملزمان اور مجرمان کو احساسِ محبت اور انسانیت کی امید کا پیغام دینا محمد عالم کا کام ہے۔ اس طرح شہر میں قائم یتیم خانوں میں جاکر ان کے ساتھ دن گزارنا اور بڑے کھانوں کے اہتمام کا بیڑا بھی محمد عالم نے اُٹھایا ہوا ہے۔
پس منظر میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو محمد عالم کو ناامید نہیں ہونے دیتے اور محمد عالم ان کو ہمیشہ اعتماد دیتا ہے کہ وہ تھکا نہیں۔
ایک شخص جو سو فی صد وقف ہے، جس نے ایک بڑے حلقے کو دوسروں کی مدد کرنے پر آمادہ رکھا ہوا ہے۔ ایک کثیر تعداد ضرورت مندوں کا بھرم قائم رکھے ہوئی ہے۔
محمد عالم نہ ہوتا، تو بھی دنیا چلتی، مگر اُس نے اولاً ایک نیک خیال کو جنم دیا، ثانیاً اس کو مجسم کیا، اور ثالثاً اس کو تادمِ تحریر دوام بخشے ہوئے ہے۔
خود کو شدید دباو میں رکھنے، پورا کام لینے اور مدد کے لیے ممکنہ نتائج وصول کرنے کے اپنے اوپر ظلم روا رکھنے پر مَیں اُس کا مشکور ہوں۔ اُس کو مجھ سے ایک گلہ ہے کہ مَیں پروگراموں میں شرکت نہیں کرتا۔ مَیں کر ہی نہیں سکتا کہ وہ دباو کم کر دے، تو جتنا تھوڑا سا کر رہا ہوں، وہ بھی ختم ہو جائے گا۔ میرے جیسے درجنوں لوگوں کو اُس نے انگیج رکھا ہوا ہے جو اپنے دائرے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ دعا ہے کہ یہ بہترین دوست، اعلا استاد، مستعد مددگار اور پیارا انسان زندہ و تابندہ رہے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔