تحریر: ریحان کاظمی
روسی شاعرہ آنا آخماتووا (Anna Akhmatova) کی حیات اور تخلیقات کا بیسویں صدی میں روس میں پیش آنے والے تاریخی واقعات سے گہرا رابطہ ہے، جن میں عالمگیر جنگیں، انقلاب اور سیاسی عتاب قابلِ ذکر ہے۔ شاعرہ کو بہت زیادہ مصایب جھیلنے پڑے…… لیکن انہوں نے زندگی میں ایک بار بھی سر نہیں جھکایا اور ان کی ایک بھی تصنیف میں مایوسی کا اظہار نہیں۔
آنا آخماتووا 1889ء میں ایک بحری انجینئر کے خاندان میں پیدا ہوئیں۔ 11 سال کی عمر میں اپنی پہلی نظم لکھی تھی۔ بچپن میں ہی سمجھ گئی تھیں کہ وہ شاعری ہی کرنا مناسب ہے، جو دل سے نکلے ۔ ان پر یہ بھی واضح تھا کہ شاعر دوسروں سے ہم دردی سیکھے۔ اس کے لیے اس کو خود مصایب کا سامنا کرنا ہوگا اور ان کو تنہا برداشت کرنا ہوگا۔ تب اس کی لکھی گئی شاعری دوسروں کے دکھ اور درد کو کم کر پائے گی۔
شاعری کی دنیا میں آنا کا ورود شان دار طریقے سے ہوا۔ ان کی نظموں کے دو مجموعوں کی اشاعت نے ثابت کیا کہ روس میں ایک نئی شاعرہ ابھر چکی ہیں جن کی تصانیف حیران کن طور پر سادہ ہیں…… لیکن مقدر کے جھٹکوں نے آنا کو خاموش کر دیا اور انہوں نے تقریبا ً 20 سال تک کوئی شاعری نہیں کی۔
آنا کی بہن تپ دق میں مبتلا ہو کر مرگئی۔ شوہر کو سیاسی الزام میں سزائے موت دے دی گئی۔ آنا کا، بیٹے کے سوا اس دنیا میں کوئی نہیں رہا۔ ناشر ان کی نظمیں شایع کرنے سے انکار کر رہے تھے۔ انہیں ڈر تھا کہ چوں کہ آنا کے شوہر پر خلافِ انقلاب سازش کا الزام عاید تھا…… اس لیے آنا کی تصانیف چھاپنے کے بعد ان پر بھی عتاب طاری کر دیا جائے گا۔
آنا کو غربت اور اکیلے پن سے دو چار ہونا پڑا۔ خاموشی کے ان سالوں کے دوران میں انہوں نے روسی ادب کے بارے میں سنجیدہ تحقیقات کیں۔ انہیں عظیم روسی شاعر ’’الیکساندر پوشکین‘‘ کے عہد میں خاص دلچسپی تھی۔ آنا نے پوشکین کی تخلیقات پر تفصیلی تجزیاتی مقالہ لکھا۔ اسی دوران میں انہوں نے بہت زیادہ تراجم بھی کیے…… بالخصوص ہندوستانی اور کوریائی شاعری کے۔ ان کے تراجم بلند پایہ ہیں، جو انتہائی مہارت کے ساتھ کیے گئے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران میں آنا معاشرے کی خدمت کرنے والے شاعر کے طور پر ابھریں۔ ان کی نظموں میں روسی عوام کی فتح پر پکا یقین ظاہر کیا گیا۔
جنگ کے دوران میں آنا شہر لینن گراڈ میں رہتی تھیں…… جس پر 9 سو دن سے زیادہ عرصے تک فسطائیوں کا محاصرہ جاری رہا۔ شہر کے دیگر باشندوں کی طرح شاعرہ بھی سردی اور بھوک سے متاثر رہی تھیں…… لیکن وہ زندہ بچ گئیں۔ اس عرصے میں انہیں کافی شہرت حاصل ہوئی…… لیکن آنا اسے بہت اہمیت نہیں دیتی تھیں۔ وہ ہمیشہ ہی دنیا کو حقیقت پسندانہ نگاہ سے دیکھتی رہیں۔ زندگی کے تمام مصایب کے باوجود وہ شکایت نہیں کرتی تھیں۔
آنا کو اس دنیا سے گئے پچاس سے زیادہ برس بت گئے ہیں…… مگر آج ان کی شاعری ہمارا بیش قیمت ورثہ ہے۔ ان کی نظمیں ایک ہی بار پڑھ کر پھر انہیں بھلایا نہیں جا سکتا۔ یوں لگتا ہے کہ ان میں آج کے دور کا عکس ملتا ہے۔ ان کی شاعری دل کو چھوتی ہے۔
جاتے جاتے ان کی ایک نظم ’’نغمۂ وصلِ موخر‘‘ جس کا ترجمہ ڈاکٹر مجاہد مرزا نے کیا ہے، ملاحظہ ہو:
چھاتی یوں سرد ہوئی، بن چارا
نہ ہوئے قدم مرے آوارہ
میں نے دستانے کو از دست راست
دستِ چپ پہ ہے کیا آشکارا
زینے لگتے تھے بہت سارے ہیں
گرچہ میں جانتی تھی تین سے وہ زیادہ نہیں
شجر شاہ بلوطاں میں خزاں بہکی ہوئی
مجھ سے متقاضی ہے کہ ساتھ مریں
میرے بے کیف مقدر نے مجھے دھوکا دیا
مَیں نے یک بار خزاں سے کیا یہ وعدہ
اے مری پیاری محبت سے بھری! ہاں، مَیں بھی
تیرے ہی ساتھ مروں گی، نہ تجھے چھوڑوں گی
نغمۂ وصلِ موخر ہے رواں ہونٹوں سے
ساتھ تاریکی میں لپٹے ہوئے گھر کو دیکھا
روشنی تھی تو محض کمرۂ شب خوابی میں
ہر طرف چھائی ہوئی سرد مہر آتشِ زرد
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔