تحریر: محمد راشد بھٹہ
انسان ابتدائے آفرینش سے ترقی کی منازل طے کرتا آرہا ہے۔ بہتری اور اچھے کی کوشش کے لیے انسان اپنی محنت جاری رکھے ہوئے ہے…… اور کائنات کو تسخیر کرنے میں مگن ہے۔ اب تک کی ترقی کی ضامن کوئی ایک قوم، طبقہ، جماعت، شخصیت یا تہذیب نہیں رہی، بلکہ ہر دور میں، ہر تہذیب نے اپنے حصے کا کردار ادا کیا ہے۔ بعد میں آنے والوں نے اُسے مزید آگے بڑھایا ہے۔
بقولِ سرسید احمد خان: ’’کوئی بھی اس ورثہ پہ سانپ بن کر نہیں بیٹھ گیا۔‘‘
اگر یونانیوں نے دنیا کو فلسفہ دیا، تو روم نے قانون سے روشناس کروایا ہے۔ مسلم دور نے اُس کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے طب، شاعری اور ریاضی جیسے شعبوں میں اپنا کردار ادا کیا۔ آج بھی دنیا کی طاقتیں اُس ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔
اگر چہ دنیا میں بہت سی قوموں نے اپنے حصے کی شمع جلائی ہے، تب جا کے یہ ’’تہذیب یافتہ‘‘ دور آیا ہے۔ تاہم ماضی کو ہمیشہ حال کے نقطۂ نظر سے پرکھا جاتا ہے۔ اس لیے آج دنیا کو لیڈ کرنے والے اس بات کا تاثر دیتے ہیں کہ دنیا میں جتنی ترقی ہوئی یا ہو رہی ہے، فقط ان کی مرہونِ منت ممکن ہوئی ہے۔ وہ ماضی کی تمام برائیوں کو دوسری قوموں سے جب کہ اچھائیوں کو اپنے آپ سے منسوب کرتے ہیں۔ لہٰذا ایسے دور میں ہمیں عالمی طاقتوں کے علاوہ کسی بھی قوم کی شان دار تاریخ، ماضی، ورثہ یا کوئی شخصیت نمایاں نظر نہیں آتی۔ البتہ ماضی کے حکم رانوں کا تذکرہ بھی تمسخر کے انداز میں کیا جاتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے قومیں اپنے مشاہیر کو ماننے سے انکاری ہیں۔
بہر حال ان تہذیبوں کی ترقی ہرگز کسی ایک شخصیت کی محنت کا نتیجہ نہ تھی، بلکہ ہر شخص نے اپنا جزوی کردارادا کیا ہے۔ تاہم کچھ شخصیات کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور ان کا اثر جدید دنیا پر بھی نظر آتا ہے۔ ایسی شخصیات ہر قوم میں پائی جاتی ہیں جو اس قوم کی پہچان بن جایا کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت ’’عمر خیام‘‘ ہیں…… جو مسلمانوں کے سنہری دور کا عکاس ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ مسلمانوں نے سائنسی و تہذیبی ترقی میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ تاہم یہ جاننے کے لیے عمر خیام کے حالاتِ زندگی اور کارناموں سے آگاہی لازم ہے۔
عمر خیام طبیب، فلسفی، سائنس دان، ریاضی دان، ماہرِفلکیات اور شاعر تھے۔ خیام، نیشاپور ایران میں 5 مئی 1047ء کو پیدا ہوئے اور 4 دسمبر 1131ء کو وفات پاگئے۔ ان کے والد ابراہیم کا آبائی پیشہ خیمہ سازی تھا۔ اسی وجہ سے عمر’’خیام‘‘ یا ’’خیامی‘‘ معروف ہوئے۔ اُن خیموں کے فوجی مقاصد کے لیے بہت زیادہ مانگ تھی۔ لہٰذا ان کا گھرانا معاشی لحاظ سے خوش حال تھا۔ ابتدا میں اس کام میں خیام نے اپنے والد کی اعانت کی تھی۔
خیام حافظِ قرآن تھے۔ عربی اور فارسی زبان پر عبور حاصل تھا۔ وہ ابنِ سینا کو اپنا مرشد تسلیم کرتے تھے۔ انھی کے فلسفے کے پیروکار تھے۔ اگرچہ خیام نے ابنِ سینا سے کوئی براہِ راست تعلیم حاصل نہ کی تھی۔
عمر خیام ماہرِ طب تھے۔ اس لیے ابتدا میں ملک شاہ کے دربار میں اُن کی تعیناتی بطورِ طبیب ہوئی تھی۔ ملک شاہ کے انتقال کے بعد خیام ان کے نئے جانشین کی انتقامی کارروائی کا نشانہ بنے اور پھر دربار سے علاحدہ ہوگئے۔
خیام کا شمار ایران کے عظیم سائنس دانوں میں ہوتا ہے۔ اُن کی سائنسی خدمات کا مشرق میں صدیوں تک چرچا ہوتا رہا، مگر اُس کی بازگشت یورپ میں 1851ء میں سنائی دی، جب الجبرا کا فرانسیسی ترجمہ ہوا تھا۔ اُن کی بیشتر سائنسی تصانیف عربی زبان میں ہیں۔
عمر خیام ایک شاعر بھی تھے۔ ان سے منسوب رباعیوں کے بارے میں شک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ بعض محققین کے مطابق 50 سے 60 رباعیاں متفقہ طور پر خیام کی تسلیم کی جاتی ہیں۔ مزید برآں فارسی ایڈیشنوں میں پائی جانے والی ایک سو سے زائد رباعیاں مشکوک ہیں۔ تاہم ایک ہزار سے زائد رباعیاں خیام سے منسوب کی جاتی ہیں۔
خیام نے اپنی شاعری میں آزاد خیالی پیش کی جس کی وجہ سے بعض دینی حلقے اُن سے نالاں تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اُس دور میں کفر و الحاد کے الزامات کو دھونے کی غرض سے خیام نے حج بھی کیا تھا۔
پروفیسر محسن فرزانہ لکھتے ہیں: ’’خیام نے انسان کی خصوصیات کو سمجھتے ہوئے اپنی آفاقی رباعیات کو امروز اور فردا میں سمجھی جانے والی زبان میں لکھا ہے۔ خیام نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اس کی قبر ایسی جگہ ہوگی، جہاں اس پر پھولوں کی بارش ہوتی رہے گی۔ آج اُس کا مزار ایک کنج میں واقع ہے اور وہ اکثر پھولوں سے ڈھکا رہتا ہے…… مگر مَیں تو اس سے آگے کہوں گا کہ خیام کی رباعیوں کے پھول دنیا بھر کے لاکھوں اعلا و ادنا، تعلیم یافتہ یا جاہل لوگوں کے دل و دماغ میں کھلے ہوئے ہیں۔‘‘
بعض لوگ خیام کو صوفی شاعر بھی گردانتے ہیں۔ اگرچہ وہ صوفیانہ علامات اور شاعرانہ امیجری کا استعمال اپنی رباعیوں میں کرتے ہیں۔ صبا اکبرآبادی نے ان کی ایک رباعی کا ترجمہ یوں کیا ہے:
چوگان ہے اک تقدیر تو مَیں ہوں اک گو
لے جاتا ہے وہ، جدھر بھی چاہے مجھ کو
میدان میں مجھ پہ کیا گزر جائے گی
یہ جانے وہ، میدان میں لے آیا جو
خیام نے فلسفی ہونے کے ناتے پانچ فلسفیانہ رسائل تصنیف کیے ہیں۔ تاہم اس کی شاعری اور فلسفیانہ تصانیف کائنات کے بارے میں اس کے تصور کو واضح کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جیسا کہ ان کی رباعی کا ترجمہ ہے:
لایا مجھے اضطراب گھبرایا سا
حیرت کے سوا حیات نے کیا بخشا؟
جب یاں سے گیا ہوں، تو گیا مر مر کے
یہ آنا، یہ رہنا، یہ چلا جانا کیا؟
جب خیام سے پوچھا گیا کہ جبریت اور اختیار کے دونوں مکاتب میں سے صحیح کون سا ہے؟ ایک مختصر جواب میں خیام نے جبریت کے حق میں رائے دی اور کہا کہ یہ نظریہ درست ہے۔ بشرط یہ کہ اس کے پیروکار بہت زیادہ مبالغے سے کام لے کر توہم کا شکار نہ ہوجائیں۔
عمر خیام کا تیار کردہ کیلنڈر ’’ملک شاہی تقوم‘‘1925ء تک ایران میں رائج رہا۔ خیام پر پہلی انٹرنیشنل کانفرنس سپین میں 16مئی 2006ء کو منعقد ہوئی۔ اُن کی رباعیات کو بہت سے فن کاروں نے اپنی موسیقی میں استعمال کیا ہے۔ خیام کی شخصیت پر فلمیں بنائی گئیں، ڈرامے اور ناول لکھے جاچکے ہیں۔
خیام نے کئی ایک تصانیف چھوڑی ہیں، اُن میں سے 10 کتابوں اور 30 رسائل کی نشان دہی کی گئی ہے۔ جن میں چار ریاضی پر، تین فزکس پر، تین مابعد الطبیعیات، ایک الجبرا اور ایک جیومیٹری پر ہے۔
1924ء میں عالمی تعاون سے عمر خیام کا مقبرہ تعمیر کیا گیا ہے، جو توجہ کا مرکز ہے…… لیکن خیام نے جو علمی کارناموں کا محل تعمیر کیا ہے، وہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔