اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسکو میں کوپ 26 ماحولیاتی کانفرنس، برطانیہ کی زیرِ صدارت 12 نومبر تک جاری رہا۔ گلاسکو سمٹ میں 120 سے زائد ممالک کے سربراہانِ مملکت، متعدد تنظیموں اور ماحولیاتی ماہرین نے حصہ لیا۔ پاکستان کی نمائندگی وفاقی وزیرِ موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے کی۔ کانفرنس میں خصوصی طور پاکستان پویلین بنایا گیا تھا۔ جرمن چانسلر، متحدہ عرب امارت کے وزیرِ ماحولیاتی تبدیلی نے پویلین دیکھا جب کہ عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک،اسلامی ترقیاتی بینک کے صدور سمیت ڈی جی ریلیف انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے پاکستانی پویلین کا دورہ کیا۔ ڈی جی ریلیف انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے پاکستان کے ذمہ دارانہ نیوکلیئر ملک ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے دورہ اورمدد کی بھی پیشکش کی۔ جب کہ کئی عالمی رہنما ؤں سے سائیڈ لائن ملاقات بھی ہوئی جس میں صدر بائیڈن اور چانسلر مرکل بھی شامل ہیں۔ سمٹ کو منتظمین کی جانب سے گلوبل وارمنگ سے انسانیت کو بچانے کے حوالے سے انتہائی اہم قرار دیا جارہا ہے۔
خیال رہے کہ چینی صدر شی جن پنگ، روسی صدر ولادیمیر پوتن اور ترک صدر رجب طیب اردوان اس سمٹ میں شریک نہیں ہیں، تاہم چین کے صدر کا تحریری پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔ چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وینگ وینبن کے مطابق کانفرنس کے منتظمین کی جانب سے ویڈیو لنک فراہم نہیں کیا گیا تھا اور چینی صدر نے کرونا وبا کی صورتِ حال کے باعث شرکت نہیں کی، جب کہ ترک صدر سیکورٹی کی صورتِ حال پر عدم اطمینان کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے۔ امریکی جو بائیڈن نے روس اور چین کی عدم شرکت پر کہا کہ 120 ممالک کی سربراہ کانفرنس میں شرکت نہ کرنا بڑی غلطی ہے ۔
٭ عالمی موسمیاتی تبدیلوں پر عملی اقدامات نہ اٹھانے پر تنقید:۔ سمٹ کے دوران میں ماحولیات سے وابستہ بعض تنظیموں نے احتجاج اور مظاہرے بھی کیے کہ عالمی قوتوں کو اب زبانی کلام سے آگے بڑھتے ہوئے عملیت کی جانب قدم اٹھانا چاہیے۔ بالخصوص امیر ممالک جن کی معیشت کا دار و مدار ایسی صنعتوں پر ہے، جس کے باعث ماحول کا درجۂ حرارت اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ جرمنی کی چانسلر انگیلا میر کل کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے 2015ء (پیرس معاہدے) میں رہنما خطوط کے طورپر کئی اہم فیصلے کیے تھے۔ ہمیں یہ بات ایک بار سے زائد سننے کو ملی ہے کہ ہم ابھی تک وہاں نہیں پہنچے ہیں جہاں ہمیں ہونا چاہیے تھا۔ ہمیں پیرس معاہدے کو نافذ کرنا ہوگا اور ہم اسے نافذ کرسکتے ہیں۔ عالمی برادری کو ہم سے یہ امید ہے کہ ہم اس کانفرنس کے اختتام پر اپنے آپ کو اس سے زیادہ بہتر شکل میں پیش کریں گے جیسا کہ ہم نے خود کو آغاز میں پا یا تھا۔‘‘
2015ء کے پیرس معاہدے کے بعد بڑے پیمانے پر سمٹ کا انعقاد عملی اقدامات کے لیے سنجیدگی کا متقاضی ہے۔امریکہ، پیرس عالمی ماحولیاتی معاہدے سے الگ ہوگیا تھا، تاہم نئے امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے سابق صدر ٹرمپ کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے امریکہ کو پیرس معاہدہ کا دوبارہ حصہ بنالیا۔ جنوری کو عہدہ سنبھالنے کے چند گھنٹوں کے اندر، صدر بائیڈن نے پیرس معاہدے میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرنے والے 17 سمیت، 40 عالمی رہنماؤں کا موسمیاتی سربراہی اجلاس بلایا اور 2030ء تک اخراجوں میں 50-52 فیصد کمی کا اعلان کیا، جس کا مقصد 2050ء تک نیٹ زیرو تک پہنچنے کی راہ پر ڈالنا قرار دیا گیا۔ امریکہ کا کردار ماحولیات کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ کیوں کہ معیشت کو مضبوط بنانے کے نتیجے میں انہیں علاقائی عدم استحکام کا بھی سامنا درپیش ہے۔ بیشتر امریکی ریاستوں میں آب و ہوا کی تبدیلی، خشک سالی، سیلاب، طوفانوں اور جنگلی حیات کو آگ سے نقصانات کا سامنا ہورہا ہے۔ امریکہ اس امر کا اقرار کرتا ہے کہ آب و ہوا کے بحران سے اکیلا نہیں نمٹا جاسکتا۔ عالمی حدت کو 1.5 ڈگری سنٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے لیے اقوا مِ عالم کو سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے۔
٭ گلاسکو کانفرنس کا مرکزی نکتہ:۔ گلاسکو کانفرنس میں 2050ء تک درجۂ حرارت کی کمی اور زیرو پوائنٹ تک لانا اہم ایجنڈا کا حصہ بن چکا ہے، جب کہ چین 2060ء تک زیرو پوائنٹ پر لانے کا خواہش مند ہے۔ عالمی ماحولیاتی سر براہی اجلاس میں درجۂ حرارت کی کمی کے لیے اقدامات کے عہد بھی کیے جا رہے ہیں۔ اسی ضمن میں 100 سے زائد ممالک نے 2030ء تک جنگلات کی تباہی کو روکنے کے عہد کا اعلان بھی کیا ہے، جو اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے خطیر رقم کے فنڈ جمع کرنے پر اتفاق رائے ہوا ہے۔ خیال رہے کہ جنگلات کو تباہی سے روکنے کے منصوبے میں شامل 100 سے زائد ممالک میں شامل جرمنی اور یورپی یونین دنیا کے 85 فیصد رقبے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ 34 ملین مربع کلومیٹر کا رقبہ بنتا ہے۔ امریکی صدر نے 2050ء تک ملک کو کاربن فری بنانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ اس کے لیے ماحول دوست منصوبوں میں ہوا، شمسی توانائی، الیکٹروک گاڑیوں اور ماس ٹرانزٹ منصوبوں کی حوصلہ افزائی کا بھی عندیہ دیا ہے۔
٭ عالمی ماحولیاتی کے بحران سے انسانی صحت کو لاحق خطرات:۔ عالمی طبی جریدے ’’لانسیٹ‘‘ کی جانب سے جاری کردہ سالانہ رپورٹوں میں صحت کے 44 مسائل کو ماحولیاتی تبدیلیوں کا ذمہ قرار دیا گیا ہے۔ گرمی کی شدت کے باعث اموات، متعدی وبائی امراض اور نقلِ مکانی کے باعث غذائی قلت کو شامل کیا گیا ہے۔ ’’لانسیٹ کاؤنٹ ڈاؤن‘‘ پروجیکٹ کی ریسرچ ڈائریکٹر اور بائیو کیمسٹ ’’مرینا رومانیلو‘‘ نے دنیا کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر بیماری سنگین ہو تی جارہی ہے۔ رپورٹ کی شریک مصنفہ اور یونیورسٹی آف واشنگٹن میں انوائرمینٹل ہیلتھ کی پروفیسر ’’کرسٹی ایبی‘‘ کا ماننا ہے کہ ان کے اسباب کی وجہ دنیا میں درجۂ حرارت کا بتدریج بڑھنا ہے۔ ’’انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس‘‘ کی جانب سے ’’ایکولوجیکل تھریٹ رپورٹ‘‘ میں دنیا کے 178 ممالک کے ماحولیاتی نظام کے حوالے سے جائزہ لیا گیا ہے، تاکہ ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کن کن ممالک کو کس قسم کے مضر اثرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ خوراک اور پانی سے متعلق خطرات، آبادی میں اضافہ، درجۂ حرارت میں تبدیلیاں اور قدرتی آفات سے متعلق ڈیٹا کا مقامی اقتصادی صورتِ حال، حکومت، کاروباری ماحول اور انسانی حقوق کے ڈیٹا کے ساتھ موازنہ کرکے یہ رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔ رپورٹ میں ان خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ نقصانات کے ازالے کے لیے حکمت عملی وضع نہ کرنے سے تین خطے ایسے ہیں جہاں تنوع تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر انسانی ہجرت کے خدشات کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ ماحول سے پہنچنے والے نقصان کو قابو کرنے کی ضرورت ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس کے یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ڈائریکٹر سیرج اسٹروبانٹس کے مطابق کہ اس رپورٹ میں ایسے 30 ممالک کی نشان دہی کی گئی ہے جہاں کے ماحولیاتی نظاموں کو شدید خطرات لاحق ہیں اور وہاں مالی بدعنوانیاں، کمزور ادارے، کاروبار کرنے کا ناموافق ماحول اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم جیسے مسائل عام ہیں۔ ان ممالک میں سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ممالک میں ایران، موزمبیق، ماڈاگاسکر، پاکستان اور کینیا ہیں۔ اس وقت تو یہ ممالک بظاہر مستحکم ہیں…… لیکن ان کے ماحولیاتی نظاموں کو خطرہ ہے۔ یہاں امن و امان کی صورتِ حال بھی کمزور ہے جس کے باعث انہیں مستقبل میں شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
٭ عالمی ماحولیاتی کے بحران سے دنیا کو پانی کی کمی کا سامنا:۔ ماحولیاتی تبدیلیوں میں سب سے سنگین مسئلے، پانی کی شدید قلت نے خطرناک صورتِ حال پیدا کردی ہے، گلیشیر کے پگھلنے کے عمل کے بعد موسمیاتی تبدیلیوں نے سب کچھ بدلنا شروع کیا ہوا ہے۔ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کو کم از کم پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ پانی کے بحران کو ورلڈ اکنامک فورم کے عالمی خطرات کے لحاظ سے ’’امپیکٹ لسٹ‘‘ میں 2012ء کے بعد سے پہلے پانچ بڑے معاملات کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ 2017ء کی شدید خشک سالی نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کے دور کا بدترین انسانی بحران پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس دوران میں افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے دو کروڑ افراد خوراک کی کمی اور تنازعات کے باعث گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر اوکلینڈ میں قائم پیسفک انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ پیٹر گلیک نے گذشتہ تین دہائیوں میں پانی کی قلت، تنازع اور ہجرت کے درمیان تعلق کا مطالعہ کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پانی پر تنازعات بڑھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’بہت ہی کم استثنا کے ساتھ، کوئی بھی پیاس سے نہیں مرتا، لیکن زیادہ تر لوگ آلودہ پانی یا پانی تک رسائی کے تنازعات میں مر رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس نے خبردار کیا ہے کہ آگ لگا کر، کھدائیاں کر کے ، سرنگیں بنا کر، زمین کو نقصان پہنچا کر انسان اپنی قبریں خود کھود رہے ہیں۔ گلاسگو موسمیاتی کانفرنس سے خطاب میں انتونیو گوتریس نے یہی مطالبہ کیا کہ کرۂ ارض اور انسانیت کو بچانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔
٭ ماحولیاتی بحران کو مالیاتی بحران کا سامنا:۔ عالمی ماحولیاتی بحران کو حل کرنے کے لیے دراصل مالیاتی فنڈز کا مہیا نہ ہونا اہم سبب بنا ہوا ہے۔ سمٹ میں زیادہ توجہ سے اس امر کی جانب مبذول کرائی گئی کہ امیر ممالک اور ایسے ادارے جنہوں نے اپنی ترقی کے لیے ماحولیات کو شدید نقصان پہنچایا ہے، وہ اب فنڈز کی فراہمی کو ممکن بنائیں تاکہ ایسے ترقی پزیر ممالک جہاں اشیائے صرف کی تیاری کے لیے کم معاوضے پر ایسی مصنوعات تیار کی جاتی ہیں جو امیر ممالک میں استعمال ہوتی ہیں لیکن اس کے مضر ذرات کی وجہ سے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو نقصان کو کم کیا جاسکے۔ بتایا جا رہا ہے کہ دنیا میں 191 ملکوں میں سے صرف آٹھ ممالک ہی پیرس ماحولیاتی معاہدے کے اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے تحت دنیا کے تمام ملکوں کے لیے عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کو دو ڈگری سیلسیئس سے نیچے رکھنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے اور کوشش کی جا رہی ہی کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرکے اسے 1.5 ڈگری سیلسیئس سے زیادہ نہ بڑھنے دیا جائے۔
٭ عالمی ماحولیاتی بحران میں ترقی یافتہ ممالک اصل ذمہ دار:۔ دنیا کے ترقی یافتہ صنعتی ملکوں اور خاص طور سے امریکہ، یورپی یونین کے بڑے ممالک اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کو کاربن ڈائی آکسائڈ گیس کے اخراج اور زمین کی حدت میں اضافہ کا اصل ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران میں موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں ہونے والے چند اجلاسوں میں، ماحولیاتی ضابطوں کی پابندی اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے مطالبات بھی زیادہ تر، اس صورتِ حال کے اہم ذمہ دار ملکوں سے کیے جاتے رہے ہیں، لیکن اب تک ان مطالبات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور اس بارے میں اب تک کوئی ٹھوس اور مؤثر قدم بھی نہیں اٹھایا گیا۔ خیال رہے کہ امریکی فوج تیل کی سب سے زیادہ کھپت کرنے والا ادارہ ہے۔ امریکی فوج کے زیرِاستعمال گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں بھی فضا کو آلودہ کرنے کا سبب بنتا ہے۔ دنیا میں استعمال ہونے والے تیل کی پوری کھپت کا 25 فیصد جنگی جہازوں میں استعمال ہو جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق امریکہ، ڈنمارک اور نیوزی لینڈ جیسے زیادہ آمدنی والے ممالک ترقی پذیر ممالک کے مقابلہ میں دوگنا کوڑا پیدا کرتے ہیں۔ امیر ممالک کے باشندے نہ صرف زیادہ مصنوعات استعمال کرتے ہیں اور ان کی ویسٹ دیگر کوڑے کرکٹ کے مقابلہ میں پیپر اور پلاسٹک کا فضلہ زیادہ ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امیر ممالک میں اوسط فی کس ویسٹ کی شرح زیادہ ہے، تاہم ترقی پذیر ممالک دنیا بھر میں پیدا ہونے والے کل کچرے کا آدھے سے زیادہ حصہ پیدا کرتے ہیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ کچرے کی شرح میں کمی کے لیے جامع حکمت عملی کے تحت مربوط اقدامات کرے، تاکہ کرۂ ارض سمیت آبی ذخائر اور ماحولیات کی آلودگی جیسے مسائل سے تحفظ فراہم کیا جاسکے۔
٭ درجۂ حرارت میں کمی لانے کے لیے فنڈز مہیا کرنے کے وعدے:۔ امریکی صدر کی جانب سے آب و ہوا کی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے 555 ارب ڈالرز کا بل جمعرات کو کانگریس میں پیش کیا ہے۔ منظور ہونے کے بعد یہ امریکی تاریخ کا سب سے بڑا پیکیج ہوگا، جب کہ صدر بائیڈن کے مجوزہ پیکیج میں 100 ارب ڈالرز جنگلات میں لگنے والی آگ، سمندری طوفانوں اور خشک سالی سے نمٹنے پر خرچ کیے جا نے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ امریکہ ترقی پذیر ممالک کو آب و ہوا کی تبدیلی کے خطرات سے بچانے کے لیے ایک منصوبہ لانے کا ارادہ رکھتا ہے جس کے ذریعے 2024ء تک امریکہ سالانہ تین ارب ڈالر کی امداد دے گا۔ یہ امداد ماضی کی امداد سے دو گنا ہو گی اور امریکی حکام پراُمید ہیں کہ اس امداد میں اضافہ سے ترقی پذیر ممالک کے سالانہ 100 ارب ڈالرز کے ہدف تک پہنچا جا سکے گا۔ بینک آف امریکہ کے سی ای اُو برائن موئنہان نے کہا کہ ان کا بینک موسمیاتی فنانسنگ میں سالانہ 100 بلین ڈالر جمع کرے گا۔ 114 رہنماؤں نے جنگلات کو بچانے کے لیے ایک نئے منصوبے کی توثیق کی جس کی حمایت میں 12 بلین عوامی اور 7.2 بلین پرائیویٹ فنڈنگ ہے۔ 30 سے زائد مالیاتی اداروں کے CEOs نے جنگلات کی کٹائی سے منسلک سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کو ختم کرنے کا عہد کیا۔ بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن دنیا بھر کے چھوٹے کاشت کاروں کو فصلوں کی پیداوار بڑھانے میں مدد کے منصوبے کے لیے 31 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا عطیہ فراہم کرے گی۔ بل گیٹس کا کہنا ہے کہ 31 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے عطیہ کے علاوہ اگر ایک ارب ڈالر اضافی میسر آجائیں، تو اس کاوش کو مزید بہتر انداز سے پورا کرنے میں مدد ملے گی۔
توقع کی جا رہی ہے کہ 12 نومبر تک عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں فنڈنگ کے مسائل پر سیر حاصل پیش رفت ممکن ہوسکتی ہے، تاہم یہ ابھی تک وعدے وعید تک ہی مبنی ہیں، جب تک دنیا کے ترقی یافتہ صنعتی ملکوں میں ایسے منصوبوں کو کم اور ختم نہ کیا جاتا جن کی وجہ سے دنیا کا درجۂ حرارت بڑھتا جارہا ہے۔ اس وقت تک توقع نہیں کی جاسکتی کہ دنیا کی بڑی آبادی کو عظیم تباہی سے بچایا جاسکے۔ عالمی ماحولیاتی بحران کو کم کرنے کے لیے دنیا کے ترقی یافتہ صنعتی ملکوں کو ترقی پذیر ممالک میں زیادہ کام کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ کیوں کہ ان کے لیے ترقی پذیر اور غریب ممالک ایسی اشیا کے بنانے میں مصروف ہیں جو صرف ان ممالک کو ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک کو بھی مستقبل میں ماحولیاتی مسائل سے دوچار کررہا ہے۔ جہاں جنگوں نے کرۂ ارض کی آب و ہوا کو تبدیل کیا، وہاں جدید سہولیات کے حصول نے خود انسانوں کے لیے خوف ناک مسائل پیدا کردیے ہیں جسے عملی طور پر اقدامات سے ہی نمٹا جاسکتا ہے۔
……………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔