اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ریاستی اقتدار پر فیصلہ کن مہر لگانے کا اختیار اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے۔
آزادی کے چند سالوں کے بعد ایسا محض اس وجہ سے ممکن ہوا کہ سیاست دان باہمی سر پھٹول، لڑائی جھگڑے اور سازشوں میں مشغول رہے۔ آزادی کے فوری بعد قائدِ اعظم کی بے وقت رحلت اور شہیدِ ملت لیاقت علی خان کے اندوہ ناک قتل کے بعد سیاسی مد و جزر پر اسٹیبلشمنٹ نے قبضہ جمالیا۔ کیوں کہ کسی بھی جماعت میں کوئی عوامی لیڈر موجود نہیں رہا تھا، جو اسٹیبلشمنٹ کو اس کی حدود میں رکھنے کی جرات کا مظاہرہ کرتا۔ بونے سیاست دان حرصِ اقتدار میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں اپنی سیاسی قوت کو اسٹیبلشمنٹ کے دروازے پر گروی رکھ آئے۔
دوسری طرف قائدین کا عوام سے کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا۔ لہٰذا وہ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سر نگوں ہوگئے۔اقتدار محض اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں ہی سے ممکن تھا۔ لہٰذا بیساکھیوں کا سہارا لیا گیا، جو آج تک سیاست دانوں کے ساتھ چپکی ہوئی ہیں۔ کوششِ بسیار کے باوجود بھی ان بیساکھیوں سے چھٹکارا ممکن نہیں ہوسکا۔ کیوں کہ سیاست دان ہوسِ اقتدار میں کچھ بھی کر گزرنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔
کمال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ خود بھی ان بیسا بیساکھیوں کو واپس لینے کے لیے آمادہ نہیں۔ ان خود ساختہ بیساکھیوں کو جس نے بھی توڑنے کی ہمت کی، اُسے یا تو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا، یا اُسے راستے سے ہٹا دیا گیا، تا کہ اسٹیبلشمنٹ کی بے تاج بادشاہی پر کوئی حرف نہ آ سکے۔ مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادت کو تسلیم نہ کرنے کی خو نے بھی اسٹیبلشمنٹ کو سہارا دیا ۔ اسٹیبلشمنٹ کی اکثریت کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا۔ لہٰذا مشرقی پاکستان احساسِ محرومی کا شکار ہو تا چلا گیا، جس کا خوف ناک نتیجہ 16 دسمبر 1971ء کو سانحۂ مشرقی پاکستان کی صورت میں ساری قوم کو جھیلنا پڑا۔
مشرقی پاکستان کی علاحدگی سے ہم زیادہ غیر محفوظ ہوگئے اور بھارت کو ہمارے خلاف مزید اقدامات کی جرات مل گئی۔ کشمیر پر بھارتی تسلط اور 5 اگست 2019ء کو کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے پر ہم کچھ بھی نہ کرسکے۔ کشمیر ی اپنی لاشیں اُٹھاتے رہے اور ہم محض بیان بازی پر اکتفا کرتے رہے۔ کشمیر پر کرفیو کے نفاذ کو 5 سال ہوگئے ہیں، لیکن ہماری جماعتیں بھارتی جارحیت پر مکمل خاموشی سادھے ہو ئے ہیں۔ اُنھیں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے فرصت ملے، تو کشمیر کے بارے میں کوئی لائحۂ عمل تشکیل دیں، لیکن یہاں توقومی قائدین کو باہمی الزام تراشیوں سے ہی فرصت نہیں مل رہی۔ لہٰذا کشمیر کا مقدمہ کون لڑے گا؟
ذوالفقار علی بھٹو وہ پہلا قومی لیڈر تھا، جس نے اسٹیبلشمنٹ کی سپریمیسی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، جس کے نتیجے میں اسے اپنی جان کا نذرانہ دینا پڑا۔ میاں برادران کے لیے یہ سنہری موقع تھا کہ وہ جنرل ضیاء الحق کی سرپر ستی میں اقتدار کے دعوے داربن جائیں اور ایسا ہی ہوا۔ اُنھیں پنجاب کے اقتدار سے نوازا گیا اور اُنھوں نے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مل کر پی پی پی پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔
مارچ 1993ء میں وزارتِ عظمی سے بے دخلی کے بعد میاں محمد نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کے در پر سجدۂ سہو ادا کرنے پر جنوری 1997ء میں اقتدار سے دوبارہ نوازا گیا۔
دوسری طرف بی بی شہید ساری عمر اسٹیبلشمنٹ سے جنگ کرتی رہیں اور اسی جنگ میں اپنی جان کی قربانی دے کر اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ اُنھیں کبھی اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی نہ مل سکی، جب کہ میاں برادران اسے سیکورٹی رسک قرار دے کر اس کی توہین کرتے رہے۔
پی پی پی اور اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ دو متوازی کناروں پر ایک دوسرے کو تولتے رہے، لیکن کبھی ایک پیج پر نہ آ سکے۔ اب آصف علی زرداری اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہیں، جس سے پنجاب سے پی پی پی کا صفایا ہوچکا ہے۔ پی پی پی کا جیالا جنرل ضیاء ا لحق کے منھ بولے بیٹے سے کیسے ہاتھ ملاسکتا ہے؟ بی بی شہید کا میثاقِ جمہوریت میاں برادران سے ہاتھ ملانا نہیں تھا، بل کہ اسٹیبلشمنٹ کی بے جا مداخلت کو روکنا تھا، تا کہ جمہوریت آزادانہ پھل پھول سکے۔ پی پی پی کی ساری جد و جہد کا محور ہی عوامی حاکمیت کا یہ دل کش نعرہ تھا کہ ’’طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں!‘‘لیکن جب طاقت کا سر چشمہ بدل جائے اورپی پی پی کی قیادت طالع آزماؤں کے بیانیے کی معاون بن جائے، تو پھر پی پی پی عوامی غیظ و غضب سے کیسے بچے گی؟
بی بی شہید کی شہادت کے بعد میثاق بھی وقت کی دھول میں گم ہوگیا۔ پارٹی کا نظریہ، اس کی جد و جہد، اس کی قربانیاں اور اس کی شہادتیں نئی قیادت کے دل سے محو ہوگئیں۔ ’’جیے بھٹو‘‘ کا نعرہ محض ایک دِکھاوا ہے، جس سے کام نہیں چل سکتا۔ اب آصف علی زرداری، میاں برادران اور اسٹیبلشمنٹ یک جان و دو قالب ہیں…… اور وہ پار ٹی جس کے قائدین نے جمہوریت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا تھا، ا قتدار کی چوکھٹ پر قربان کر دی گئی ہیں۔ ایک جدید، لبرل اور ترقی پسند جماعت، دولت کے پجاریوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پی پی پی کی جمہوریت کے لیے بے شمار قربانیاں ہیں۔ لہٰذا اسے ہمہ وقت جمہوری روایات کے لیے کمر بستہ رہنا چاہیے کہ یہی ذ والفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی راہ تھی۔
یہی وہ واحد جماعت ہے، جو غریبوں، مزدوروں، کسانوں، مجبوروں، مقہوروں اور پسے ہوئے طبقات کی نمایندہ جماعت ہے۔ اگر یہ بھی اپنی ڈگر سے ہٹ گئی، تو محروم طبقات کی جنگ کون لڑے گا؟
بھارت کے پاس پنڈت جواہر لال نہرو اور ابو الکلام آزاد جیسی قد آور لیڈر شپ تھی۔ لہٰذا وہاں پر فوجی مہم جوئی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اس وقت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے، جب کہ ہم تندموجوں کے تھپیڑوں کی زد میں ہیں۔
2024ء کے انتخابات میں شکست کے بعد میاں محمد نواز شریف نے ایک گہری سازش کے تحت اپنے بھائی میاں محمد شہباز شریف کو وزیرِ اعظم کی مسند دلوا ئی اور اپنی سپتری (بیٹی) کو وزیرِ اعلا پنجاب کی مسند پر جلوہ افروز کر دیا۔ چوری کا مینڈیٹ ہوگا، تو پھر عدمِ استحکام نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا؟
سوال یہ ہے کہ وہ عدالتی نظام جو ایک سو پیشیوں کے بعد اپنا صادر کردہ فیصلہ کسی سمجھوتے کے بعدایک ہفتہ کے اندررول بیک کر دے اور ایک نا اہل سزا یافتہ مجرم کو پارلیمنٹ کے لیے اہل قرار دے دے، توپھر بتایا جائے کہ انصاف کا خون کسے کہتے ہیں؟
اگر انتخابی عمل کی روح یہی ہے کہ سمجھوتوں ہی سے اقتدار کا فیصلہ ہو نا ہے، تو پھر الیکشن کی بساط بچھانے کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ الیکشن تو عوام کی آزادانہ رائے کا نام ہے، لیکن اگر آزادانہ رائے کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو، توساری مشق، کارِ لا حاصل تصور ہوگی اور عوام کا انتخابی عمل سے اعتبار اُٹھ جائے گا۔
صاحبِ نظر، صاحبِ دانش اور انصاف پسند حلقوں کو تو غیر جانب دار، شفاف اور آزادانہ انتخابات نظر نہیں آئے، تبھی تو وہ کھلے عام دھاندلی کا رونا رو رہے ہیں، لیکن کوئی ان کی آوز سننے کے لیے تیار نہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا کٹھ پتلیوں کی جیت مسائل کا حل ہوگی اور کیا ملک ترقی کی شاہ را ہ پر گام زن ہو جائے گا ؟جنھیں زعمِ باطل تھا کہ وہ ریاستی معاملات سنبھال لیں گے، وہ بھی اپنے فیصلے پر پشیمان ہیں۔ کیوں کہ ملک بالکل گہری کھائی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اگر اب بھی ذاتی انا کو ایک طرف نہ رکھا گیا، توکچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔ انانیت کی بہ جائے وطن کی سالمیت، عوام کی خوش حالی، آئین کی پاس داری، جمہوری روایات کی مضبوطی، شفاف انتخابات، مصالحت اور صبرو تحمل کو پیشِ نظر رکھاجائے گا، تو پائیدار حل نکلے گا۔ وگرنہ انتشار اور سیاسی رسہ کشی معاملات کو مزید الجھا دے گی۔ مشتری ہوش یار باش!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔